1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مذہبی ہم آہنگی کی اعلیٰ مثال، چرچ اور مسجد کی سانجھی دیوار

29 ستمبر 2024

فیصل آباد میں ایک مسجد اور چرچ کے عبادت گزارگزشتہ تین دہائیوں سے مذہبی رواداری کی اعلیٰ مثال بنے ہوئے ہیں۔ دونوں مذاہب یہ ماحول کیسے برقرار رکھے ہوئے ہیں؟ یہ معاشرے پر کیسے متاثر کر رہا ہے؟ جانیے ڈی ڈبلیو کی اس رپورٹ میں

Pakistan I Religiöse Harmonie in Faisalabad
تصویر: Faruq Azam/DW

فیصل آباد میں جیسے ہی آپ ناظم آباد کے علاقے میں داخل ہوں تو ایک خوبصورت منظر آپ کے قدم روک لیتا ہے۔ یہ بظاہر سادہ سی دو ملحقہ عمارتیں ہیں، جن میں سے ایک پر صلیب کا نشان اور دوسری پر بلند و بالا مینار بنے ہیں۔ پہلی ہی نظر میں اندازہ ہو جاتا ہے کہ ایک مسجد ہے اور دوسرا چرچ، سانجھی دیوار کے ایک طرف مسلمان اور دوسری طرف کرسچن اپنی اپنی عبادات کرتے ہیں۔ گزشتہ تیس برس سے فیصل آباد میں ایک مسجد اور چرچ برابر واقعہ ہیں۔ اس دوران یہاں ایک بھی ناخواشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔

چرچ کی بیسمنٹ میں مسیحی برادری کے چھوٹے بچوں کا ایک سکول ہےتصویر: Faruq Azam/DW

مسجد اور چرچ ایک ساتھ کیسے؟

فیصل آباد شہر کے علاقے ناظم آباد میں مسیحی برادری کی اکثریت ہے۔ یہاں 1962ء میں سینٹ پال کیتھولک چرچ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اب اس چرچ کی بیسمنٹ میں مسیحی برادری کے چھوٹے بچوں کا ایک سکول ہے۔ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے چرچ کی انتظامی کمیٹی کے رکن ابرار مسیح کہتے ہیں، ”ابتدا میں یہاں تقریباً ساری آبادی مسیحی کمیونٹی کی تھی۔ بعد میں لوگوں نے زمینیں بیچنا شروع کیں تو چند مسلمان آباد ہو گئے۔ مسجد بہت بعد میں نوے کی دہائی میں تعمیر ہوئی۔"

مسجد کی تعمیر کیسے ہوئی؟ یہ جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو اردو نے حافظ شعبان گل سے رابطہ کیا، جن کے والد نے جامع مسجد محمد علی فضلی کی بنیاد رکھی تھی۔وہ بتاتے ہیں، ”یہاں مسلمانوں کی عبادت گاہ نہیں تھی، 1994ء میں میرے والد نے مسجد کی بنیاد رکھی بعد میں ساتھ ایک خالی پلاٹ فروخت ہوا تو اسے بھی خرید لیا گیا یوں مسجد اور چرچ بالکل آپس میں جڑ گئے۔ دونوں کی دیوار سانجھی ہے۔"

وہ کہتے ہیں، ”جس وقت چرچ کے ساتھ پلاٹ خرید کر مسجد کی توسیع کی گئی اس سے پہلے ایک بہت اچھا قدم اٹھایا گیا۔ مسجد کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ مسیحی برادری سے رابطہ کر کے اس کی اجازت لی جائے تاکہ وہ عدم تحفظ کا شکار نہ ہوں۔ انہوں نے بڑے کھلے دل کے ساتھ اجازت دی۔ شکر ہے اعتماد، احترام اور محبت کی باہمی فضا آج بھی برقرار ہے۔ تیس برس میں ایک بھی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔"

مثالی تعاون، باہمی اعتماد اور مذہبی رواداری کا ماحول کیسے برقرار رکھا گیا؟

جیسے محلے میں ایک گھر کو اردگرد کے گھروں سے واسطہ پڑتا ہے اسی طرح دو عبادت گاہیں بھی ایک دوسرے کی ضرورت مند ہو سکتی ہیں۔اس حوالے سے مسجد کے خادم اور مؤذن محمد سلمان ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”ابھی چند روز پہلے مسجد میں تعمیراتی کام جاری تھا۔ اس دوران چرچ کی چابیاں میرے پاس تھیں۔ ہم نے سیڑھی تک چرچ سے لی۔ اسی طرح انہیں کچھ درکار ہو تو ہم سے مانگ لیتے ہیں۔ ہم ضرورت کے وقت اچھے پڑوسی ثابت ہوتے ہیں۔"

مگر دونوں برادریوں کے درمیان یہ مثالی ماحول کیسے وجود میں آیا اور کیا چیز اسے برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہو رہی ہے؟ اس تناظر میں ابرار مسیح کہتے ہیں، ”مسجد اور چرچ کی انتظامی کمیٹیوں نے باہمی مشاورت سے آغاز میں کچھ چیزیں طے کر لیں تھیں۔ مثال کے طور پر عبادت کے اوقات کار کیا ہوں گے۔ مسلمانوں نے خود پیشکش کی کہ مسجد میں اذان اور خطبے کے لیے لاؤڈ سپیکر کا استعمال نہیں کیا جائے گا، اسی طرح چرچ کے لاؤڈ سپیکر بھی اندر نصب کیے جائیں گے تاکہ دوسری برادری کی عبادت میں خلل نہ ہو۔ اس طرح شروعات ہی بہت مثبت طریقے سے ہوئیں۔"

گزشتہ تیس برس سے یہاں ایک بھی ناخواشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔تصویر: Faruq Azam/DW

حافظ شعبان کہتے ہیں، ”پہلے دن سے اعتماد کی فضا قائم ہوئی جس نے اگر کبھی چھوٹا موٹا اختلاف ہوا تو اسے تنازعہ نہیں بننے دیا۔ مثلاً ایک بار ہماری نماز کا وقت تھا تو دوسری طرف سے موسیقی کی ہلکی ہلکی آواز آ رہی تھی۔ ہماری کمیٹی نے بات کی تو انہوں نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اوقات کار کا ٹھیک اندازہ نہ ہو سکا۔ آئندہ خیال رکھیں گے۔ پھر ہمیں یہ شکایت کبھی نہیں ہوئی۔"

مسجد اور چرچ کا مثالی تعاون آس پاس کے ماحول کو کیسے متاثر کر رہا ہے؟

ابرار مسیح کہتے ہیں، ”گزشتہ کچھ عرصے کے دوران ہمارے اردگرد کے علاقوں میں مذہبی عدم برداشت کے خوفناک واقعات پیش آئے۔ تصور کیجیے اگر ہمارے درمیان اچھے تعلقات نہ ہوتے تو یہاں کی مسیحی برادری کس خوف سے گزرتی؟ یہ چرچ اور مسجد کے مثالی تعاون کا نتیجہ ہے کہ ہم ایسے اذیت ناک خوف سے آزاد ہیں۔"

ناظم آباد کے سماجی کارکن طارق ٹوبہ ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”گزشتہ برس جب فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں مسیحی برادری پر حملہ ہوا اور چرچ جلائے گئے تب ہم نے اپنے محلے داروں سے افسوس کیا اور انہیں تحفظ کا پورا یقین دلایا۔ یہاں سب کو احساس تھا کہ جڑانوالہ میں غلط ہوا ہے۔ ناظم آباد کے مسلمان اپنی برادری کے ساتھ نہیں بلکہ مظلوم مسیحی برادری کے ساتھ کھڑے تھے۔ کیوں کہ سب نے رواداری کا ماحول دیکھ رکھا تھا۔ مختلف برادریاں جتنا ایک دوسرے کے قریب ہوں گی تعصبات ختم ہوں گے اور بہتر معاشرہ وجود میں آئے گا۔"

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے سابق ایجوکیشن آفیسر اور سماجی کارکن راشدہ خانم کہتی ہیں، ”ہم بچپن سے اسی علاقے کے رہائشی ہیں، مجھے نہیں یاد کبھی یہاں مذہبی بنیاد پر کوئی تنازعہ ہوا ہو۔ یہ ایک مثالی ماحول ہے۔ سب کے بچے ایک ساتھ کھیلتے ہیں۔ ایک دوسرے کے گھروں سے کھانا آتا ہے۔ بچے ایک دوسرے کے گھروں میں آتے جاتے ہیں۔ اگر ہم ناظم آباد جیسی مذہبی ہم آہنگی چاہتے ہیں تو اپنے بچوں کو تعصب سے بالاتر ماحول میں پروان چڑھانا ہو گا۔"

کراچی کی ستارہ مارکیٹ، مذہبی آہنگی کی ایک مثال

02:51

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں