چين نے کورونا وائرس کی عالمی وبا کے تناظر ميں عائد پابنديوں ميں نرمی کا فيصلہ کيا ہے۔ کئی غير ملکيوں کے ليے چين ميں سياحت کی راہ ہموار ہو سکتی ہے، شرط يہ کہ انہوں نے چين کی تيار کردہ کورونا ويکسين لگوا رکھی ہو۔
اشتہار
اس سال گرميوں کی چھٹيوں ميں اور کہيں ہو نہ ہو، چين کی سير ضرور ممکن دکھائی ديتی ہے۔ ليکن يہ ممکنہ سہولت پاکستان، بھارت اور امريکا کے صرف ان شہريوں کے ليے ہے، جنہوں نے چين کی تیار کردہ ويکسين لگوائی ہو۔ خبر رساں ادارے اے ايف پی کی بيجنگ سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق چينی حکومت نے پابنديوں ميں نرمی کرتے ہوئے چند مخصوص ممالک کے شہريوں کو ويزے جاری کرنے کا فيصلہ کيا ہے۔ چند ملکوں ميں چينی سفارت خانوں نے نوٹس بھی جاری کر ديے ہيں کہ مقامی سطح پر جن لوگوں نے چينی ويکسين لگوا لی ہے، وہ اگر چاہيں تو چين کے ويزوں کے ليے درخواستيں دے سکتے ہيں۔
نئے کورونا وائرس کے اولين کيسز 2019ء کے اواخر ميں چينی شہر ووہان ميں سامنے آئے تھے۔ بعد ازاں کورونا کی وبا نے پوری دنيا کو اپنی لپيٹ ميں لے ليا اور کم و بيش تمام ممالک اور خطوں ميں سخت سفری پابندياں نافذ کر دی گئيں۔ اس وقت بھی کئی ملکوں ميں کورونا وائرس کی دوسری یا تيسری لہر جاری ہے۔ دوسری جانب متعدد ممالک ميں ويکسينیشن پروگرام بھی جاری ہيں اور قومی حکومتيں پابنديوں ميں نرمی کی منصوبہ بندی کيے بيٹھی ہيں۔
کورونا بحران، چینی کسانوں کے کاروبار کرنے کے انوکھے طریقے
03:50
چينی ويکسين لگوانے والوں کے ليے ويزے
امريکا ميں چينی سفارت خانے نے پير پندرہ مارچ کو تصديق کی کہ چينی ويکسين لگوانے والے ويزے کے ليے درخواستیں دے سکتے ہيں۔ ابتدائی طور پر يہ ويزے ملازمت، کاروباری مقاصد، انسانی ہمدردی يا پھر اہل خانہ سے ملاقاتوں کے ليے جاری کيے جائيں گے۔ اس نوٹس ميں واضح کيا گيا ہے کہ جو لوگ ويکسين کے دونوں ٹیکے لگوا چکے ہوں يا پھر ويزے کی درخواست سے چودہ دن قبل پہلا ٹيکہ لگوا چکے ہيں، وہ ويزے کے حصول کے اہل ہوں گے۔ اطلاعات ہيں کہ پاکستان، فلپائن، اٹلی اور سری لنکا ميں قائم چينی سفارت خانوں نے بھی اس سلسلے ميں نوٹس جاری کر ديے ہيں۔
چين کئی ممالک کو کورونا سے بچاؤ کی ويکسين فراہم کر رہا ہے، جن ميں اس کا قريبی اتحادی ملک پاکستان بھی شامل ہے۔ پاکستان ميں ساٹھ برس سے زائد عمر کے افراد اور طب کے شعبے سے وابستہ کارکنوں کو ٹيکے لگانے کا سلسلہ جاری ہے۔
دوسری جانب عدم شفافيت اور آزمائشی استعمال کے نتائج کے حوالے سے کم معلومات کی بنياد پر کئی مغربی ممالک ميں چينی ويکسين کے حوالے سے شکوک و شبہات بھی پائے جاتے ہيں۔
اقوام عالم کے ليے اس سال کے اہم ترین چيلنجز کون سے ہيں؟
کورونا وائرس کی عالمی وبا اور کئی ديگر وجوہات کی بنا پر سن 2020 دنیا کے ليے ايک بہت مشکل سال ثابت ہوا مگر 2021ء کيسا رہے گا؟ يوريشيا گروپ کے مطابق دنیا کے لیے رواں سال کے دس سب بڑے چيلنجز يہ ہيں۔
تصویر: John Macdougall/REUTERS
امریکا کے چھياليس ويں صدر
جو بائيڈن امريکی صدارتی انتخابات ميں فاتح رہے۔ گو کہ ٹرمپ يہ اليکشن ہارے، لیکن انہيں سن 2016 کے مقابلے ميں گيارہ ملين زیادہ ووٹ ملے۔ ٹرمپ کے حامی ان کی پھيلائی ہوئی افراتفری کو ’جرأت‘ کا نام دیتے ہیں۔ ٹرمپ ايک با اثر شخيت کی حيثيت سے وائٹ ہاؤس چھوڑ رہے ہيں اور اس وقت امريکی معاشرہ انتہائی منقسم ہے۔ کئی اداروں ميں قدامت پسندوں کا زور ہے۔ کيا چھياليس ويں امريکی صدر بائیڈن ان چيلنجز سے نمٹ پائيں گے؟
کورونا کی وبا کے طويل المدتی اثرات
کورونا کی وبا 2021ء ميں بھی نہ صرف انفرادی سطح پر لوگوں کی صحت اور زندگيوں بلکہ مجموعی طور پر عالمی سياسی استحکام اور معیشت پر بھی اثر انداز ہوتی رہے گی۔ کئی ممالک ويکسينیشن پر توجہ مرکوز رکھيں گے تاہم اسی دوران وبا کے معاشی اور معاشرتی اثرات بھی نمودار ہوتے رہيں گے۔ کئی خطوں ميں بے روزگاری، نقل مکانی، عدم مساوات اور اعتماد کے فقدان جيسے مسائل ابھر سکتے ہيں۔
تصویر: Dinendra Haria/ZUMAPRESS/picture alliance
تحفظ ماحول
تحفظ ماحول کی کوششيں زور پکڑتی جا رہی ہيں، جس کے نتيجے ميں بڑی اقتصادی قوتوں کے مابين کشيدگی بڑھ سکتی ہے۔ چين کی صنعتی پاليسی کو سنجيدہ چيلنجز سے نمٹنا پڑے گا۔ زہريلی گيسوں کے اخراج کو کم سے کم کرنے کے ليے ہر سطح پر اور ہر ميدان ميں نئے مواقع پيدا ہوں گے۔ مگر ايسے ميں کسی کو مالی فائدہ ہو گا تو کسی کو نقصان۔
تصویر: Ahmad AL-BASHA/AFP
امريکا اور چين کے مابین کشيدگی
روايتی حريف ممالک امريکا اور چين کے مابين کئی معاملات پر کشيدگی ميں کمی کا امکان ہے کيونکہ دونوں ہی سياسی سطح پر استحکام کے خواہاں ہيں۔ مگر ہانگ کانگ، ويکسين ڈپلوميسی، قوم پرستی، تحفظ ماحول سے متعلق پاليسيوں اور دفاعی امور پر نئے اختلافات بھی زور پکڑيں گے۔
تصویر: Lintao Zhang/AP Images/picture alliance
انٹرنيٹ پر ڈيٹا کا تبادلہ
حساس ڈيٹا کے تبادلے ميں رکاوٹوں سے انٹرنيٹ پر برنس کا موجودہ ماڈل متاثر ہو گا۔ مصنوعی ذہانت اور فائيو جی جيسی ٹيکنالوجيز وسعت پائيں گی اور بڑی قوتيں ان کے ذريعے حساس ڈيٹا کے تبادلے سے متعلق اضافی شکوک و شبہات کا شکار ہوں گی۔ اس سال انٹرنيٹ پر ڈيٹا کے آزادانہ تبادلے کا مجموعی ماحول کافی حد تک تبديل ہو جانے کا قوی امکان ہے۔
تصویر: Nicolas Asfouri/AFP/Getty Images
سائبر حملوں کا خطرہ، ہميشہ ہی حقيقی
ايسا کوئی مخصوص اشارہ نہيں کہ رواں سال سائبر حملوں کا خطرہ زيادہ ہے ليکن جيسے جيسے ہر ميدان ميں ڈيجیٹلائزيشن بڑھ رہی ہے، سائبر حملوں کا خطرہ حقيقی طور پر بڑھ رہا ہے۔ ہر کمپيوٹر، ہر موبائل فون يا ہر اسمارٹ ڈيوائس ہيکرز کے ليے ايک موقع فراہم کرتی ہے۔ رواں سال اس ماحول ميں اور بھی اضافہ ممکن ہے۔
تصویر: Colourbox
ترکی کا مستقبل
پچھلے سال اقتصادی ميدان اور کورونا سے نمٹنے ميں ناقص کارکردگی کيا صدر رجب طيب ايردوآن کو لے ڈوبے گی؟ وہ قريب دو دہائيوں سے اقتدار میں ہيں اور عوام ميں اب کچھ تھکاوٹ سی پائی جاتی ہے۔ يہ ماحول معاشرتی تقسيم کے علاوہ انہيں اس بات پر بھی مجبور کر سکتا ہے کہ وہ قوم پرستانہ رجحانات کو ہوا دينے کے ليے خارجہ سطح پر کوئی خطرہ مول لے ليں يا اپوزيشن کو نشانہ بنائيں۔ آئندہ انتخابات ميں کيا ہو گا؟
تصویر: Murat Cetinmuhurdar/Turkish Presidency/handout/picture alliance / AA
وبا سے سب سے زيادہ متاثرہ خطہ مشرق وسطیٰ
وبا سے سب سے زيادہ متاثرہ خطہ مشرق وسطیٰ ہے۔ پچھلے سال توانائی کی مانگ ميں کمی کی وجہ سے تيل کی پيداوار سے منسلک ممالک بری طرح متاثر ہوئے۔ يہ سال تو اس سے بھی کٹھن ثابت ہو گا کيونکہ ايندھن کی قيمتوں ميں زيادہ اتار چڑھاؤ کا امکان کم ہی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے کئی ملکوں کی حکومتيں اخراجات کم کريں گی، جس سے بے روزگاری بڑھے گی۔ کئی ملکوں ميں عوامی احتجاجی تحريکيں بھی ديکھنے میں آ سکتی ہيں۔
تصویر: picture-alliance/AP/H. Jamali
ميرکل کے بعد کا يورپ
اس سال جرمنی ميں عام انتخابات ہوں گے۔ چانسلر انگيلا ميرکل کے بعد کے يورپ کے بارے میں سوچنا کئی لوگوں کے ليے واقعی ناقابل تصور بات ہے۔ پندرہ برس سے بھی زیادہ عرصے تک حکومت کرتے ہوئے ميرکل نے نہ صرف جرمنی بلکہ يورپ کو بھی کئی بحرانوں سے نکالا۔ ان کا سیاست کو الوداع کہنا اپنے پیچھے ايک بہت بڑا خلا چھوڑے گا، جس سے يورپی سطح پر اقتصادی بحالی اور بہت سے معاملات ميں خلل پڑ سکتا ہے۔
تصویر: Markus Schreiber/REUTERS
لاطينی امريکا
مشرق وسطیٰ کے بعد پچھلے سال سب سے زيادہ متاثرہ خطہ لاطينی امريکا رہا۔ اس خطے کے ممالک کو ويسے ہی سياسی اور اقتصادی مسائل کا سامنا تھا اور يہی وجہ ہے کہ کورونا ويکسين کی دستيابی کے باوجود اکثر لاطينی امريکی ممالک ميں ويکسينیشن کا عمل شروع ہی نہ ہو سکا۔ اس سال ارجنٹائن اور ميکسيکو ميں عام انتخابات ہونا ہيں جبکہ چلی، پيرو اور ايکواڈور ميں نئے ملکی صدور کے ليے انتخابات بھی ہوں گے۔