برطانوی امدادی تنظیم نے ایک بڑی جسامت کے چوہے کو بہادری کے ایوارڈ سے نوازا ہے۔ اس چوہے نے کئی بارودی سرنگوں کا درست تعین کیا تھا۔
اشتہار
ایوارڈ اس قدر بڑے جسم والے افریقی چوہے کو دیا گیا، جس کا نام میگاوتی ہے۔ میگاوتی چوہے کو اعزازی گولڈ میڈل دینے کی وجہ اس کی کمبوڈیا میں کئی زیر زمین بچھائی گئی بارودی سرنگوں کا درست تعین کرنا تھا۔ گولڈ میڈل اس لیے بھی دیا گیا کہ اس چوہے نے ڈیوٹی دیتے ہوئے کئی انسانی زندگیوں کو محفوظ بنایا۔
یہ ایوارڈ یا گولڈ میڈل برطانیہ کی جانوروں کی بہبود کی بین الاقوامی غیر حکومتی تنظیم پیپلز ڈسپینسری برائے سِک اینیملز (PDSA) نے زمین کے نیچے چھپائی گئی بارودی سرنگوں کو سونگھ کر انہیں امدادی ورکروں کے ہاتھوں تلف کرنے پر بھی دیا ہے۔
میگاوتی چوہے کی عمر سات سال ہے اور اس کو بارودی سُرنگ کی بُو سُونگھنے کی باقاعدہ تربیت دی گئی تھی۔ اس کو زمین کے اندر بارودی مواد کو سُونگھنے کی تربیت افریقی ملک تنزانیہ میں قائم بیلجیئم کی ایک غیر حکومتی تنظیم نے دی تھی۔ اب یہ بہادر اور ذہین چوہا اپنی ریٹائرمنٹ کے قریب ہے اور اس کو خطرناک بارود کو تلاش کرنے کی ڈیوٹی سے جلد فارغ کر دیا جائے گا۔
میگا وتی چوہے کا وزن 1.2 کلوگرام یعنی 2.6 پاؤنڈ اور لمبائی 70 سینٹی میٹر ہے۔ یہ وزن اور لمبائی بظاہر عام چوہوں کی نسبت زیادہ ہے لیکن پھر بھی وہ اتنا ہلکا ہے کہ زیر زمین دبائی گئی بارودی سرنگ کو محسوس نہیں ہوتا تھا۔ وہ ٹینس کورٹ جتنے رقبے کی چھان بین ایک گھنٹے میں کر لیا کرتا ہے۔ یہ کام کوئی انسان میٹل ڈیکٹر کی مدد سے چار دن میں مکمل کرتا ہے۔
بیمار جانوروں کی عوامی ڈسپینسری نے یہ بھی بتایا کہ میگاوتی پہلا ایسا چوہا ہے، جو اس گولڈ میڈل کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ اس نے انتالیس بارودی سرنگوں کی شناخت میں مدد کی اور اٹھائیس بارودی ڈھیروں کو سونگھ کر امدادی ورکروں کو مطلع کیا۔ اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک میں یہ بارودی سرنگیں اور مواد سن 1970 اور 1980ء کی دہائیوں میں ہونے والی خانہ جنگی کے دوران پھیلایا گیا تھا۔
میگاوتی نے کمبوڈیا میں ایک لاکھ اکتالیس ہزار مربع میٹر کے رقبے کو بارودی مواد سے صاف کرنے میں مدد دی۔ یہ علاقہ بیس فٹ بال گراؤنڈز کے مساوی بنتا ہے۔ کمبوڈین مائن ایکشن سینٹر (CMAC) کے مطابق ابھی بھی کمبوڈیائی سرزمین کا چھ ملین مربع میٹر رقبہ صاف ہونا باقی ہے۔
بارودی سرنگیں صاف کرنے والی انٹرنیشنل غیر حکومتی تنظیم ہالو ٹرسٹ کا کہنا ہے کہ کمبوڈیا میں سن 1979 کے بعد بارودی مواد اور سرنگوں کے پھٹنے کے واقعات میں چونسٹھ ہزار ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔ ان پرتشدد واقعات میں ہونے والے پچیس ہزار زخمیوں کے ناکارہ اعضاء بھی کاٹنے پڑے تھے۔
جیمز فرانی (ع ح، ع آ)
چوہے غلیظ ہوتے ہیں یا دلکش؟
پچیس جنوری سے چینی کیلنڈر کے مطابق ’دھاتی چوہے‘ کا سال شروع ہو رہا ہے۔ چینی ہوروسکوپ میں چوہے دانش مندی، قوت حیات اور خوشی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مغربی دنیا میں انہیں بیماری، فریب اور گندگی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/T. Weidman
دھاتی چوہے کی خوشی
چینی ہوروسکوپ کی پہلی علامت ایک چوہا ہے، جو نئے آغاز کو ظاہر کرتا ہے۔ چینی باشندے چوہے کو دانش مندی، قوت حیات اور خوشی کی علامت سمجھتے ہیں لیکن یہ جانور پراسرار اور کینہ پرور بھی ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ دھات کا لفظ سن دو ہزار بیس میں منافع کے لیے جوڑا گیا۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/Xu Hui
بھارت کے قابل احترام چوہے
بھارتی ریاست راجستھان کے شمال میں واقع کرنی ماتا مندر میں تقریباﹰ 20 ہزار چوہے پائے جاتے ہیں۔ وہاں کی کہانیوں کے مطابق چوہے دوبارہ پیدا ہونے والی روحیں ہوتے ہیں اور ان کی محافظ دُرگا دیوی ہوتی ہے۔ روایت کے مطابق ہندوؤں کے دیوتا گنیش نے بھی ایک چوہے پر سفر کیا تھا۔ کرنی ماتا مندر میں اگر کسی فرد کے ننگے پاؤں پر کوئی چوہا دوڑ جائے، تو اسے خوش قسمتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/zb/R. Kaufhold
پرتجسس اور مسافر چوہے
چوہوں کی تقریباﹰ ساٹھ اقسام ہوتی ہیں اور ان میں سے زیادہ تر جنگلوں کے قریب رہتی ہیں۔ اصل میں چوہے جنوب مشرقی ایشیا سے آئے ہیں۔ بھارت اور چین سے یہ جزیروں کی دنیا انڈونیشیا پہنچے اور وہاں سے نیو گنی اور آسٹریلیا تک۔ انسانوں کے سفر کے ساتھ ساتھ یہ بھی دنیا بھر میں پہنچ گئے۔ قرون وسطیٰ میں یہ یورپ بھی پہنچ چکے تھے۔
تصویر: SGHT
غلیظ چوہے
یہودیوں کی تورات، مسیحیوں کی انجیل اور مسلمانوں کے قرآن میں چوہوں کا کوئی خاص ذکر نہیں ہے۔ لیکن یورپ میں انہوں نے نہ صرف جمع شدہ غلہ کھایا بلکہ یہ بیماریاں پھیلانے کی وجہ بھی بنے۔ ہر چیز کھا جانے والے یہ جاندار عموماﹰ کوڑے کرکٹ میں اپنی خوراک تلاش کرتے ہیں۔ اندھیرے، تنگ مقامات، نالیوں اور گٹروں میں رہنے کی وجہ سے انسان انہیں غلیظ سمجھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/A. Cupak
غلیظ چوہوں کا خاتمہ
جرمن شہر ہاملن میں پوری دنیا سے سالانہ ہزاروں سیاح چوہے پکڑنے کی کہانی پر مبنی یہ مجسمہ دیکھنے آتے ہیں۔ سن 1284ء میں اس شہر کو چوہوں کی وباء سے پاک کر دیا گیا تھا۔ روایت کے مطابق چوہوں کو بانسری کی مدد سے ایک جگہ جمع کیا گیا تھا۔ آج کے دور میں چوہوں کو مارنے کے لیے زہریلی ادویات استعمال کی جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Stratenschulte
دشمنی سے دوستی تک کا سفر
جرمنی کے ماہر حیوانیات اور مصنف آلفریڈ بریم نے انیسویں صدی کے وسط میں چوہوں کو ’مکروہ جانور‘ لکھا تھا۔ ان کے مطابق، ’’جونہی چوہوں کو پتا چلتا ہے کہ انسان ان کے سامنے بے بس ہو چکا ہے، تو ان کی چالاکیوں میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔‘‘ تب فلموں میں بھی انہیں برا ہی دکھایا گیا۔ ان کا دوستانہ تصور فلم ’راٹا ٹوئی‘ میں سامنے آیا اور ان سے متعلق پرانا تصور کافی حد تک بدل گیا۔
تصویر: Imago/Unimedia
چوہا بطور پالتو جانور
سفید چوہوں کو خاص طور بطور پالتو جانور بھی پالا جاتا ہے۔ یہ کم شرمیلے ہوتے ہیں اور انسانوں سے خوف بھی نہیں کھاتے۔ چوہوں کے غلیظ ہونے کی کہانیوں کے باوجود یہ قدرے صفائی پسند ہوتے ہیں اور اپنے بالوں کی دیکھ بھال میں بھی مصروف رہتے ہیں۔ اس نسل کے چوہوں کے کئی دیگر رنگ بھی ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے انہیں ’رنگدار چوہے‘ بھی کہا جاتا ہے۔
مطلبی اور خود غرض ہونے کی بجائے چوہے خاندانی گروپوں میں رہتے ہیں۔ ایک خاندان کے چوہے ایک دوسرے کو خاص طرح کی بُو سے پہچان لیتے ہیں۔ خاندان میں محبت اور مضبوطی کے لیے کمزور اور چھوٹے چوہوں کو کھانے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر راستہ دیا جاتا ہے۔ یہ ذہین بھی ہوتے ہیں۔ مشکل اور پیچیدہ راستوں میں سے آسان راستہ بہت جلد تلاش کر لیتے ہیں۔
تصویر: dpa
تحقیق میں چوہوں کا استعمال
چوہے غلاظت سے سفر کرتے ہوئے سائنسدانوں کی تحقیق تک بھی پہنچ چکے ہیں۔ کتوں یا بندروں کے برعکس ان پر تجربات کے خلاف کم ہی آواز اٹھائی جاتی ہے۔ چوہوں کی نسل تیزی سے بڑھتی ہے اور یہ کم قمیت بھی ہیں، اس لیے تحقیقی اور تجرباتی دنیا میں ان کا استعمال زیادہ ہے۔ صرف جرمنی میں سالانہ پانچ لاکھ چوہوں کو طبی تحقیق کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
تصویر: Imago
چوہے اور دھماکا خیز مواد
کتوں کے مقابلے میں بھی چوہے میدان میں آ چکے ہیں۔ چوہوں کی کئی اقسام دھماکا خیز مواد سونگھنے میں اتنی ہی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں، جتنی کہ شیفرڈ اور اس نسل کے دیگر کتے دکھاتے ہیں۔ تھائی لینڈ، انگولا، کمبوڈیا اور موزمبیق میں چوہوں کی مدد سے بارودی سرنگیں تلاش کی جاتی ہیں۔