چين کو کمپيوٹر چپس کی فروخت بند، امریکہ کے اہداف کیا ہیں؟
12 نومبر 2022امريکی صدر جو بائيڈن کی انتظاميہ نے اپنے حريف ملک چين کو جديد ترين کمپيوٹر چپس کی برآمد روکنے کے ليے گزشتہ ماہ حتمی قدم اٹھايا۔ تيزی سے بدلتے اور جديد تر ہوتے دور ميں اس امريکی اقدام کو دنيا کی دو سب سے بڑی اقتصادی قوتوں کے مابين ايک نئے باب کی شروعات کے طور پر ديکھا جا رہا ہے۔ کئی مبصرين کی رائے ميں يہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بائيڈن انتظاميہ چين کے ساتھ مسابقت ميں اہم فيصلے لينے کی اہل ہے۔
کيا بھارت کی چين سے دوری امريکا سے قربت کی ضامن ہے؟
امريکی اسٹاک ایکسچینجز سے چينی کمپنيوں کا اخراج زير غور
امريکا اور چين کے مابين مذاکرات مگر کشيدگی برقرار
دو دہائيوں تک دنيا بھر کی توجہ دو طرفہ تجارت کو فروغ دينے اور عالمی اقتصادی نمو پر مرکوز رہی۔ اب البتہ دو سب سے بڑی معاشی قوتيں ملکی مفادات کو ترجيح دے رہی ہيں۔ اس وقت عالمی معيشت پر بلند افراط زر اور اقتصادی بد حالی کے سياہ بادل چھائے ہوئے ہيں۔ ايسے ميں چين اور امريکہ دونوں ہی کمپيوٹر چپس کی تياری کو اپنی اپنی معاشی ترقی اور دفاعی مفادات کے ليے اہم تصور کرتے ہيں۔
امريکی اقدام اور چينی رد عمل
امريکہ کی کامرس سيکرٹری جينا رائےمونڈو نے حال ہی ميں ايک انٹرويو ميں کہا تھا، ''ہم امريکی شہريوں کو چين سے لاحق خطرات سے بچانے کے ليے ہر ممکن اقدامات کريں گے۔‘‘ ان کا مزيد کہنا تھا کہ چين اس ٹيکنالوجی کو نگرانی اور سائبر حملوں کے ليے استعمال کرے گا، ''چين اس ٹيکنالوجی کو ہميں اور ہمارے اتحاديوں کو نقصان پہنچانے اور تحفظ کی صلاحيت کو کمزور بنانے کے ليے بروئے کار لائے گا۔‘‘
دوسری جانب چينی صدر شی جن پنگ نے امريکی اقدام کے رد عمل ميں اس عزم کا اظہار کيا ہے کہ ان کا ملک سيمی کنڈکٹرز کی پيداوار ميں خود کفيل بننے کے ليے زيادہ موثر طريقے اور تیزی سے کام کرے گا۔ کميونسٹ پارٹی کی کانگريس سے اپنے خطاب ميں چينی صدر نے کہا تھا، ''چين کی اختراعی صلاحيت کے فروغ کے ليے کئی اسٹريٹيجک اور طويل المدتی ملکی منصوبوں کو تيزی سے آگے بڑھايا جائے گا‘‘۔
چينی حکومت نے مصنوعی ذہانت اور ہائپر سونک ميزائلوں کو مزید فعال بنانے کے لیے جديد ترين کمپيوٹر چپس کی داخلی سطح پر تياری کو اپنی اولين ترجيحات ميں شامل کر ليا ہے۔ البتہ جب تک چين خود کفالت کے اس مقام تک نہيں پہنچتا، اس وقت تک چين کو امريکی چپس کی درآمد پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن اب امريکی فيصلے کے بعد یہ نا ممکن ہو گيا ہے اور چین کے کئی اہم منصوبے تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں۔
'دا بگ پکچر‘، بدلتا ہوا عالمی منظر نامہ
سرد جنگ کے بعد امريکہ سميت بيشتر ممالک کی سوچ يہی رہی ہے کہ مضبوط اقتصادی روابط ممالک کو قريب لانے ميں معاون ثابت ہوں گے، جس سے دنيا زيادہ محفوظ اور اقتصادی طور پر زيادہ کامياب ہو گی۔ تاہم کورونا کی عالمی وبا، يوکرين ميں جنگ اور چين کے 'توسيع پسندانہ عزائم‘ کی بدولت نہ صرف بائيڈن انتظاميہ بلکہ کئی ايشيائی ممالک نے بھی قومی سلامتی اور صنعتی ترقی کی نئی حکمت عملی اپنانا شروع کر دی ہے۔
ٹفٹس يونيورسٹی سے وابستہ پروفيسر کرسٹوفر ملر کا کہنا ہے کہ وہ دور ختم ہو رہا ہے، جب چين اور روس جيسے ممالک کو امريکہ اور يورپ کی منڈيوں تک بلا رکاوٹ رسائی حاصل تھی۔ ان کا کہنا ہے، ''ان ممالک سے لاحق خطرات بڑھ گئے ہيں۔ اسی ليے مغربی ممالک نے انہيں اپنی منڈيوں تک بے دريغ رسائی دينے پر نظر ثانی کی ہے۔‘‘
عالمی معيشت کو فروغ دينے کی بجائے اب چھوٹے گروپوں کی شکل ميں ترقی کی حکمت عملی اپنائی جا رہی ہے۔ کواڈ نامی اتحاد ايک مثال ہے، جس ميں آسٹريليا، بھارت، جاپان اور امريکہ شامل ہيں۔
کرسٹوفر ملر نے مزيد کہا، ''تمام بڑی قوتيں معاشی تعلقات کو نئے سرے سے تشکيل دے رہی ہيں تاکہ ان کی جيو پوليٹيکل پوزيشن زيادہ مستحکم ہو۔‘‘
ع س / ا ا (اے پی)