مہدی حسن غزل گائیکی میں بے مثال مہارت کے حامل انتہائی منفرد فنکار تھے۔ وہ اپنی راگ داری کی بے پناہ صلاحیتوں کا جس انداز میں استعمال کرتے تھے، اس کی مثال دینا انتہائی مشکل ہے۔
اشتہار
اٹھارہ جولائی سن 1927 کو بھارتی ریاست راجستھان کے ضلع جودھ پور کے ایک چھوٹے سے گاؤں لُونا میں پیدا ہونے والے بچے کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا کہ ایک دن آسمانِ گائیکی کا یہ ایک ستارہ بنے گا۔ مہدی حسن خان نے بچپن سے ہی گائیکی کی تربیت اپنے والد استاد عظیم خان اور چچا استاد اسماعیل خان سے حاصل کرنا شروع کر دی تھی۔ استاد عظیم خان اور اسماعیل خان کلاسیکی موسیقی کے دُھرپد اسلوب کے فنکار تھے۔
دھرپد گائیکی میں حاصل کی گئی تربیت ہی نے مہدی حسن کو غزل گائیکی میں ایک منفرد انداز بخشا۔ وہ راگ داری پر بھی مکمل عبور رکھتے تھے۔ کئی محافلِ موسیقی میں ملتے جلتے راگوں کے فرق کو اپنے سامعین کے لیے آسان فہم انداز میں بیان کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح ان کے گائے ہوئے فلمی گیت بھی شاندار خیال کیے جاتے ہیں۔
مہدی حسن نے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ قریب سبھی براعظموں میں کیا ہے۔ ہر جگہ ان کے فن کو شاندار پذیرائی حاصل ہوئی۔ اُن کے فن کے معترف صرف عام سامعین ہی نہیں تھے بلکہ کلاسیکی موسیقی کے فنکار اور ہلکی پھلکی موسیقی کے گلوکار بھی انہیں احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
مشہور زمانہ بھارتی گلوکارہ لتا منگیشکر نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ مہدی حسن کے گلے میں بھگوان بولتا ہے۔ موسیقی کے ماہرین کا اتفاق ہے کہ مہدی حسن نے مشہور غزل گانے والوں کے عہد میں ایک منفرد اسلوب کو متعارف کرایا اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوابا۔ ماہرین کا یہ بھی متفقہ خیال ہے کہ وہ پیدائشی فنکار تھے اور اُن کو ودیعت کی گئی قدرتی صلاحیتیں وقت کے ساتھ ساتھ اور ان کے مسلسل ریاض سے نکھرتی چلی گئیں۔
یہ ایک عام تاثر ہے کہ مہدی حسن کے اندازِ گائیکی نے پاکستان میں کئی گلوکاروں کو متاثر کیا اور اسی طرح بھارت میں جگجیت سنگھ اور انوپ جلوٹا سمیت نئے گلوکار بھی متاثر دکھائی دیے۔ غزل گائیکی کے مشہور پاکستانی گلوکار غلام علی کا کہنا ہے کہ مہدی حسن خان نے جس فن کا مظاہرہ کیا ہے وہ کسی اور کے بس کی بات نہیں تھی۔ غلام علی بھی پاکستان اور بھارت میں اپنی غزل گائیکی میں ایک جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں۔
مہدی حسن خان تیرہ جون سن 2012 کو انتقال کر گئے تھے لیکن اُن کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو پورا کرنے کے لیے کوئی اور فنکار اب تک دکھائی نہیں دیتا۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ جس طرح پاکستان میں جمالیاتی فنون کو زوال کا سامنا ہے، ایسے میں کسی اور مہدی حسن کے ابھرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ دوسری جانب بھارت میں بھی بظاہر کلاسیکی موسیقی کی ترویج تو جاری ہے، لیکن غزل گائیکی کا میدان خالی ہے۔ جگجیت سنگھ کے انتقال کے بعد وہاں بھی غزل گائیکی اجڑتی ہوئی دیکھی جا رہی ہے۔
اسلام آباد میں رقص و موسیقی کے رنگ
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں سترہ سے لے کر اُنیس اپریل تک جاری رہنے والے رقص و موسیقی کے ایک سہ روزہ میلے میں نامور فنکاروں نے شرکت کی۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
پھول سے برسے آگ
جہاں اس میلے کے اسٹیج سے گلوکاروں اور موسیقاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا، وہاں اس طرح کی لائیو پرفارمنس نے بھی لوگوں پر سحر طاری کر دیا۔ ایک خاتون فنکارہ آگ کے شعلے اگلتے ہوئے حاضرین کو دم بخود کر رہی ہے۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
مست مست دم مست قلندر
میلے میں صوفی بینڈ پپو سائیں کے فنکار ڈھول کی تھاپ پر روایتی رقص کر رہے ہیں۔ اس میلے کے ذریعے ایک طرح سے فنکاروں نے خود یہ بڑا اٹھایا ہے کہ موسیقی کی صنعت کو درپیش مسائل کا مل بیٹھ کر جائزہ لیا جائے اور موسیقی کو ایک مکمل صنعت کا درجہ دلوانے کے لیے کوششیں کی جائیں۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
کرشن لال بھیل کے سُر
پاکستان علاقے چولستان سے تعلق رکھنے والے کرشن لال بھیل نے بھی میلے میں اپنے مخصوص سُر بکھیرے۔ اسلام آباد کے بہت سے باسیوں کے لیے اس طرح کے شاندار اور منظم اجتماع کا اہتمام ایک خوش کُن لیکن غیر متوقع بات تھی۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
موسیقی کے ساتھ ساتھ رقص بھی
چولستان کے فنکار کرشن لال بھیل کے گیتوں کے ساتھ ساتھ اُس علاقے کی فنکار خواتین مقامی رقص بھی پیش کرتی رہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کے اس میلے کو ایک مستقل مقام مل جائے گا۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
اسلام آباد کی فضاؤں میں بین کی تان
میلے کی دوسری شام ایک فنکار بین بجاتے ہوئے حاضرین سے داد سمیٹ رہا ہے۔ اب اس طرح کے میلے پاکستان کے دیگر بہت سے چھوٹے بڑے شہروں میں بھی سجانے کا سوچا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
فضل جٹ کی تانیں
مشہور پنجابی فوک گلوکار فضل جٹ نے بھی ایک شام اس میلے میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور خوب داد سمیٹی۔ اس میلے کا ایک مقصد موسیقی کی وساطت سے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا تھا۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
شہر یار مرزا انگریزی گیت گانے میں مگن
گلوکار شہر یار مرزا نے اپنے انگریزی گیت کے ذریعے حاظرین کے دل موہ لیے۔ اس میلے کے دوران لوگوں کو دعوت ناموں کے ذریعے مدعو کیا گیا تھا۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
اریب اظہر کا جادو
اگرچہ معروف فنکار اریب اظہر نے اس میلے کے دوران اپنے فن کا جادو بھی جگایا تاہم وہ ساتھ ساتھ اس میلے کے منتظمین میں بھی شامل تھے۔ اس اجتماع سے محظوظ ہونے والوں میں بڑی تعداد میں غیر ملکی بھی شامل تھے۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
پاکستانی ثقافت کے فروغ میں امریکی دلچسپی
میلے کی ایک شام اسلام آباد میں واقع امریکی سفارت خانے کا ایک نمائندہ شائقین کا شکریہ ادا کر رہا ہے کہ وہ اتنی بڑی تعداد میں اس اجتماع میں شرکت کے لیے آئے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ امریکی سفارت خانہ اس طرح کے کسی موسیقی کے میلے میں تعاون کر رہا ہے۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
پاکستان کے مختلف حصوں کے فنکار
میلے میں شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ممتاز پشتون گلوکار شان خان نے بھی اپنی آواز کا جادو جگایا اور کئی ایک منفرد پشتو نغمات گا کر سنائے۔ میلے کے حاضرین میں بڑی تعداد مقامی طلبہ و طالبات کی تھی۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
میزباں کیسے کیسے
فنکاروں کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دینے والے تھے، معروف اینکر پرسن اور ایک مارننگ شو کی میزبان فرح اور اُن کا ساتھ دے رہے تھے ، عمر خالد بٹ۔ اس میلے نے جدید، لوک اور صوفی موسیقی سے تعلق رکھنے والے مختلف فنکاروں کو مل بیٹھنے اور موسیقی کے موضوع پر بات چیت کرنے کا بھی موقع فراہم کیا۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
سہ روزہ میوزک میلہ کانفرنس
نوجوان شائقین کی ایک بڑی تعداد نے اس میلے سے لطف اٹھایا۔ کئی نوجوانوں کا کہنا تھا کہ اس طرح کے بھرپور ثقافتی اجتماع میں شرکت اُنہیں بالکل ایک خواب کی طرح لگ رہی ہے کیونکہ عام طور پر اس طرح کے کنسرٹ کراچی یا پھر لاہور میں منعقد کیے جاتے ہیں، نہ کہ اسلام آباد میں۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
شمعون اسماعیل ایک بڑے ہجوم کے سامنے
اس میلے میں اسلام آباد کے ایک فنکار شمعون اسماعیل نے بھی شائقین کے ایک بڑے ہجوم کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ اس میلے کا اہتمام پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس (PNCA) میں کیا گیا تھا۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
فن کے مظاہروں کے ساتھ ورکشاپس بھی
قبائلی علاقے وزیرستان کے ایک فنکار مسعود کمال اسلام آباد میلے میں اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اس سہ روزہ میلے کا اہتمام فاؤنڈیشن فار آرٹس کلچر اینڈ ایجوکیشن (FACE) نے پاک امریکا تنظیم (PUAN) کے ساتھ مل کر کیا۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
شائقین کی ایک بڑی تعداد
سترہ سے لے کر اُنیس اپریل تک میلے کے تینوں دنوں میں شائقین کی ایک بڑی تعداد ملک کے چوٹی کے فنکاروں کو دیکھنے اور سننے کے لیے پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس میں جمع ہوتی رہی۔