چوری شدہ لڑکے: افغانستان میں جنسی غلامی کے بعد زندگی
26 جون 2017جواد کی عمر بمشکل 14 برس ہو گی، جب اسے ایک مقامی جنگجو سردار نے کابل کے شمال میں اغوا کر لیا تھا۔ جواد بھی افغانستان کی اس ثقافتی اور خفیہ وباء کا نشانہ بنا، جس کے مطابق چھوٹے بچوں کو جنسی غلام بنا لیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی جاتی ہے۔
جواد ان تین لڑکوں میں سے ایک ہے، جو اپنے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والوں کے چُنگل سے آزاد ہونے میں کامیاب ہو گیا اور اب نیوز ایجنسی اے ایف پی سے بات چیت کرنے پر تیار ہے۔
ان کے واقعات افغانستان کے ان بچوں کی زندگی پر روشنی ڈالتے ہیں، جن کا بچپن ان سے چھین لیا جاتا ہے اور انہیں جنسی غلامی کی زندگی بسر کرنا پڑتی ہے۔ ایسے بچوں کو شرمندگی کی وجہ سے ان کے والدین بھی قبول نہیں کرتے۔
اغوا کے چار برس بعد مقامی جنگجو سردار جواد کی جگہ ایک نیا لڑکا لے آیا تھا اور اسے اپنے ایک بااثر دوست کو ’’گفٹ‘‘ کر دیا تھا۔
انیس سالہ جواد کے مطابق ایک رات ایک شادی کی تقریب پر اس کا مالک اسے ڈانس کرنے کے لیے وہاں لے گیا، وہاں لڑائی ہوئی، فائرنگ ہوئی اور وہ وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب رہا۔ جواد کے مطابق اسے صرف ایک ہی ہنر آتا ہے اور وہ ہے رقص اور اب وہ زندگی کی گزر بسر کے لیے ڈانس ہی کرتا ہے۔
جواد کے پاس نہ تو کوئی تعلیم ہے اور نہ ہی اسے عملی طور پر کوئی تحفظ حاصل ہے۔ افغان حکومت نے ایسے متاثرین کے لیے کوئی بھی پروگرام تیار نہیں کیا ہے۔ جواد کا اصلی نام ظاہر نہیں کیا گیا۔ اب وہ زیادہ بااثر افراد کی خفیہ محفلوں میں رقص کرتا ہے، جہاں زیادہ تر شام کا اختتام سیکس سے ہوتا ہے۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے جواد کا کہنا تھا، ’’ایسی پارٹیوں کے اختتام پر اکثر اوقات اس بات پر جھگڑا ہو جاتا ہے کہ مجھے کون اپنے ساتھ گھر لے کر جائے گا۔‘‘
افغانستان میں ’بچہ بازی‘ کا رجحان اسلام سے بھی پہلے کا ہے۔ بعض اوقات غریب خاندانوں کے نو عمر لڑکوں کو خرید لیا جاتا ہے۔ امراء یا بچوں کے پسند کرنے والے افراد ان کو لڑکیوں والے لباس پہناتے ہیں اور ان سے جنسی لطف حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے رقص سے بھی محضوض ہوتے ہیں۔ لڑکیوں کے لباس میں ان کا ڈانس دیکھنے والے زیادہ تر درمیانی عمر کے مرد ہوتے ہیں۔ نو عمر لڑکے مسلسل اسی شخص کے ساتھ رہتے ہیں، جو ان کو خریدتا ہے۔ اسے ’بچہ باز‘ کہا جاتا ہے۔
افغانستان میں ایسے لوگوں کو کم ہی کوئی سزا دی جاتی ہے۔ ایسے افراد کو اکثر اوقات بازاروں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے، جہاں وہ چھوٹے بچوں کے ساتھ سر عام گھوم رہے ہوتے ہیں۔ ’بچہ باز‘ اس وقت تک کسی لڑکے کو ساتھ رکھتے ہیں، جب تک وہ بالغ نہیں ہو جاتا۔
قبل ازیں ایسی رپورٹیں بھی موصول ہوئی تھیں کہ پولیس اہل کار بھی ’بچہ بازی‘ میں ملوث ہیں، جس کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے پولیس کی جانب سے بچوں کو باقاعدہ طور پر جنسی غلام بنائے جانے سے متعلق خبروں کی ’مکمل تحقیقات‘ کا حکم دیا تھا۔