چلو دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں
23 جون 2010ان کے ساتھ داخلہ سکریٹری جی کے پلائی بھی اسلام آباد پہنچ گئے ہیں جو ہفتے کے روز شروع ہونے والی سارک ممالک کے وزرائے داخلہ کی وزارتی گروپ کی میٹنگ کا ایجنڈہ طے کریں گے۔
بھارت چاہتا ہے کہ ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے بعد پڑوسی ملک کے ساتھ جو تلخیاں پیدا ہوگئی تھیں اسے پس پشت ڈال کر اب آگے کا سفر طے کیا جائے۔ اس سلسلے میں وزات داخلہ پی چدمبرم کا دورہ بھی کافی اہم ہے جو ہفتے کو سارک ملکوں کے وزرائے داخلہ کی میٹنگ کے دوران اپنے پاکستانی ہم منصب رحمان ملک کے ساتھ باہمی امور پر تبادلہ خیال کریں گے۔ یہاں وزارت خارجہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت الزامات عائد کرنے کے بجائے امن اور دوستی کے نئے امکانات تلاش کرنے کی کوشش کرے گا ۔ وہ چاہتا ہے کہ اگر پاکستان چاہے تو 2006 میں امن مذاکرات کا جو آغاز ہوا تھا تعلقات کا نیاسرا وہیں سے دوبارہ قائم ہو۔ انہوں نے کہاکہ انہیں کشمیر کے مسئلے پر بات چیت کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہے۔ جامع مذاکرات کا نام دئے بغیر بھارت کشمیر‘ سیاچین‘ سرکریک‘ اور دیگر تمام امور پر بات چیت کرنے کے لئے تیار ہے ۔
خارجہ سیکریٹری نروپما راؤ نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے اس تاثر کو بے بنیاد قرار دیا کہ نئی دہلی نے دہشت گردی کے معاملے پر اپنا موقف نرم کردیا ہے انہوں نے کہا کہ بھارت پاکستان کی سرزمین سے جاری دہشت گردی اور دہشت گردوں کا معاملہ ضرور اٹھائے گا۔ انہوں نے کہاکہ بھارت کو حافظ سعید کے بیانات سے کافی تشویش ہے اور وہ اسلام آباد سے کہے گا کہ ایسے عناصر کو نکیل ڈالی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ”ہم ایک بار پھر پرزور دار طریقے سے یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ حافظ سعید جیسے لوگوں کی سرگرمیوں پر روک لگانے کی ضرورت ہے۔ ان لوگوں کی سرگرمیوں پر پابندی لگانے کی ضرورت ہے جو بھارت کے خلاف پرتشد د کارروائیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ایسے افراد کے خلاف موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ پاکستان میں انسداد دہشت گردی کے قوانین اور اس کے ضابطوں کے تحت اس طرح کے سخت اقدامات کی پوری گنجائش ہے اور ایسے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔“
بھارت چاہتا ہے کہ اعتماد قائم کرنے کے لئے کچھ چھوٹے چھوٹے اقدامات کئے جائیں۔امید ہے کہ خارجہ سیکریٹری کی سطح کی اس میٹنگ میں بھارت اعتماد بحال کرنے کے لئے جن امور پر کچھ اقدامات کے اعلانات چاہے گا ان میں باہمی تجارت کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے‘ دونوں ملکوں کی کامرس کی وزارت کی میٹنگ جلد از جلد کرنے جیسے اقدامات شامل ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کا خیال ہے کہ اگر پاکستان اسے افغانستان جانے کے لئے راہداری فراہم کرتا ہے تو یہ اعتماد کے قیام کے سلسلے میں ایک بہت بڑا قدم ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ قیدیوں کے عرضیوں پر غوروخوض کے لئے دونوں ملکوں کی مشترکہ عدالتی کمیٹی کی میٹنگ جلد از جلد منعقد کرانے اور ریاست جموں کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے دونوں طرف تجارت کو مزید مستحکم کرنے جیسے امور شامل ہیں۔
بھارتی خارجہ سیکریٹری نے گوکہ اعتراف کیا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف کچھ اقدامات ضرور کئے ہیں لیکن کہا کہ یہ ناکافی ہیں اوراسے ایسے موثر اقدامات کرنا ہوں گے جن سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوسکے۔کیوں کہ جب تک دہشت گردی بند نہیں ہوتی ہے اس وقت تک دیگر امور میں پیش رفت کافی مشکل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”پاکستان نے جو اقدامات کئے ہیں ہم انہیں تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملوں کے قصورواروں کو سزا دلانے کے لئے یہ ناکافی ہیں۔یہ اقدامات ممبئی حملوں کے پس پشت اصل مقاصداور پوری سازش کو بے نقاب کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں۔ یہ اقدامات مجرموں کو مثالی سزا دلانے کے لئے ناکافی ہیں۔ راؤ نے کہا ’میں اس بات کو اجاگر کروں گی کہ پاکستان کو ان امور پرتیز ی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔اور امریکہ میں مقیم ہیڈلی اور تہور حسین رانا کی گرفتاری اور ان سے پوچھ گچھ سے جو باتیں سامنے آئیں ہیں ان کی بنیاد پر آگے کام کرنے کی ضرورت ہے‘۔
اس دوران یہاں پاکستان کے ہائی کمشنر شاہد ملک نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ بھارت سمجھوتہ ایکسپریس میں ہوئے بم دھماکے کی تفتیش کے سلسلے میں اسے آگاہ کرے۔ فروری 2007میں ہوئے اس دھماکے میں تقریباً70پاکستانی شہری جاں بحق ہوگئے تھے اور درجنوں دیگر زخمی ہوئے تھے۔ شاہد ملک نے کہا کہ اجمیر اور مالیگاوں میں ہوئے بم دھماکوں کے سلسلے میں جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سمجھوتہ ایکیسپرس میں ہوئے بم دھماکوں میں ہندودہشت گرد تنظیموں کا ہاتھ ہے انہوں نے کہا ”بھارتی حکومت نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ سمجھوتہ ایکسپریس میں ہوئے بم دھماکے کے متعلق تفتیش سے پاکستان کو آگاہ کیا جائے گا۔ ہم اس بات چیت کے دوران اس معاملہ کو اٹھائیں گے ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اس معاملے کی تفتیش کے سلسلے میں جو پیش رفت ہوئی ہے بھارت ہمیں اس سے آگاہ کرے گا۔“
شاہد ملک نے کہا کہ خارجہ سیکریٹری سطح کے مذاکرات کے دوران پاکستان مسئلہ کشمیر‘ کشمیر میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں اور عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لئے استعمال ہونے والے سخت قوانین کا معاملہ بھی اٹھائے گا ۔پاکستان کے ہائی کمشنر نے کہا کہ پاکستان کو کشمیر میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں پر شدید تشویش ہے دوسری طرف بھارتی وزارت داخلہ کے ذرائع نے پاکستان کے اس مطالبے کو مسترد کردیا ہے کہ کشمیر سے آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ کو ختم کیا جائے ۔ ذرائع نے کہا کہ اس معاملے سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں بنتا ہے کیوں کہ یہ بھارت کا داخلی معاملہ ہے۔
دریں اثنا بھارتی وزیر داخلہ پی چدمبرم بھی جمعہ کے روز پاکستان پہنچ رہے ہیں ۔ وہ سارک وزرائے داخلہ کانفرنس میں شرکت کے لئے اسلام آباد جارہے ہیں۔ اپنے قیام کے دوران وہ پاکستانی وزیر داخلہ رحمان ملک سے بھی ملاقات کریں گے۔ تمام لوگوں کی نگاہیں اس میٹنگ پر بھی لگی ہیں۔ حال ہی میں پاکستان نے بھارت کو جو ڈوزیر دیا تھا اس میں اجمل عامر قصاب کی حوالگی کا بھی مطالبہ کیا تھا۔ کیوں کہ پاکستان نے جو دستاویزات دئے تھے ان میں پاکستان کی ایک عدالت کی طرف سے جار ی کردہ گرفتاری کے وارنٹ کے کاغذات بھی شامل تھے۔تاہم بھارتی وزارت داخلہ کے ذرائع نے کہا کہ ممبئی حملوں میں زندہ بچ جانے والے واحد مجرم اجمل عامر قصاب کو پاکستان کے حوالے نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ اس میں ضروری قانونی طریقہ کار نہیں اپنایا گیا ہے اور نہ ہی پاکستان کی کسی تفتیشی ایجنسی نے اس سلسلے میں پاکستان کی کسی عدالت میں درخواست دی ہے۔ پاکستان نے اجمل عامر قصاب کو سزا دینے والے بھارتی جج کو بھی گواہ کے طور پر پیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاہم بھارت نے اس مطالبے کو بھی ٹھکرا دیا ہے اور کہا کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ بھارت نے جو ڈوزیر پاکستان کو پیش کیا ہے اس میں تمام ضروری دستاویزات موجود ہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا اگلے ماہ پندرہ تاریخ کو پاکستان کے دورے پر جائیں گے۔
افتخار گیلانی نئی دہلی
ادارت کشور مصطفیٰ