چوٹی کے کشمیری جنگجو رہنما موسیٰ ہلاک، بھارتی پولیس
24 مئی 2019
بھارتی حکام نے بتایا ہے کہ کشمیر کے متنازعے علاقے میں القاعدہ سے وابستہ چوٹی کے کمانڈر ذاکر موسیٰ کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔ اس پیش رفت کو اس خطے میں جاری مسلحہ تحریک کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے جمعے کو بتایا ہے کہ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں سکیورٹی فورسز نے ایک اہم عسکریت پسند کمانڈر کو ہلاک کر دیا ہے۔ اس کمانڈر کا نام ذاکر موسیٰ بتایا گیا ہے۔ وہ انصار غزوات الہند سے منسلک تھے۔ ان کی وابستگی عسکریت پسند گروپ بین الاقوامی جہادی تنظیم القاعدہ کے ساتھ بھی تھی۔
مقامی پولیس کے مطابق موسیٰ کی ہلاکت جمعرات تیئیس مئی کی شام کو ترال کے علاقے میں دوطرفہ فائرنگ کے نتیجے میں ہوئی۔ پچیس سالہ ذاکر موسیٰ نے حزب المجاہدین کو چھوڑ کر سن 2017 میں انصار غزوات الہند نامی عسکریت پسند گروپ کی بنیاد رکھی تھی۔ وہ اس گروپ کے لیڈر بھی تھے۔ تب موسیٰ نے القاعدہ سے وابستگی کا اعلان بھی کر دیا تھا۔ موسیٰ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ کشمیر میں ’اسلامک ریاست‘ کی تخلیق کی خاطر لڑ رہے ہیں۔
جمعرات کی رات جب موسیٰ کی ہلاکت کی خبر عام ہوئی تو بھارتی کشمیر میں ہزاروں افراد احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ مقامی میڈیا کے مطابق اس دوران ان مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے مابین جھڑپیں بھی ہوئیں۔ کئی اہم شہروں کے علاوہ سری نگر میں بھی کشمیریوں نے احتجاج کیا۔ بھارتی حکام نے کشمیر کی وادی میں انٹر نیٹ کی سروس معطل کر دی ہے جبکہ زیادہ تر علاقوں میں کرفیو لگا دیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ان اقدامات کا مقصد مظاہروں میں شدت اور پھیلاؤ کو روکنا ہے۔
اعلیٰ بھارتی پولیس اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ موسیٰ ایک گھر میں اکیلے ہی تھے، جب سکیورٹی فورسز نے مخبری پر انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ اس مبینہ جنگجو کو ہتھیار پھینکنے کا کہا گیا لیکن اس نے گرینیڈ سے حملہ کر دیا اور یوں دو طرفہ فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ اس جھڑپ کے نتیجے میں موسیٰ کی ہلاکت ہوئی۔
موسیٰ نے سن دو ہزار تیرہ میں انجینئیرنگ کی تعلیم کو چھوڑ کر کشمیر کی سب سے بڑی عسکری تنظیم ‘حزب المجاہدین‘ میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ یہ تحریک کشمیر میں بھارتی حکومت کے خلاف فعال ہے۔ بعدازاں موسیٰ ’کرشماتی‘ جنگجو رہنما برہان وانی کے گروپ کے رکن بھی بن گئے تھے۔
جنگجو کمانڈر برہان وانی سن دو ہزار سولہ میں بھارتی سکیورٹی فورسز کے ساتھ ہوئی ایک جھڑپ میں مارا گیا تھا۔ اُن کی ہلاکت پر بھارتی کشمیر میں بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوئے، جو کئی ماہ تک جاری رہے تھے۔ اس دوران پرتشدد واقعات کے نتیجے میں سو سے زیادہ کشمیری ہلاک بھی ہو گئے تھے۔
وانی کی ہلاکت پر موسیٰ نے اس گروہ کی قیادت سنبھال لی تھی تاہم سن دو ہزار سترہ میں اس تحریک سے الگ ہو گئے اور انہوں نے انصار غزوات الہند نامی ایک نئی جنگجو تنظیم کی بنیاد رکھی۔ بھارتی حکام کا کہنا ہے کہ یہ تنظیم دراصل کشمیر میں دہشت گرد تنظیم القاعدہ کا ایک حصہ ہے۔ بھارتی حکام کے مطابق موسیٰ کی ہلاکت سے کشمیر میں جاری عسکری تحریک کو بڑا نقصان پہنچے گا۔
ع ب / ک م / خبر رساں ادارے
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔