1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’چمن کے قریب گولہ باری ’دہلی، کابل‘ گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے‘

صائمہ حیدر
6 مئی 2017

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے گزشتہ روز پاک افغان مغربی سرحد پر گولہ باری کو ’دہلی، کابل گٹھ جوڑ‘ کا نام دیا ہے۔ خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ افغانستان ایسی کارروائیاں اپنے اندرونی حالات سے توجہ ہٹانے کے لیے کر رہا ہے۔

Pakistan Verteidigungsminister Khawaja Muhammad Asif
وزیر دفاع خواجہ آصف نے یہ بھی کہا کہ افغانستان اور پاکستان دونوں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن ریاستیں ہیںتصویر: picture-alliance/Anadolu Agency

پاکستانی وزیر دفاع نے آج میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مغربی سرحد پر بھارت اور افغانستان کے گٹھ جوڑ سے محاذ آرائی کی جا رہی ہے۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کابل کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے لیکن ہماری کوششوں کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا جا رہا۔ پاکستانی وزیر دفاع نے گزشتہ روز کے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے مزید کہا کہ سرحدی خلاف ورزیوں اور حملوں کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔

پاکستانی فوج کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق افغان فورسز نے پاکستانی فوجیوں پر اُس وقت فائر کھول دیے، جب وہ مردم شماری کرنے والی ایک ٹیم کے ہمراہ تھے۔ اس کے برعکس افغان ذرائع کا کہنا ہے کہ مردم شماری کرنے والی پاکستانی ٹیم افغان سرحد میں واقع گاؤں میں داخل ہو کر کام کر رہی تھی۔

گزشتہ روز پاکستان میں قلعہ عبداللہ کے ہسپتال کے ڈاکٹر نسیم اللہ کا جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان میں دو خواتین سمیت نو شہری ہلاک ہوئے ہیں۔

تصویر: picture alliance/ZUMAPRESS.com

دوسری جانب افغان پولیس کے سربراہ کی جانب سے گزشتہ روز جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ اس واقعے میں اُن کے چار سکیورٹی اہلکار اور دو شہری ہلاک ہوئے ہیں۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں میڈیا سے گفتگو کے دوران وزیر دفاع خواجہ آصف نے یہ بھی کہا کہ افغانستان اور پاکستان دونوں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن ریاستیں ہیں اور ہماری حکومت چاہتی ہے کہ شدت پسندی کے خلاف یہ جنگ دونوں ممالک مل کر لڑیں۔

پاکستانی حکومت نے گزشتہ روز اسلام آباد میں افغان سفیر کو طلب کر کے اس واقعے پر شدید احتجاج بھی ریکارڈ کروایا تھا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں