1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’چين افغانستان ميں فوجی اڈا بنا رہا ہے‘

30 اگست 2018

چينی وزارت دفاع کی جانب سے بتايا گيا ہے کہ افغانستان کا دفاع بہتر بنانے اور انسداد دہشت گردی کے ليے کابل حکومت کی معاونت جاری ہے۔ تاہم چين اس سے قبل افغانستان ميں فوجی اڈے کے قيام سے متعلق رپورٹس مسترد کر چکا ہے۔

China Militär
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Wong

’ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ‘ نے فوج کے قريبی ذرائع کا حوالہ ديتے ہوئے بدھ انتيس اگست کو اپنی رپورٹوں ميں لکھا تھا کہ چينی فوج افغانستان کی واخان راہداری ميں ايک کيمپ قائم کرنے ميں مدد فراہم کر رہی ہے، جو ان دونوں ممالک کو ملائے گا اور بعد ازاں وہاں چينی دستے بھی تعينات کيے جا سکتے ہيں۔ بيجنگ ميں وزارت خارجہ نے البتہ فوری طور پر اس رپورٹ کو مسترد کر ديا۔ ہانگ کانگ کے اس اخبار نے اپنی رپورٹ کے مسودے ميں ترميم کرتے ہوئے بيجنگ ميں افغان سفارت خانے کے ذرائع سے لکھا ہے کہ چين در اصل پہاڑی راستے پر ايک پل بنانے ميں مدد کر رہا ہے، جس سے انسداد دہشت گردی سے متعلق سرگرميوں کو فروغ حاصل ہو گا۔ رپورٹ ميں يہ بھی واضح کيا گيا کہ کسی بھی وقت چين کا کوئی بھی سپاہی افغانستان ميں تعينات نہيں ہو گا۔

چينی وزارت دفاع کے ترجمان کرنل وُو کيان نے بيجنگ ميں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے اپنی ماہانہ بريفنگ ميں کہا کہ مشرقی افغانستان ميں چينی فوجی اڈے کے قيام اور افواج کی تعيناتی سے متعلق افواہيں بے بنياد ہيں۔ انہوں نے البتہ تسليم کيا کہ چين کی جانب سے دفاعی صلاحيت بڑھانے اور انسداد دہشت گردی کے سلسلے ميں ديگر رياستوں ہی کی طرح کابل حکومت کو معاونت فراہم کی جا رہی ہے۔ ان کے بقول دونوں ملکوں کے سکيورٹی اور عسکری سطح پر معمول کے تعلقات ہيں۔

يہ پہلا موقع نہيں جب چينی افواج کی افغانستان ميں تعيناتی کے بارے ميں رپورٹيں سامنے آئی ہيں۔ گو کہ بيجنگ حکومت ہميشہ ہی انہيں رد کرتی آئی ہے۔ رواں سال جنوری ميں بھی بيجنگ نے افغان سرزمين پر فوجی اڈے کے قيام کی خبريں مسترد کر دی تھيں جبکہ ايک اور موقع پر افغانستان ميں چينی فوج کی گاڑيوں کے گشت کی رپورٹيں بھی سامنے آ چکی ہيں۔

چين در اصل ايک عرصے سے اس بارے ميں فکر مند ہے کہ افغانستان ميں عسکريت پسندی چين ميں پہلے سے پريشانی کا سبب بنے ہوئے سنکيانگ کے خطے تک نہ پہنچ جائے۔ يہ خطہ ايغور نسل کے مسلمانوں کا گڑھ ہے اور آج کل متنازعہ کيمپوں کے سبب ويسے ہی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

افغانستان ميں طالبان کی مسلح بغاوت کے خاتمے کے ليے چين، پاکستان اور امريکا کے ساتھ بھی کام کر چکا ہے۔ پچھلے سال چين نے افريقی ملک جبوتی ميں بيرون ملک قائم اپنا پہلا عسکری اڈا قائم کيا۔ گرچہ چينی حکومت يہ کہہ چکی ہے کہ وہ مزيد کوئی بيس قائم کرنے کا ارادہ نہيں رکھتی تاہم امريکا کو خدشہ ہے کہ مستقبل قريب ميں ايسا ہو سکتا ہے اور امکاناً چين اپنا ايسا کوئی فوجی بيس، پاکستان ميں بھی قائم کر سکتا ہے۔

بلند حوصلہ افغان فوجی خواتین

02:25

This browser does not support the video element.

ع س / اا، نيوز ايجنسياں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں