1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتپاکستان

چمن میں پاکستانی فوج اور طالبان کے مابین سرحدی جھڑپ

20 اکتوبر 2022

پاک افغان سرحد پر پاکستانی سیکیورٹی فورسز اور طالبان میں جھڑپ کے بعد سیکیورٹی ہائی الرٹ، علاقے میں کشیدگی پھیل گئی۔ یہ جھڑپیں اب معمول بنتی جارہی ہیں جو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے لیے اچھی علامت نہیں۔

Pakistan Afghanistan Grenze
تصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

پاک افغان سرحد پرپاکستانی حدود سے باڑاکھاڑنے کا تنازعہ شدت اختیار کرگیا ہے۔ چمن کے قریب سرحد پر پاکستانی فورسز اور افغان طالبان میں ہونے والی تازہ جھڑپ میں کئی افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں ۔ سرحد پرکئی گھنٹوں تک ہونے والی دوطرفہ  فائرنگ سے کشیدگی پھیل گئی۔ ذرائع کے مطابق صورتحال پر قابو پانے کے لیے سرحد پر دونوں اطراف سے فورسز کی اضافی طلب کی گئی ہے۔

پاک افغان سرحد پر فائرنگ کا تبادلہ، تین پاکستانی فوجی ہلاک

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ عکسریت پسندوں کی سرحد پار نقل وحرکت روکنے کے لیے حفاظتی باڑ لازمی ہےتصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

پاکستان اور افغانستان کے مابین 2500 کلو میٹر طویل سرحد کا تقریبا 1271 کلومیٹر حصہ جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے حدود میں واقع ہے ۔ اس سرحد پر پاکستان کی جانب سے حفاظتی  باڑ کی تنصیب کا 90 فیصد سے ذائد کام مکمل ہوچکا ہے۔ کوئٹہ میں تعینات ایک سینئر انٹیلی جنس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاک افغان سرحد پر باڑاکھاڑنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوسکتی۔

افغانستان: اجتماعی قبر دریافت، 12 افراد کی باقیات برآمد

اس اہلکار کا مذید کہناتھا، ''پاک افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب سے پیدا ہونے والا تنازعہ ترجیحی بنیادوں پر حل طلب ہے ۔ میرے خیال میں اس وقت یہ بہت ضروری ہے کہ سرحد کی سیکیورٹی کے معاملات میں افغان حکومت بھی لچک کا مظاہرہ کرے۔ پاکستان نے سرحد پر غیرقانونی نقل وحمل روکنے کے لیے جو اقدمات کیے ہیں ان کے دور رس نتائج سامنے آرہے ہیں ۔ اج بھی سرحد پر جو جھڑپ ہوئی ہے اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ افغانستان کے حدود سے مسلح افراد نے پھر باڑ اکھاڑنے کی کوشش کی جو کہ پاکستانی فورسز نے ناکام بنادی ۔‘‘ سرحد پر باڑ کی تنصیب کا بنیادی مقصد عسکریت پسندوں کی دراندازی روکنا ہے تاکہ سیکیورٹی کے مطلوبہ اہداف حاصل کیے جاسکیں ۔

پاکستان اور افغانستان کے مابین 2500 کلو میٹر طویل سرحد کو 'ڈیورنڈ لائن' بھی کہا جاتا ہےتصویر: Planet Labs Inc./AP/picture alliance

انہوں نے مذید کہا، '' اس باڑ کی تنصیب کے خلاف افغان حکومت کی جانب سے جو مخالفت سامنے آرہی ہے وہ خلاف ضابطہ ہے ۔ ماضی میں بھی اسی تنازعے کی وجہ سے کئی ناخوشگوار واقعات رونما ہوچکے ہیں ۔ پاکستان نے سرحد کی سیکیورٹی کے لیے جو جامع مکینزم مرتب دیا ہے اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔ ہمیں امید ہے کہ افغان حکومت اس ضمن میں زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے اقدامات کرے گی تاکہ سرحدی سیکیورٹی کے معاملات میں کوئی خلل پیدا نہ ہو۔‘‘

منقسم قبائل

 چمن میں پاک افغان سرحد پر واقع کلی شیخ لعل محمد ، کلی قاری سید کریم ، کلی محمد افضل  اور دیگر دیہاتوں کی نصف ابادی افغانستان جبکہ نصف ابادی پاکستان حدود میں رہائش پذیر ہے۔ کلی شیخ لعل محمد میں مقیم 42 سالہ روزالدین کہتے ہیں کہ باڑکی تنصیب سے مقامی قبائل شدید مشکلات کا شکار ہیں ۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتےہوئے انہوں نے کہا،'' یہاں سرحد پر جو قبائل آباد ہیں وہ اس باڑ کی وجہ سے تقسیم ہوچکے ہیں ۔ لوگوں کو اپنے رشتہ داروں سے ملنے میں بھی مشکلات پیش آرہی ہیں ۔ دونوں اطراف سے حکومتوں کو مقامی قبائل کے تحفظات دور کرنے کے لیے اقدمات کرنے چاہئے ۔ جب سرحد پر باڑ نصب نہیں کی گئی تھی اس وقت بھی ایسے ہی حالات تھے۔‘‘

پاک افغان سرحد پر چمن کے راستے روزانہ ہزاروں افراد کے آر پار جانے کے علاوہ بڑے پیمانے پر تجارتی اشیا بھی ایک طرف سے دوسری طرف بھجوائی جاتی ہیںتصویر: Jafar Khan/AP Photo/picture alliance

روزالدین کا کہنا تھا کہ سرحد پر آباد قبائل کے منقسم ہونے سے دونوں اطراف سے غلط فہمیاں پھیل رہی ہیں جن کا فائدہ امن مخالف عناصر اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے مذید کہا،''سرحدی قبائل امن پسند ہیں اور ہم نے ہمیشہ اپنے علاقوں میں سلامتی کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے دونوں اطراف کے سیکیورٹی فورسز سے ہروقت تعاون کیا ہے ۔  لوگوں کو روزگار کے مسائل درپیش ہیں اور سرحد پر آمدورفت بھی متاثرہورہی ہے ۔ قبائل کو اس طرح تقسیم کرنے کے اس فیصلے کو لوگ کس طرح  تسلیم کرسکتے ہیں ۔‘‘

ایک مختلف سرحد

چمن میں نصرت زئی قبیلے کے سربراہ اور بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی نائب صدر کیپٹن (ر) عبدالخالق اچکزئی کہتے ہیں کہ پاک افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب کے معاملے کو زمینی حقائق کے مطابق دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ، '' پاک افغان سرحد پرجو قبائل آباد ہیں انہیں اس ضمن دونوں اطراف سے اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔ اب تک اس باڑ کے حوالے سےجو تحفظات لوگوں کے سامنے ائے ہیں انہیں غلط قرار نہیں دیا جاسکتا۔ سرحد کی سیکیورٹی کے لیے پاکستان جامع اقدامات کر رہا ہے، ایسے ہی اقدمات اگر افغانستان کی جانب سےبھی دیکھنے میں آتے تو شاید کشیدگی اس حد تک نہیں پھیل پاتی۔‘‘

پاک افغان سرحد کے دونوں جانب بڑی تعداد میں پشتوں قبائل آباد ہیں، جو یہاں حفاظتی باڑ لگانے کے پاکستانی حکومت کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہیںتصویر: Saeed Ali Achakzai/REUTERS

عبدالخالق اچکزئی کا کہنا تھا کہ پاک افغان سرحد کی صورتحال دیگر بین الاقوامی سرحدوں سے یکسر مختلف ہے ۔ انہوں نے مذید کہا،''سرحد کی بندش سے مقامی قبائل کے معاملات زندگی براہ راست متاثر ہو رہے ہیں ۔ ان قبائل کے اکثر لوگوں کا روزگار سرحدی تجارت سے وابستہ ہے۔ سرحدی قبائل کو اگر روزگار کے متبادل ذرائع یا اس ضمن میں انٹری پوائنس پر سہولیات فراہم کی جائیں تو یہ تمام غلط فہمیاں دور ہوسکتی ہیں ۔"

 عبدالخالق اچکزئی کا تھا، '' پاک افغان سرحد پرباڑ کی تنصیب کی وجہ سے پیدا ہونے والی  کشیدگی کے خاتمے پرخصوصی دینے کی ضرورت ہے تاکہ حالات میں مذید بگاڑ پیدا نہ ہو ۔‘‘پاک افغان طویل سرحد کی صوبہ خیبر پختوانخؤاء کے حدود میں طوالت  1229 کلو میٹر ہے ۔ دستیاب حکومتی اعدادو شمار کے مطابق سرحد پر باڑ کی تنصیب کے منصوبے کے لیے ابتدائی طور پر5 سو ملین ڈالر کی رقم مختص کی گئی تھی جس میں بعد میں مذید اضافہ بھی کیا گیا۔

 گزشتہ چند سالوں کے دوران پاک افغان سرحد پر ہونے والی جھڑپوں میں پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں سمیت سینکروں افراد ہلاک اور زخمی ہوچکے ہیں ۔ ان واقعات میں بعض میں ملوث ہونے کی ذمہ داری پاکستانی طالبان کی جانب سے بھی قبول کی جاتی رہی ہے ۔

طالبان غلط راستے پر گامزن ہیں، بیئربوک

01:49

This browser does not support the video element.

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں