چَک ہیگل افغانستان میں اور امریکی فوجی رہائی کے بعد جرمنی میں
1 جون 2014بیرگڈاہل کی افغانستان سے روانگی کے تھوڑی ہی دیر بعد معمول کے ایک دورے پر افغانستان پہنچنے والے امریکی وزیر دفاع چَک ہیگل نے امید ظاہر کی ہے کہ قیدیوں کے اس تبادلے کے نتیجے میں عسکریت پسندوں کے ساتھ مصالحت کی جانب کوئی بڑی پیشرفت ہو سکے گی۔ ہیگل نے افغان دارالحکومت کابل کے قریب بگرام کے بڑے امریکی فوجی اڈے میں اسپیشل فورسز کے ایک درجن سے زائد فوجیوں کے ساتھ ملاقات کی اور بیرگڈاہل کی رہائی کے سلسلے میں کوششوں کے لبے اُن کا شکریہ ادا کیا۔
بگرام کے اس اڈے کے ایک ہینگر میں فوجیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ہیگل نے کہا:’’آج کا دن ہمارے ملک کے لیے ایک خوشی کا دن ہے کیونکہ ہمیں ہمارا ایک اپنا واپس مل گیا ہے۔‘‘ یہ امر اہم ہے کہ امریکی وزیردفاع بگرام میں اپنے قیام کے دوران آئی سیف کمانڈروں سے افغان فوج و پولیس کی تربیت کے بارے میں بعض بنیادی معلومات حاصل کریں گے۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ رواں برس کے اختتام پر بین الاقوامی فوج کے انخلاء کے بعد افغان فورسز سکیورٹی ذمہ داریاں سنبھالنے کی کتنی استعداد رکھتی ہیں۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق افغانستان کے واحد امریکی جنگی قیدی سارجنٹ بووی بیرگڈاہل رہائی کے بعد جرمنی پہنچ چکا ہے، جہاں اسے امریکی فوج کے ملٹری ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ اُسے قیدیوں کے تبادلے کے ایک ڈرامائی واقعے میں کیوبا کی سرزمین پر قائم حراستی کیمپ گوانتانامو بے سے پانچ طالبان عسکریت پسندوں کی رہائی کے بدلے میں چھوڑا گیا ہے۔
اٹھائیس سالہ بیرگڈاہل کی رہائی کے لیے مذاکرات ایک مدت سے ہو رہے تھے اور امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اُس کی اچانک رہائی افغان طالبان کے ایک سخت گیر دھڑے کی جانب سے ڈیل پر راضی ہو جانے کے بعد عمل میں آئی ہے۔
امریکی محکمہء دفاع کے ایک اہلکار نے بتایا کہ بیرگڈاہل کو ہفتے کے روز مشرقی افغانستان میں مقامی وقت کے مطابق شام چھ بجے امریکی اسپیشل فورسز کے حوالے کیا گیا، وہ چل پھر سکتا ہے اور جب اُسے آزادی ملی تو وہ جذباتی ہو گیا تھا۔ اہلکار نے بتایا:’’جب وہ ہیلی کاپٹر کے اندر پہنچ گیا تو اُس نے ایک کاغذ پر لکھ کو پوچھا، ایس ایف؟ یعنی کیا تم اسپیشل فورسز کے لوگ ہو؟ تب اُسے بتایا گیا کہ ’ہاں! ہم ایک مدت سے تمہاری تلاش میں تھے اور تب وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا‘۔ جرمنی میں ابتدائی طبیّ امداد کے بعد بیرگڈاہل کو امریکی ریاست ٹیکساس کے سان انتونیو میڈیکل سینٹر میں منتقل کر دیا جائے گا۔
افغانستان میں امریکی اور نیٹو فورسز کے کمانڈر جنرل جوزف ڈنفورڈ نے کہا کہ بیرگڈاہل کی رہائی کے آپریشن کی کامیابی کا سنتے ہی بین الاقوامی فوجی دستوں کے ہیڈ کوارٹرز میں مسرت و جوش کی لہر دوڑ گئی۔
اُدھر امریکا میں صدر باراک اوباما بیرگڈاہل کی تصویر اور اُس کے ماں باپ بَوب اور جانی کے ساتھ وائٹ ہاؤس کے روز گارڈن میں صحافیوں کے سامنے آئے اور اُنہوں نے کہا کہ ’بووی ہمارے پاس نہیں تھا لیکن ہم اُسے بھولے نہیں تھے‘۔
جب بووی بیرگڈاہل کو تیس جون 2009ء کو مشرقی افغانستان میں اغوا کیا گیا تو اُسے افغانستان پہنچے ابھی دو ہی مہینے ہوئے تھے۔ اُس کے بدلے میں رہا ہونے والے پانچ طالبان عسکریت پسندوں کو گوانتانامو بے سے رہائی کے بعد قطر پہنچا دیا گیا ہے، جس نے قیدیوں کے اس تبادلے میں ثالثی کا کردار ادا کیا۔ ڈیل کے تحت یہ قیدی کم از کم ایک سال تک قطر سے کہیں باہر نہیں جا سکیں گے اور اُن کی سرگرمیوں پر ہمہ وقت نظر رکھی جائے گی۔
بیرگڈاہل کی رہائی اوباما کی جانب سے اُس منصوبے کے خدّ و خال واضح کیے جانے کے چند روز بعد سامنے آئی ہے، جس میں اُنہوں نے کہا تھا کہ اس سال کے آخر تک 9800 امریکی فوجیوں کے سوا تمام امریکی فوجیوں کو افغانستان سے نکال لیا جائے گا جبکہ باقی ماندہ امریکی فوجی 2016ء تک واپس بلا لیے جائیں گے اور یوں افغانستان میں ایک عشرے سے زیادہ عرصے کی امریکی فوجی موجودگی اختتام کو پہنچ جائے گی۔
اُدھر طالبان کے قائد ملا عمر نے قیدیوں کے اس تبادلے کو ایک ’بڑی فتح‘ قرار دیتے ہوئے ’پوری افغان قوم، تمام مجاہدین، اُن کے گھر والوں اور احباب کو دلی مبارکباد‘ دی ہے اور قطر کی کوششوں کے لیے وہاں کی قیادت کا شکریہ ادا کیا ہے۔