چينی محنت کشوں کی نئی نسل ميں بہتر زندگی کی طلب
7 ستمبر 2011چين کی پرانی نسل کے انہی محنت کشوں نے ساحل پر چمکتے دمکتے شہر آباد کيے اور انہی کے دم سے کارخانوں ميں مشينيں چلنے لگيں۔ وہ سخت جان اور قربانيوں پر آمادہ تھے۔ ليکن اب زمانہ بدل چکا ہے۔ ايک نئی نسل صنعتی مراکز ميں پروان چڑھی ہے، جو تن آسان اور بہتر زندگی کی خواہاں ہے۔
32 ملين کی آبادی والے شہر شنگھائی کے بہت دور کے شمالی حصے ميں صاف ستھری بڑی بڑی سڑکوں سے گذرنے کےبعد جياڈنگ کا سپاٹ سا صنعتی علاقہ ہے، جہاں دائيں اور بائيں کارخانوں کی قطار ہے۔ ايک کارخانے کے مينيجر وانگ جيان يون کی عمر ابھی خود بھی صرف 33 سال ہے ليکن وہ نوجوان کارکنوں کی سستی اور کام چوری کا گلہ کرتے ہيں: ’’جب ميں نے ملازمت شروع کی تھی تو ميری تنخواہ 800 ين تھی۔ ميں جلدی کام پر آتا اور دير سے گھر جاتا تھا ليکن ميں مطمئن تھا۔ آج نوجوان يہ پوچھتے ہيں کہ اُنہيں ملے گا کيا، يہ نہيں کہ وہ کيا ديں گے۔ ہمارے زمانے ميں معاملہ الٹ تھا۔‘‘
وانگ کی فرم FastPCB اليکٹرانک پرزے تيار کرتی ہے۔ اب ديہی علاقوں سے کارکنوں کی آمد کم ہو گئی ہے۔ اس ليے اجرتوں ميں ہر سال تقريباً 20 فيصد اضافہ ہو رہا ہے۔ نوجوان کارکنوں کو پتہ ہے کہ اُن کی شديد ضرورت ہے۔ وانگ نے کہا کہ بعض ملازم تو چند ہفتے بعد ہی کہيں اور کام کرنے کے ليے چلے جاتے ہيں۔
صوبے جيانگ سُو سے آنے والی 23 سالہ شين فينگ نے کہا کہ کارکن زيادہ اجرت والی ملازمتوں سے ايک دوسرے کو آگاہ کرتے رہتے ہيں۔
ليکن ديہی علاقوں سے آنے والے نوجوان کارکنوں کو راغب کرنے کے ليے صرف اچھی اجرت ہی نہيں بلکہ دوسری سہولتيں بھی دينا پڑتی ہيں۔ وانگ کی فيکٹری کے سامنے ہی ايک باسکٹ بال کا ميدان بھی ہے۔
اگرچہ چين ميں محنت کشوں کے استحصال کے واقعات اب بھی ہوتے ہيں ليکن مجموعی طور پر صورتحال بہتر ہو گئی ہے۔ بہت سے اداروں ميں صحيح طرح کے ملازمتی معاہدے کيے جاتے ہيں اور سوشل سکيورٹی کا انتظام بھی ہے۔
ليکن معاملہ صرف کام ہی کا نہيں بلکہ پورے طرز زندگی کا ہے۔ 80 فيصد نوجوان اپنے والدين کی طرح گاؤں واپس نہيں جانا چاہتے۔ وہ نئے فيشن اور انٹرنيٹ کے شائق ہيں۔ شين فينگ نے کہا کہ وہ يقيناً اپنے والدين کی طرح مشقت نہيں کرنا چاہتی۔ وہ زيادہ پيسہ تو چاہتی ہے ليکن اُس کے لنے سخت کام کرنے پر آمادہ نہيں۔ وہ پيسہ بچانا نہيں بلکہ اچھی زندگی گذارنے کی قائل ہے۔ اور سب سے بڑھ کر يہ کہ وہ خود اپنے ليے زيادہ وقت بھی چاہتی ہے۔
رپورٹ: مارکوس رميلے، شنگھائی / شہاب احمد صديقی
ادارت: امجد علی