1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چين خلاء ميں مصنوعی چاند کيوں بھيجنا چاہتا ہے؟

19 اکتوبر 2018

چين، روس اور امريکا کی طرز یر چلتے ہوئے خلائی سائنس کے ميدان ميں بھی ترقی کا خواہش مند ہے اور اس سلسلے ميں کئی منصوبوں پر کام جاری ہے۔ ايسا ہی ايک منصوبہ خلاء ميں مصنوعی چاند بھيجنے کا ہے۔

China Supermond  Flugzeug
تصویر: picture-alliance/Imaginechina/S. Yipeng

دنيا بھر ميں شہری علاقوں ميں روشنی کی ضرورت ذرا کچھ زيادہ ہی پڑتی ہے۔ ايک طرف گھروں اور دفاتر ميں بے پناہ بجلی درکار ہوتی ہے تو دوسری طرف سڑکوں اور شاہراہوں کو روشن رکھنے کے ليے بھی بجلی درکار ہے۔ بجلی کے اخراجات محدود کرتے ہوئے سڑکوں وغيرہ کو روشن بنانے کے ليے اب چين نے ايک بڑا ہی منفرد منصوبہ بنايا ہے۔ يہ ايشيائی ملک سن 2020 تک خلا ميں مصنوعی چاند بھيجنا چاہتا ہے۔ اس بارے ميں خبر چين کے سرکاری ميڈيا پر جمعے انيس اکتوبر کو جاری کی گئی۔

چين کے جنوبی صوبہ سيچوان کے شہر شينگڈو ميں بڑی بڑی روشنی والی سيٹلائٹس کی تياری جاری ہے۔ ’چائنا ڈيلی‘ نامی اخبار کے مطابق يہ سيٹلائٹس چاند کے ساتھ ہی روشنی پھينکيں گی تاہم ان کی روشنی چاند سے نکلنے والی روشنی کے مقابلے ميں آٹھ گنا زيادہ ہو گی۔ انسان کا تعمير کردہ ايسا پہلا مصنوعی چاند سيچوان ميں شيشانگ لانچ سينٹر سے سن 2020 ميں لانچ کيا جائے گا، جس کے بعد 2022ء تک ايسے تين مزيد چاند بھی خلاء ميں بھيجے جائيں گے۔

اس منصوبے کو پايہ تکميل تک پہنچانے کے ليے سرگرم ايجنسی کے سربراہ وو چن فينگ نے بتايا ہے کہ پہلا چاند تجرباتی طور پر بھيجا جائے گا اور اگر يہ تجربہ کامياب رہا تو بعد ميں بھيجے جانے والے چاند اصل کام کريں گے۔ سورج کی روشنی منعکس کر کے روشنی پھيلانے کا کام کرنے والے مستقبل کے يہ مصنوعی چاند شہری علاقوں ميں سڑکوں وغيرہ پر نصب لائٹس کا نعم البدل ثابت ہو سکتے ہيں۔ روشنی حاصل کرنے کے اس نئے ذريعے کو ضرورت پڑنے پر کسی قدرتی آفت وغيرہ کی صورت ميں بھی استعمال کيا جا سکتا ہے۔ يہ مصنوعی چاند امدادی کاموں کے ليے روشنی فراہم کر سکتے ہيں۔

چين نے خلاء ميں امريکا اور روس کی پيش قدمی کو مد نظر رکھتے ہوئے اور خود اس ميدان ميں آگے بڑھنے کے ليے متعدد منصوبے شروع کر رکھے ہيں۔ اسی سال ’Chang'e-4‘ کے نام سے ايک خلائی جہاز روانہ کيا جانا ہے، جو چاند کے تاريک حصے پر تحقيق کرنے والا پہلا خلائی جہاز يا مشن ہو گا۔

ع س / ع ت، نيوز ايجنسياں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں