1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چھاتی کے سرطان کی شکار خواتین کے لئے ایک خوش آئند خبر

8 جون 2010

سمندری اسفنج سے تیار کردہ ایک نئی دوا کے استعمال سے اس مہلک عارضے میں مبتلا خواتین کی عمروں کو کسی حد تک بڑھانے کے امکانات نظر آ ئے ہیں

چھاتی کا سرطان ہر سال دنیا بھر میں لاکھوں خواتین کی موت کا سبب بنتا ہے

خاص طور سے بریسٹ کینسر کی مریض ایسی خواتین جن کی بیماری آخری مراحل میں تھی، ان پر بھی اس نئی دوا کے نہایت مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس دوا کا تجربہ برطانوی طبی محققین نے کیا ہے اور Eribulin نامی اس دوائی کو پہلی مرتبہ ابھی حال ہی میں امریکی شہر شکاگو میں ہونے والی ایک میڈیکل کانفرنس میں پیش کیا گیا۔ عالمی سطح پر برطانوی سائنسدانوں نے ایری بُلن نامی اس دوا کے بے ترتیب تجربات کئے ہیں۔ چھاتی کے سرطان میں مبتلا 762 خواتین کا علاج کیمو تھراپی یا پھر Eribulin کے ذریعے کرنے کے بعد ان کے زندہ بچ جانے کی شرح کا اندازہ لگایا گیا۔

خواتین کے اندر چھاتی کے سرطان کے علاوہ بیضہ دان کا کینسر بھی بہت عام ہےتصویر: dpa/PA

اس سے پتہ چلا کہ اس نئی دوائی کے علاج سے ان 762 مریضوں میں سے 2.5 فیصد خواتین کی زندگی میں ڈھائی مہینے تک کا اضافہ ہو گیا تھا۔ برطانیہ کی لیڈز یونیورسٹی کے مولیکیولر میڈیسن کے شعبے سے تعلق رکھنے والے پروفیسر اور Oncology یا علم سلعیات کے ماہر Christopher Twelves ،جو اس نئی تحقیقی رپورٹ کے مصنف بھی ہیں، نے کہا ہے کہ اب تک چھاتی کے سرطان میں مبتلا ایسی خواتین کے لئے، جن کی بیماری بہت ایڈوانس اسٹیج یا مرحلے پر ہوتی ہے، کوئی ایک معیاری طریقہء علاج دریافت نہیں ہو سکا تھا۔

چھاتی کے کینسر کے امکانات سے پیشگی انتباہ کے لئے میموگرافی ٹیسٹ کروانا نہایت ضروری ہےتصویر: picture-alliance/ dpa

ایری بُلن نامی اس دوائی کے تجربے کے نتائج حوصلہ افزاء ہیں۔ سمندری اسفنج سے تیار کردہ یہ دوائی ایری بُلن ایسی خواتین کو دی گئی تھی، جو ایک عرصے سے بریسٹ کینسر کے علاج کے لئے کیمو تھراپی کر وا رہی تھیں۔ ماہرین نے ان پر ریسرچ کی تو پتہ چلا کہ ایری بُلن کا استعمال کرنے والی ان خواتین کی عمروں میں ان خواتین کے مقابلے میں ڈھائی ماہ تک کا اضافہ ہوا، جو چھاتی کے کینسر جیسے مہلک مرض کے علاج کے لئے کیمو تھراپی کروا رہی تھیں۔

رپورٹ: کشور مصطفےٰ

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں