سعودی عرب کی حمايت يافتہ ايک تنظيم نے متعدد ممالک پر الزام عائد کيا ہے کہ وہ نوجوان سعودی لڑکيوں کو اپنے اہل خانہ کو چھوڑ کر فرار ہونے کی ترغيب ديتے ہيں۔
اشتہار
سعودی نيشنل سوسائٹی فار ہيومن رائٹس (NSHR) کے سربراہ مفلح القحتانی نے الزام عائد کيا ہے کہ چند ممالک اور تنظيميں اپنے سياسی مقاصد کے حصول کے ليے لڑکيوں کو انجان راستوں پر دھکيل ديتے ہيں جن کے نتيجے ميں وہ انسانوں کے اسمگلروں کے چنگل ميں بھی پھنس سکتی ہيں۔ القحتانی نے يہ بيان اتوار کی شب ديا۔ اس تنظيم کے سربراہ نے اپنے بيان ميں کسی بھی ملک يا تنظيم کا نام نہيں ليا البتہ وہ امکاناً اٹھارہ سالہ رہف محمد القنون کے حوالے سے ہونے والی پيش رفت کے تناظر ہی ميں بات کر رہے تھے۔
يہ امر اہم ہے کہ انسانی حقوق کے حوالے سے سعودی عرب کا ريکارڈ کچھ زيادہ اچھا نہيں۔ صحافی جمال خاشقجی کے ترک شہر استنبول ميں سعودی قونصل خانے ميں پچھلے سال قتل کے بعد رياض حکومت کی ساکھ کو اور بھی زيادہ نقصان پہنچا ہے۔ پھر يمن کی متنازعہ جنگ ميں بھی سعودی عسکری اتحاد کی کارروائياں عالمی سطح پر تنقيد کی زد ميں ہيں۔
نيشنل سوسائٹی فار ہيومن رائٹس کا دعوی ہے کہ وہ ايک آزاد تنظيم ہے ليکن امريکی محکمہ خارجہ اسے حکومت کی جانب سے فراہم کردہ فنڈنگ سے چلنے والی ايک تنظيم مانتی ہے۔ تنظيم کے سربراہ کے تازہ بيان ميں کہا گيا ہے کہ اسے اس بات پر کافی حيرت ہے کہ کس طرح چند رياستيں منحرف سعودی لڑکيوں کو اپنے خاندانی اقدار سے بغاوت پر اکسا رہی ہيں اور پھر انہيں ’پناہ‘ فراہم کی جا رہی ہے۔ القحتانی نے مزيد کہا کہ سعودی قوانين خواتین کے ساتھ بد سلوکی کو روکتے ہيں اور ايسی صورت ميں انہيں يہ اختيار بھی ہوتا ہے کہ وہ اس بارے ميں شکايت درج کرائيں۔ تاہم کئی سعودی عورتوں کا کہنا ہے پوليس سے رابطہ کرنا، ان کے ليے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔
القنون پچھلے ہفتے کے روز کينيڈا پہنچيں، جہاں ميزبان ملک کی وزير خارجہ کرسٹيا فری لينڈ نے ان کا استقبال کيا۔ يہ امر اہم ہے کہ اوٹاوا حکومت اور رياض حکومت کے مابين پہلے ہی کشيدگی پائی جاتی ہے جس کی وجہ پچھلے سال کينيڈا کی جانب سے سعودی عرب ميں زير حراست انسانی حقوق کے کارکنان کی فوری رہائی کا مطالبہ تھا۔ اس پر رياض حکومت نے کينيڈا سے اپنے سفير کو واپس طلب کر ليا تھا اور کينيڈا ميں مقيم اپنے ملک کے تمام شہريوں سے واپس آنے کا بھی کہہ ديا تھا۔
سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد: ایک جائزہ
سعودی عرب نے اعلان کیا ہے کہ خواتین کو قانونی سرپرست کی اجازت کے بغیر ہی ڈرائیونگ لائسنس جاری کیے جائیں گے۔ آئیے نظر ڈالتے ہیں کہ اس اسلامی جمہوریہ میں خواتین کے حقوق کی صورتحال کس طرح مثبت انداز میں بدل رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سن 1955: لڑکیوں کے لیے پہلا اسکول
سعودی عرب میں لڑکیاں اس طرح کبھی اسکول نہیں جا سکتی تھیں، جیسا کہ ریاض میں لی گئی اس تصویر میں نظر آ رہا ہے۔ سعودی عرب میں لڑکیوں کو اسکولوں میں داخلے کا موقع پہلی مرتبہ سن 1955 میں ملا تھا۔ اسی طرح سعودی عرب میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم کا پہلا ادارہ سن 1970 میں قائم کیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سن2001 : شناختی کارڈز کا اجراء
اکیسویں صدی کے آغاز پر سعودی عرب میں خواتین کے لیے پہلی مرتبہ شناختی کارڈز کا اجراء شروع کیا گیا۔ کسی مشکل صورت میں مثال کے طور پر وارثت یا جائیداد کے کسی تنازعے میں ان خواتین کے لیے یہ کارڈ ہی ایک واحد ایسا ثبوت تھا کہ وہ اپنی شناخت ظاہر کر سکیں۔ آغاز میں یہ کارڈز صرف مرد سرپرست کی اجازت سے ہی جاری کیے جاتے تھے۔ تاہم سن دو ہزار چھ میں اس پابندی کا خاتمہ بھی کر دیا گیا۔
تصویر: Getty Images/J. Pix
سن2005 : جبری شادیوں کا اختتام ( کاغذی سطح پر)
سعودی عرب میں سن دو ہزار پانچ میں قانونی طور پر خواتین کی جبری شادیوں کا خاتمہ کر دیا گیا۔ تاہم آج بھی اس اسلامی ریاست میں حقیقی طور پر کسی خاتون کا اپنی رضا مندی سے شادی کرنا ناممکن ہی معلوم ہوتا ہے۔ اب بھی سعودی عرب میں شادیوں کے حتمی فیصلے لڑکیوں کے والد اور ان کے ہونے والے شوہر ہی کرتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/A.Hilabi
سن 2009 : پہلی وزیر خاتون
سن دو ہزار نو میں شاہ عبداللہ نے ملک کی پہلی خاتون حکومتی وزیر کو چنا۔ تب نورہ بنت عبد الله الفايز کو نائب وزیر برائے تعلیم نسواں مقرر کیا گیا تھا۔
تصویر: Foreign and Commonwealth Office
سن 2012 : اولمپک مقابلوں کے لیے پہلی خاتون ایتھلیٹ
سعودی عرب نے سن دو ہزار بارہ میں پہلی مرتبہ اجازت دے دی کہ اولمپک مقابلوں کے لیے ملکی خواتین ایتھلیٹس کا دستہ بھی بھیجا جائے گا۔ اس دستے میں سارہ عطار بھی شامل تھیں، جنہوں نے اس برس لندن منعقدہ اولمپک مقابلوں میں ہیڈ اسکارف کے ساتھ آٹھ سو میٹر ریس میں حصہ لیا۔ تب ایسے خدشات تھے کہ اگر ریاض حکومت نے ملکی خواتین کو ان مقابلوں میں شریک ہونے کی اجازت نہ دی تو سعودی عرب پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/J.-G.Mabanglo
سن 2013: موٹر سائیکل اور بائیسکل چلانے کی اجازت
سعودی عرب کی حکومت نے سن دو ہزار تیرہ میں پہلی مرتبہ خواتین کو موٹر سائیکل اور بائیسکل چلانے کی اجازت دے دی۔ تاہم اس کے لیے سیر و سیاحت کے کچھ مقامات کو مختص کیا گیا۔ خواتین باقاعدہ مکمل لباس کے ساتھ اپنے مرد رشتہ داروں کے ساتھ ہی وہاں جا کر اپنا یہ شوق پورا کر سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
سن 2013: مشاورتی شوریٰ میں خواتین کی نمائندگی
فروری سن دو ہزار تیرہ میں شاہ عبداللہ نے سعودی عرب کی مشاورتی کونسل کے لیے تیس خواتین کا انتخاب کیا۔ تب اس قدامت پسند ملک میں خواتین کے لیے ان اہم عہدوں پر فائز ہونے کو ایک اہم پیشرفت قرار دیا گیا تھا۔
تصویر: REUTERS/Saudi TV/Handout
سن 2015: ووٹ ڈالنے اور الیکشن لڑنے کا حق
سعودی عرب میں سن دو ہزار پندرہ میں پہلی مرتبہ خواتین کو حق رائے دہی استعمال کرنے کی اجازت ملی۔ اسی برس اس ملک میں منعقدہ بلدیاتی انتخابات میں خواتین پہلی مرتبہ الیکشن میں حصے لینے کی بھی اہل قرار پائیں۔ نیوزی لینڈ وہ پہلا ملک تھا، جس نے خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا تھا، یہ بات ہے سن 1893 کی۔ جرمنی میں خواتین کو ووٹ کا حق 1919ء میں ملا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Batrawy
سن 2017: سعودی اسٹاک ایکسچینج کی خاتون سربراہ
فروی سن دو ہزار سترہ میں سعودی اسٹاک ایکسچینج کی سربراہ کے طور پر سارہ السحیمی کا انتخاب کیا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ سعودی عرب میں اس اہم عہدے پر کسی خاتون کا تقرر عمل میں آیا۔
تصویر: pictur- alliance/abaca/Balkis Press
سن 2018: ڈرائیونگ کی اجازت
چھبیس ستمبر سن دو ہزار سترہ کو سعودی حکومت نے اعلان کیا کہ خواتین کو گاڑی چلانے کی قانونی اجازت دی جا رہی ہے۔ جون سن دو ہزار اٹھارہ سے سعودی خواتین کو ضرورت نہیں رہے گی کہ وہ ڈرائیونگ لائسنس کے لیے اپنے کسی مرد سرپرست سے اجازت لیں یا گاڑی چلاتے ہوئے مرد سرپرست کو بھی ساتھ بٹھائیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
سن 2018: اسٹیڈیمز میں جانے کی اجازت
انتیس اکتوبر سن دو ہزار سترہ کو سعودی عرب کی ’جنرل اسپورٹس اتھارٹی‘ نے اعلان کیا کہ خواتین کو کھیلوں کے اسٹیڈیمز میں جانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ سن دو ہزار اٹھارہ سے سعودی خواتین ملک میں قائم تین بڑے اسپورٹس اسٹیڈیمز میں جا کر وہاں منعقد ہونے والے کھیلوں کے مقابلوں سے لطف انداز ہو سکیں گی۔