1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چڑیوں کی چہچہاہٹ کہاں گم ہو گئی ؟

19 فروری 2021

ثناء بتول کہتی ہیں کہ شہر میں کنکریٹ کی عمارت میں اضافے نے جیسے لوگوں کے دل بھی پتھر کر دیے ہیں، اب کوئی پرندوں کے لیے باجرہ پھینکتا یا گرمی میں پانی کا کٹورا رکھتا کہاں ملتا ہے۔

DW Urdu Blogerin Sana Batool
تصویر: Privat

ہمارے نانا کے گھر کے پیچھے کھلا میدان ہوا کرتا تھا جہاں بہت سے درخت اور جھاڑیاں تھیں۔ خود نانا کے چھوٹے سے آنگن میں امرود اور آم کے پیڑ تھے جس کے ساتھ بوگن ولا پورا سال گلابی، سفید اور پیلے پھولوں سے بھری رہتی تھی۔ کبھی نانا کے ہاں چھٹیوں میں رہنے جاتے تھے تو صبح چڑیوں کی چہچہاہٹ، اور کوئل کی کوک سے ہوا کرتی تھی۔ جیسے ہزاروں پرندے ایک ہی زبان ہوکر کوئی سر تال بنا رہے ہوں۔ نانا کہتے تھے یہ چڑیاں دراصل اللہ کی تسبیح پڑھتی ہیں اور انسانوں کے جاگنے سے پہلے اپنے اپنے گھونسلوں سے نکل کر تلاش رزق میں لگ جاتی ہیں۔ نانا کے آنگن میں ایک طرف خوبصورت  چمپا کا درخت بھی تھا۔ جس کے سفید اور پیلے خوشبودار پھولوں پہ اکثر چھوٹی چڑیاں اپنی چونچ سے رس پیتی تھیں۔

میٹھا پان اور خلوص کی چاشنی

جدید کراچی کی ’بانی‘ گوان کمیونٹی

وقت گزرتا گیا اور آہستہ آہستہ آس پاس بہت سی اونچی اونچی عمارتیں بنتی گئیں۔ میدان کو بھی ختم کر کے اس میں گھر تعمیر کردیے گئے۔ ہری بھری جھاڑیاں اور پیڑ ختم ہوگئے اور نانا کے آنگن میں سورج کی کرنیں جن سے وہ چمپا، بوگن ولا، اور امرود اور آم کے پیڑ پھلتے اور پھولتےتھے، آہستہ آہستہ ان کی ہریالی زردی مائل پڑنے لگی۔ علاقے میں اور بھی بہت سے درخت تھے لیکن شہر میں بڑی بڑی عمارتیں بننے سے یہ درخت اور بیلیں ختم ہوتی گئیں۔

درختوں، بیلوں اور جھاڑیاں ختم کیا ہوئیں چڑیوں کی موسیقی شہر سے رخصت ہوگئی۔ چڑیا، مینا، بلبل، ہدہد، ایک ایک کرکے اپنا بسیرہ لے کر شہر کو خیر باد کہ گئے اور ان کی جگہ کوے، چیلیں، جنگلی کبوتر اور گدھ نے لے لی۔

کراچی کے آبائی پرندے جن کی کم سے کم 420 قسمیں اس شہر میں بسا کرتی تھیں، اب ان میں سے 100یا اس سے بھی کم باقی رہ گئیں ہیں۔

کراچی پاکستان کا سب سے گنجان آباد شہر ہےتصویر: imago/Pak Images/I. Dean

ماہرین ماحولیات کہتے ہیں کہ اس کی بنیادی وجہ کراچی میں بڑھتی ہوئی اونچی عمارات ہیں۔ حال ہی میں جب میری بات کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر اور جغرافیہ ڈیپارٹمنٹ کے ڈین سے ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ پرندوں کی آبادی ختم ہونے کے ذمہ دار کراچی کے شہری ہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ  بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے اس بات کو لازمی قرار دیا ہے کہ اگر کوئی شہری 80 گز کا گھر بھی بنائے تو اس پر کاشت کاری، پودے لگانا یا گرین اسپیس ضرور چھوڑی جائے۔ لیکن شہری اس پر عمل نہیں کرتے اور زیادہ سے زیادہ جگہ پر گھر بنانے کے لیے گرین اسپیس بھی ختم کر دیتے ہیں۔

کراچی کے کچھ ایسے بھی علاقے ہیں جہاں ابھی تک اپارٹمنٹ بلڈنگز نہیں بنائی گئی ہیں۔ ان علاقوں میں پرانے برگد، نیم اور پیپل کے پیڑ ہیں جن کی شاخوں پر آج بھی ہزاروں پرندے چہچہاتے نظر آتے ہیں۔ ان علاقوں میں سب سے زیادہ صاف ماحول کراچی یونیورسٹی کا سمجھا جاتا ہے۔

یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوئے  کئی سال گزر چکے ہیں لیکن آج بھی ٹھنڈی سڑک پہ پرانے برگد کے پیڑوں کی ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے۔ جن پہ ہزاروں پرندوں کے گھونسلے ہیں جو ہر وقت چہچہاتے رہتے ہیں۔ اگر کراچی شہر سے تھوڑا باہر نکلیں تو شاید آپ کو طوطے، مینا اور طرح طرح کے ایسے پرندے نظر آئیں جو شاید آپ نے بچپن میں دیکھے ہوں۔

بہت سے افراد کا یہ بھی خیال ہے کہ چونکہ کراچی میں ماحولیاتی آلودگی بڑھ گی ہے لہذا ان پرندوں کی صحت اثر انداز ہوتی ہے اور اس لیے اب یہ تمام آبائی پرندے شہر کے باہری علاقوں میں درختوں پر ڈیرے جما چکے ہیں۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ چونکہ کوے، چیلیں اپنی غذا کوڑے کرکٹ سے بھی حاصل کر لیتے ہیں اس لیے کچرے کے ڈھیر بڑھنے کی وجہ سے ان  پرندوں کی تعداد کراچی شہر میں بڑھتی جا رہی ہے۔

پھر ہمیں چڑیاں دکھتی ہیں ٹریفک سگنلز پر پنجروں میں قید ہوئی۔ جن کو خرید کے آزاد کیا جاسکتا ہے۔ وقت کے ساتھ شاید ایک وجہ ان پرندوں سے انسانوں کا سلوک بھی ہے جس نے ان کو شہر سے جانے پر مجبور کیا ہے۔

بچپن میں اکثر کوئ زخمی چڑیا بالکونی میں آجایا کرتی تھی تو ہم سب بچے اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتے تھے جب تک اس کی مرہم پٹی نہ کرلیں اور جب تک وہ واپس صحت یاب ہو کر اڑ نہ جائے۔ اس کے سونے کے روئی کا بستر بناتے تھے اور چھوٹی سی پیالی میں باجرہ اور پانی بھی رکھا جاتا تھا۔

آہستہ آہستہ، مٹی اور گاروں کی بڑھتی ہوئی عمارتوں کے ساتھ شہر میں بسنے والوں کے دل بھی پتھر ہوگئے۔ اب شاید ہی مٹی کے کونڈے میں چڑیوں کے لیے کوئی پانی رکھتا ہو، یا پرندوں کیلیے روٹی کی چوری بناتا ہو۔

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں