شمالی عراقی شہر موصل میں داعش کے قبضے کے وقت چودہ برس کی فرح نے اپنے کمرے کو ایک نئی دنیا میں تبدیل کر دیا، تاکہ وہ شدت پسند تنظیم داعش کے ہاتھوں شہر کی بربادی اور ہول ناکی کے مناظر سے پرے جیے۔
اشتہار
جیسے ہی فرح 14 برس کی ہوئی، اس نے اپنے کمرے کی دیواروں کو تتلیوں کے نقوش سے عبارت کاغذ سے مزین کیا، حوصلہ بلند کرنے والے پیغامات ٹیپ سے چپکائے۔ یہ کمرہ نہایت خاص ہونا چاہیے تھا کیوں کہ یہ بچی یہاں اپنے شہر پر قابض داعش کی بربریت سے پرے رہنا چاہتی تھی۔
سن 2014ء میں اسلامک اسٹیٹ نے موصل پر قبضہ کر لیا تھا اور ایسے میں یہ کمرہ فرح کے لیے واحد جائے پناہ تھا۔ اس میں وہ قریب تین برس تک رہی۔ اسی کمرے سے فرح اپنے فیس بک پر خوف اور امید کی بابت لکھتی رہی۔ اس نے خودکلامی کے انداز میں کچھ مکالمے لکھے تھے
’’مسئلہ ہے کیا؟
’’مستقبل کھو گیا، سب کچھ ڈھ گیا۔‘‘
’’میں تمہارے احساسات کیسے سمجھوں؟‘‘
’’داعش کے علاقے میں رہ کر۔ جیسے خواب دیکھنے والا کوئی شخص داعش کے جہادیوں کے درمیان موجود ہو۔‘‘
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Souleiman
7 تصاویر1 | 7
فیس بک پر فرح کی یہ کہانی اور پوسٹس اسلامک اسٹیٹ کے قبضے کے دوران اس شہر کا روز کا احوال بیان کرتی ہیں۔ اس گروپ کے قبضے کے بعد یہ لڑکی ایک طرح سے دنیا سے کٹ گئی تھی۔ اس کے دوست شہر سے فرار ہو گئے۔ فرح کی دونوں بڑی بہنیں شادی شدہ تھیں اور اپنے نئے گھروں میں رہ رہی تھیں۔ فرح نے اسکول جانا، خود کو داعش کی شناخت سے متعارف کرواتی لڑکیوں کے خوف سے، چھوڑ دیا۔’’ ہر طرح خوف اور خطرہ تھا۔‘‘
داعش کے جہادی شہر کے گلی کوچوں میں کسی ’معمولی سے گناہ‘ کی بھی بو سونگھ لیتے تھے۔ فرح کے چچا کے گھر کے قریب جہادیوں نے ایک لڑکی کے برقع کے اندر لباس میں سرخ رنگ کا پتا چلا لیا تھا اور اس لڑکی کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا۔ داعش نے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں سرخ رنگ پر پابندی عائد کر رکھی تھی اور تمام خواتین کو سر سے پاؤں تک فقط سیاہ برقعے میں قید کر دیا گیا تھا۔
فرح کے گھر کے قریب ایک بارہ سالہ بچی شدید گرمی میں فقط تازہ ہوا میں سانس لینے کو گھر کی چھت پر چڑھی تھی، اسی وقت ایک دوسرے گھر کی چھت پر ایک لڑکا تھا۔ دونوں کو دیکھ لیا گیا، جہادیوں کو معلوم ہو گیا۔ ان دونوں کو داعش کے عسکریت پسندوں نے حراست میں لیا اور پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا۔
داعش میں بھرتیوں کے خلاف سرگرم جرمن ’میونسپل مائیں‘
02:14
فرح اور اس کے والدین اس پورے عرصے میں زیادہ تر وقت گھر کے اندر ہی قید رہے۔ اپنی فیس بک وال پر فرح نے ایک بار لکھا تھا، ’’کیا میراحق نہیں کہ میں کم از کم آزادی سے خواب دیکھ سکوں، اپنی زندگی کے بہترین برس آزادی سے جی سکوں۔ میں جاننا چاہوں گی کہ میں کب جیوں گی؟‘‘
فرح رات کو انٹرنیٹ کے ذریعے آن لائن آیا کرتی تھی۔ اس کے چھ ہزار فالورز تھے، جو اس کے حوصلے بلند کیا کرتے تھے اور امید دیا کرتے تھے۔
مگر رواں برس جولائی میں جب فرح اپنی سال گرہ منا رہی تھی، داعش نے انٹرنیٹ سروس ہی مکمل طور پر بند کر دی اور فرح کا رابطہ اس وقت تک دنیا سے کٹا رہا، جب تک عراقی فورسز نے اس شہر پر دوبارہ قبضہ نہیں کر لیا۔