جرمن چانسلر انگیلا میرکل چودہ ممالک کے ساتھ ایک ڈیل کو حتمی شکل دینے میں کامیاب ہو گئی ہیں، جس کے تحت یہ ممالک جرمنی میں موجود مہاجرین کو فوری طور پر واپس اپنے ممالک بلوانے پر رضا مند ہو گئے ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے تیس جون بروز ہفتہ اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے وسیع تر مخلوط حکومت میں شامل سیاسی پارٹیوں کو ایک خط ارسال کیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ چودہ یورپی ممالک جرمنی میں موجود مہاجرین کو فوری طور پر واپس لینے پر متفق ہو گئے ہیں۔
جرمنی میں سیاسی پناہ کا طریقہ کار
01:02
ڈی پی اے کے مطابق اسے آٹھ صفحات پر مشتمل اس خط کی ایک نقل موصول ہوئی ہے، جس میں اتحادیوں کو اس ڈیل کے بارے میں سرکاری طور پر مطلع کیا گیا ہے۔
جرمنی کی وسیع تر مخلوط حکومت میں میرکل کی سیاسی پارٹی کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کے علاوہ باویریا میں اس کی ہم خیال کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) شامل ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ اس ڈیل کے تحت یہ چودہ ممالک ایسے مہاجرین کو قبول کرنے کو تیار ہیں، جو اس وقت جرمنی میں داخل ہونے کی کوشش میں ہیں یا پہلے سے ہی یہاں موجود ہیں۔
ساتھ ہی میرکل نے یہ بھی تسلیم کر لیا ہے کہ ایسے مہاجرین جو پہلے کسی اور یورپی ملک میں پناہ کی درخواست جمع کرا چکے ہیں، انہیں ملکی سرحدوں پر قائم کردہ بڑے ‘اینکر سینٹرز‘ میں رکھا جائے گا اور وہیں ان کی درخواستوں پر کارروائی کی جائے گی۔
میرکل کی طرف سے یہ اہم ڈیل ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب انہیں مہاجرین کی پالیسی پر اپنی ہی ہم خیال سیاسی جماعت سی ایس یو کی طرف سے سخت دباؤ کا سامنا ہے۔
اس پارٹی سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر خبردار کر چکے ہیں کہ اگر مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کی خاطر یورپی یونین کی سطح پر جولائی تک ڈیل طے نہیں ہوتی تو وہ حکومت سے الگ بھی ہو سکتی ہے۔
ع ب / ع ح / خبر رساں ادارے
جرمنی میں ملازمتیں، کس ملک کے تارکین وطن سر فہرست رہے؟
سن 2015 سے اب تک جرمنی آنے والے مہاجرین اور تارکین وطن میں سے اب ہر چوتھا شخص برسرروزگار ہے۔ پکچر گیلری میں دیکھیے کہ کس ملک کے شہری روزگار کے حصول میں نمایاں رہے۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
شامی مہاجرین
گزشتہ تین برسوں کے دوران پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے شامی مہاجرین کی تعداد سوا پانچ لاکھ سے زائد رہی۔ شامیوں کو جرمنی میں بطور مہاجر تسلیم کرتے ہوئے پناہ دیے جانے کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ تاہم جرمنی میں روزگار کے حصول میں اب تک صرف بیس فیصد شامی شہری ہی کامیاب رہے ہیں۔
تصویر: Delchad Heji
افغان مہاجرین
سن 2015 کے بعد سے اب تک جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والے افغان باشندوں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار بنتی ہے۔ اب تک ہر چوتھا افغان تارک وطن جرمنی میں ملازمت حاصل کر چکا ہے۔
تصویر: DW/M. Hassani
اریٹرین تارکین وطن
افریقی ملک اریٹریا سے تعلق رکھنے والے چھپن ہزار سے زائد مہاجرین اس دوران جرمنی آئے، جن میں سے اب پچیس فیصد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: Imago/Rainer Weisflog
عراقی مہاجرین
اسی عرصے میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زائد عراقی بھی جرمنی آئے اور ان کی درخواستیں منظور کیے جانے کی شرح بھی شامی مہاجرین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تاہم اب تک ایک چوتھائی عراقی تارکین وطن جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر پائے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Kastl
صومالیہ کے مہاجرین
افریقی ملک صومالیہ کے قریب سترہ ہزار باشندوں نے اس دورانیے میں جرمن حکام کو اپنی سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ اب تک صومالیہ سے تعلق رکھنے والے پچیس فیصد تارکین وطن جرمنی میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
ایرانی تارکین وطن
ان تین برسوں میں قریب چالیس ہزار ایرانی شہری بھی بطور پناہ گزین جرمنی آئے۔ جرمنی کے وفاقی دفتر روزگار کی رپورٹ کے مطابق اب تک ان ایرانی شہریوں میں سے قریب ایک تہائی جرمنی میں ملازمتیں حاصل کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/Aasim Saleem
نائجیرین تارکین وطن
افریقی ملک نائجیریا سے تعلق رکھنے والے پناہ گزینوں کو بھی جرمنی میں روزگار ملنے کی شرح نمایاں رہی۔ جرمنی میں پناہ گزین پچیس ہزار نائجیرین باشندوں میں سے تینتیس فیصد افراد کے پاس روزگار ہے۔
تصویر: DW/A. Peltner
پاکستانی تارکین وطن
جرمنی میں ملازمتوں کے حصول میں پاکستانی تارکین وطن سر فہرست رہے۔ سن 2015 کے بعد سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے قریب بتیس ہزار پاکستانی شہریوں میں سے چالیس فیصد افراد مختلف شعبوں میں نوکریاں حاصل کر چکے ہیں۔