چمگادڑوں میں کورونا وائرس، چینی تحقیق، 2018ء کی امریکی تنبیہ
16 اپریل 2020
نیا کورونا وائرس چین سے دنیا بھر میں کیسے پھیلا، اس بارے میں سازشی نظریات کے حامیوں کو نئے دلائل مل گئے ہیں۔ امریکی سفارتی ذرائع نے 2018ء میں چمگاڈروں میں موجود کورونا وائرس پر ’غیرمحفوظ‘ چینی تحقیق سے خبردار کیا تھا۔
اشتہار
کورونا وائرس کی جو نئی قسم اب تک دنیا بھر میں اکیس لاکھ سے زائد انسانوں کو بیمار اور ایک لاکھ چالیس ہزار سے زائد کو ہلاک کر چکی ہے، وہ ایک عالمی وبا کی صورت میں چین کے شہر ووہان سے پھیلی تھی۔ ووہان میں ہی چین کا بین الاقوامی معیار کا ایک ایسا جدید ترین سائنسی تحقیقی مرکز بھی ہے، جو ووہان انسٹیٹیوٹ آف وائرالوجی یا ڈبلیو آئی وی کہلاتا ہے۔ یہ سائنسی تحقیقی ادارہ چینی ریاست کی طرف سے مہیا کردہ وسائل استعمال کرتے ہوئے کام کرتا ہے۔
اس بارے میں امریکا اور یورپ میں برطانیہ سمیت کئی ممالک یہ مطالبے بھی کرتے ہیں کہ چینی حکومت سے یہ وضاحت طلب کی جانا چاہیے کہ یہ وائرس ووہان سے نکل کر پوری دنیا میں کیسے پھیلا؟ امریکی خفیہ ادارے اور اعلیٰ فوجی حکام یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ نیا کورونا وائرس شاید کسی تجربہ گاہ میں صرف انسانوں کا تیا رکردہ نہیں ہے بلکہ یہ قدرتی طور پر جانوروں میں بھی پایا جاتا ہے۔ مگر چین میں دو سال پہلے تک ووہان انسٹیٹیوٹ میں چمگادڑوں میں پائے جانے والے کورونا وائرس پر چینی ماہرین جو تحقیق کر رہے تھے، اس سے متعلق ماضی کی امریکی تنبیہات کی اب سامنے آنے والی تفصیلات کے باوجود اصل حقیقت تک پہنچنا مزید مشکل ہو گیا ہے۔
چین کی طرف سے کورونا وائرس کی وبا سے متعلق ہر قسم کے سازشی نظریات کی واضح طور پر تردید کی جاتی ہے۔ دوسری طرف امریکا اور چین کے کچھ سفارتی اہلکار اس وائرس کے پھیلاؤ سے متعلق ایک دوسرے کے ممالک پر دوطرفہ الزامات بھی عائد کر چکے ہیں۔ دو ماہ قبل فروری میں ووہان کے وائرالوجی انسٹیٹیوٹ نے ایسی افواہوں کی بھرپور تردید بھی کر دی تھی کہ نیا کورونا وائرس اس ادارے نےمصنوعی طور پر تیار کیا تھا۔
اس سلسلے میں نئی تفصیلات امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی طرف سے شائع کردہ ایک ایسے مضمون میں سامنے آئیں، جس میں مصنف جَوش روگِن نے امریکی محکمہ خارجہ کی چند سفارتی دستاویزات کا باقاعدہ حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے دو سال پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ ووہان کے وائرالوجی انسٹیٹیوٹ کی جس تجربہ گاہ میں چمگادڑوں میں پائے جانے والے کورونا وائرس پر مطالعاتی تحقیق کی جا رہی تھی، وہ وہاں کیے گئے سلامتی کے مبینہ طور پر ناکافی انتظامات کے باعث 'غیر محفوظ‘ تھی۔
ساتھ ہی ان امریکی سفارتی کیبلز میں یہ تنبیہ بھی کی گئی تھی کہ ڈبلیو آئی وی کی تجربہ گاہ میں سلامتی کی صورت حال اور انتظامی معاملات کمزور تھے۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق نئے کورونا وائرس کی موجودہ وبا کے دنیا بھر میں پھیلنے سے دو سال قبل بیجنگ میں امریکی سفارت خانے کے حکام نے ووہان میں ڈبلیو آئی وائی کے متعدد دورے کیے تھے، جن کے بعد واشنگٹن حکومت کو دو مرتبہ ایسی تحریری تنبیہات کر دی گئی تھیں کہ ووہان کی تجربہ گاہ میں سلامتی کے انتظامات 'ناقص‘ تھے۔
ہاتھ دُور رکھیں: کورونا وائرس کی وبا اور احتیاط
یورپ سمیت دنیا کے بے شمار خطوں میں کورونا وائرس کی بیماری کووِڈ انیس پھیل چکی ہے۔ اِس وبا سے بچاؤ کے لیے ہاتھ صاف رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
تصویر: picture-alliance/Kontrolab/IPA/S. Laporta
دروازوں کے ہینڈل غیر محفوظ
تازہ تحقیق کے مطابق کورونا وائرس کی نئی قسم کئی جگہوں کی سطح پر خود بخود ختم نہیں ہوتی۔ اِن میں خاص طور پر دروازوں کے ہینڈل اہم ہیں۔ دروازے کے ہینڈل پر یہ وائرس لگ جائے تو چار سے پانچ دِن تک زندہ رہتا ہے۔ اِن ہینڈلز کا صاف رکھنا از حد ضروری ہے۔
اپنے دفتر یا کسی کیفے پر کھانا کھاتے ہُوئے بھی احتیاط ضروری ہے۔ اگر کسی نے کھانسی کر دی تو کورونا وائرس کیفے ٹیریا کے برتنوں سے بھی پھیل سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kalaene
کیا ٹیڈی بیئر بھی وائرس رکھ سکتا ہے؟
بظاہر ایسا ممکن نہیں کیونکہ خطرات کا اندازہ لگانے والے جرمن ادارے بی ایف آر کا کہنا ہے کہ ابھی تک کھلونوں سے اِس وائرس کے پھیلنے کے شواہد سامنے نہیں آئے ہیں۔ بی ایف آر کے مطابق کھلونوں کی غیر ہموار سطحیں وائرس کے پھیلاؤ کے لیے اِمکانی طور پر سازگار نہیں ہوتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Gollnow
خطوط اور پیکٹس
امریکی تحقیقی ادارے راکی ماؤنٹین لیبارٹری کے مطابق کورونا وائرس کی نئی قسم ڈاک سے بھیجی گئی اشیاء پر چوبیس گھنٹے تک پلاسٹک یا کارڈ بورڈ پر زندہ رہ سکتی ہے۔ وائرس کی یہ قسم اسٹین لیس اسٹیل کے برتنوں پر بہتر گھنٹے زندہ رہ سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker
پالتُو کُتے بھی وائرس پھیلنے کا باعث ہو سکتے ہیں؟
ماہرین کے مطابق پالتُو جانوروں سے وائرس پھیلنے کا امکان قدرے کم ہے۔ تاہم انہوں نے ان خدشات کو نظرانداز بھی نہیں کیا ہے۔ جانوروں میں چوں کہ اس بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوتی، اس لیے وہ بیمار نہیں پڑتے۔ مگر اگر وہ اس وائرس سے متاثر ہوں، تو وہ ممنہ طور پر یہ وائرس ان کے پاخانے کے ذریعے پھیل سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/A. Tarantino
پھل اور سبزیاں
جرمن ادارے بی ایف آر کے مطابق پھلوں اور سبزیوں سے کورونا وائرس کی افزائش کا اِمکان کسی حد تک نہ ہونے کے برابر ہے۔ اچھی طرح کھانا پکانے سے وائرس کے ختم ہونے کا اِمکان زیادہ ہوتا ہے کیونکہ حدت سے وائرس ہلاک ہو جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Kontrolab/IPA/S. Laporta
جمی ہوئی خوراک مفید نہیں
سارس اور میرس اقسام کے وائرس حدت پسند نہیں کرتے اور انہیں سردی میں فروغ ملتا رہا ہے۔ محقیقن کے مطابق منفی بیس ڈگری سینتی گریڈ میں بھی یہ وائرس کم از کم دو برس تک زندہ رہ سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance /imageBROKER/J. Tack
جنگلی حیات سے خبردار
چین نے کووڈ اُنیس بیماری کے پھیلاؤ کے تناظر میں مختلف جنگلی حیات کی تجارت اور کھانے پر سخت پابندی عائد کر دی تھی جو ابھی تک برقرار ہے۔ چینی تحقیق سے ایسے اشارے سامنے آئے ہیں کہ کورونا وائرس چمگادڑوں میں پیدا ہوا تھام جب کہ چمگادڑوں سے یہ کسی دوسرے جانور کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوا۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/H. Huan
8 تصاویر1 | 8
ان کیبلز میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ تب اس وائرس کے اس ادارے میں کام کرنے والے افراد میں منتقل ہو جانے کا خطرہ بھی موجودہ تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ مختلف امریکی تحقیقی اداروں اور یونیورسٹیوں کو اس انسٹیٹیوٹ کے ساتھ اپنے تعاون میں اضافہ کرتے ہوئے اسے مزید وسائل بھی مہیا کرنا چاہییں تاکہ وہاں موجود خامیوں پر قابو پایا جا سکے۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ان سفارتی کیبلز میں مبینہ طور پر یہ بھی لکھا گیا تھا کہ ووہان انسٹیٹیوٹ میں چمگادڑوں میں پائے جانے والے کورونا وائرس کے 'پرخطر مطالعے‘ کیے جا رہے تھے۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ان کیبلز میں کہی گئی باتوں کے تناظر میں امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ میں اس بارے میں ہونے والی بحث شدید ہو گئی ہے کہ آیا ووہان میں پہلے پہل پھیلنے والا کورونا وائرس اسی تجربہ گاہ یا اسی شہر میں کسی اور لیبارٹری سے پھیلا تھا۔ تازہ بحث اور تفصیلات کے منظر پر آنے کے باوجود اس بارے میں کوئی بھی بات سو فیصد یقین کے ساتھ ابھی تک نہیں کہی جا سکتی۔
م م / ش ح (روئٹرز، اے ایف پی، واشنگٹن پوسٹ)
کورونا وائرس کے بارے میں مفروضے اور حقائق
کورونا وائرس کی نئی قسم سے بچاؤ کے حوالے سے انٹرنیٹ پر غلط معلومات کی بھرمار ہے۔ بہت زیادہ معلومات میں سے درست بات کون سی ہے اور کیا بات محض مفروضہ۔ جانیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: DW/C. Walz
کیا نمکین پانی سے ناک صاف کرنا سود مند ہے؟
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ نمکین محلول ’سلائن‘ وائرس کو ختم کر کے آپ کو کورونا وائرس سے بچا سکتا ہے۔
غرارے کرنے سے بچاؤ ممکن ہے؟
کچھ ماؤتھ واش تھوڑی دیر کے لیے مائکروبز کو ختم کرنے میں مددگار ہوتے ہیں لیکن عالمی ادارہ صحت کے مطابق ان سے غرارے کرنے سے بھی کورونا وائرس کی نئی قسم سے نہیں بچا جا سکتا۔
لہسن کھانے کا کوئی فائدہ ہے؟
انٹرنیٹ پر یہ دعویٰ جنگل میں آگ کی طرح پھیلتا جا رہا ہے کہ لہسن کھانے سے کورونا وائرس بے اثر ہو جاتا ہے۔ تاہم ایسے دعووں میں بھی کوئی حقیقت نہیں۔
پالتو جانور کورونا وائرس پھیلاتے ہیں؟
انٹرنیٹ پر موجود کئی نا درست معلومات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بلی اور کتے جیسے پالتو جانور کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بنتے ہیں۔ اس بات میں بھی کوئی صداقت نہیں۔ ایسے پالتو جانور اگرچہ ’ایکولی‘ اور دیگر طرح کے بیکٹیریا ضرور پھیلاتے ہیں۔ اس لیے انہیں چھونے کے بعد ہاتھ ضرور دھو لینا چاہییں۔
خط یا پارسل بھی کورونا وائرس لا سکتا ہے؟
کورونا وائرس خط اور پارسل کی سطح پر زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتا۔ اس لیے اگر آپ کو چین یا کسی دوسرے متاثرہ علاقے سے خط یا پارسل موصول ہوا ہے تو گھبرانے کی کوئی بات نہیں، کیوں کہ اس طرح کورونا وائرس کا شکار ہونے کا خطرہ قریب نہ ہونے کے برابر ہے۔
کورونا وائرس کی نئی قسم کے لیے ویکسین بن چکی؟
کورونا وائرس کی اس نئی قسم کے علاج کے لیے ابھی تک ویکسین تیار نہیں ہوئی۔ نمونیا کے لیے استعمال ہونے والی ویکسین وائرس کی اس نئی قسم پر اثر انداز نہیں ہوتی۔
جراثیم کش ادویات کورونا وائرس سے بچا سکتی ہیں؟
ایتھنول محلول اور دیگر جراثیم کش ادویات اور اسپرے سخت سطح سے کوروانا وائرس کی نئی قسم کو ختم کر دیتے ہیں۔ لیکن انہیں جلد پر استعمال کرنے کا قریب کوئی فائدہ نہیں۔
میل ملاپ سے گریز کریں!
اس نئے وائرس سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ کھانا بہت اچھے طریقے سے پکا کر کھائیں۔ کورونا وائرس سے متاثرہ افراد سے ملنے سے گریز کریں۔
ہاتھ ضرور دھوئیں!
صابن اور پانی سے اچھی طرح ہاتھ دھونے سے انفیکشن سے بچا جا سکتا ہے۔ ہاتھ کم از کم بیس سیکنڈز کے لیے دھوئیں۔ کھانستے وقت یا چھینک آنے کی صورت میں منہ کے سامنے ہاتھ رکھ لیں یا ٹیشو پیپر استعمال کریں۔ یوں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔