قطر نے افغانستان کے ذریعے خود کو ثالث کے طور پر منوا لیا
27 نومبر 2021
جب بھی افغانستان اور طالبان کی بات آتی ہے تو قطر کا نام ایک ناگزیر ثالث کی حیثیت سے لیا جاتا ہے۔ قطر نے اپنی اس حیثیت کو اس حد تک منوا لیا کہ اب جرمن صدر اشائن مائر نے آئندہ ہفتے دوحہ کے اپنے پہلے دورے کا ارادہ کر لیا۔
اشتہار
قطر ناقابل یقین حد تک امیر ریاست ہے۔ یہ خلیجی ملک قدرتی گیس کے ذخائر کے ایک بڑے خزانے پر براجمان ہے۔ اگر اس ریاست کے ارد گرد گوناگوں بحران اور تنازعات نہ ہوتے اور اسے سعودی عرب جیسے خطرناک رقیب پڑوسی کا سامنا نہ ہوتا تو اس ملک میں قریب تین لاکھ شہری بے فکری سے زندگی بسر کر سکتے تھے۔
ابھی زیادہ پرانی بات نہیں کہ اس خلیجی اماراتی ریاست کو مسلم انتہا پسندوں کی حمایت کرنے اور دہشت گردوں کی مالی معاونت جیسی بدنامی کا سامنا تھا۔ اس بیچ اس خلیجی ریاست نے اپنا ایک بالکل مختلف رُخ اور نقطہ نظر پیش کرنے کی کوشش کی۔ قطر افغانستان اور طالبان کے لیے ایک اچھا ثالث بننا چاہتا تھا جو مغرب کے لیے ناگزیر اور عرب دنیا کے لیے ناقابل نظر انداز ہو۔
تبدیل شدہ تصویر
قطر اپنی تبدیل شدہ شکل پیش کرنے میں کامیاب نظر آ رہا ہے۔ خاص طور سے افغانستان کے لیے ۔ صحرائی اماراتی ریاست ہندو کُش میں اپنے سیاسی اور اقتصادی مفادات سے گرچہ انکار کرتا ہے لیکن اس کی افغانستان کے معاملات میں دلچسپی بنیادی طور پر خطے کی سلامتی ، خوشحالی اور ترقی میں مضمر ہے۔ یہ کہنا ہے جرمنی متعینہ قطری سفیر عبداللہ محمد الثانی کا۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کو ایک تحریری بیان پیش کیا۔ جس میں انہوں نے لکھا،'' یہ دنیا بھر میں سلامتی اور امن و استحکام کی خدمت کے مترادف ہے۔‘‘
ہندو کُش کا دربان
دنیا کے نقشے پر بمشکل نظر آنے والا اماراتی ملک قطر تاہم عالمی سیاسی نقشے پر بہت نمایاں نظر آنے کے لیے تمام تر کوششیں کر رہا ہے۔ اس وقت قطر افغان طالبان کے دروازے تک کی رسائی کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ کابل میں بنیاد پرست طالبان حکام تک پہنچنے کے لیے امریکا اور اس کے اتحادیوں کو چھوٹی سی ریاست قطر سے ہی گزرنا ہو گا۔
قطر میں ایسا خاص کیا ہے؟
آبادی اور رقبے کے لحاظ سے ایک چھوٹی سی خلیجی ریاست قطر کے چند خاص پہلو ان تصاویر میں دیکھیے۔
تصویر: Reuters
تیل اور گیس
قطر دنیا میں سب سے زیادہ ’مائع قدرتی گیس‘ پیدا کرنے والا ملک ہے اور دنیا میں قدرتی گیس کے تیسرے بڑے ذخائر کا مالک ہے۔ یہ خلیجی ریاست تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔
تصویر: imago/Photoshot/Construction Photography
بڑی بین الاقوامی کمپنیوں میں حصہ داری
یہ ملک جرمن کار ساز ادارے فوکس ویگن کمپنی کے 17 فیصد اور نیو یارک کی امپائراسٹیٹ بلڈنگ کے دس فیصد حصص کا مالک ہے۔ قطر نے گزشتہ چند برسوں میں برطانیہ میں 40 ارب پاؤنڈز کی سرمایہ کاری کی ہے جس میں برطانیہ کے نامور اسٹورز ’ہیروڈز‘ اور ’سینز بری‘کی خریداری بھی شامل ہے
تصویر: Getty Images
ثالث کا کردار
قطر نے سوڈان حکومت اور دارفور قبائل کے درمیان کئی دہائیوں سے جاری کشیدگی ختم کرانے میں ثالث کا کردار ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ فلسطینی دھڑوں الفتح اور حماس کے درمیان مفاہمت اور افغان طالبان سے امن مذاکرات کے قیام میں بھی قطر کا کردار اہم رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/M. Runnacles
الجزیرہ نیٹ ورک
دوحہ حکومت نے سن انیس سو چھیانوے میں ’الجزیرہ‘ کے نام سے ایک ٹیلی ویژن نیٹ ورک بنایا جس نے عرب دنیا میں خبروں کی کوریج اور نشریات کے انداز کو بدل کر رکھ دیا۔ آج الجزیرہ نیٹ ورک نہ صرف عرب خطے میں بلکہ دنیا بھر میں اپنی ساکھ بنا چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Ulmer
قطر ایئر لائن
قطر کی سرکاری ایئر لائن ’قطر ایئر ویز‘ دنیا کی بہترین ایئر لائنز میں شمار ہوتی ہے۔ اس کے پاس 192 طیارے ہیں اور یہ دنیا کے ایک سو اکیاون شہروں میں فعال ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Probst
فٹ بال ورلڈ کپ
سن 2022 میں فٹ بال ورلڈ کپ کے مقابلے قطر میں منعقد کیے جائیں گے۔ یہ عرب دنیا کا پہلا ملک ہے جو فٹ بال کے عالمی کپ کی میزبانی کر رہا ہے۔ یہ خلیجی ریاست فٹ بال کپ کے موقع پر بنیادی ڈھانے کی تعمیر پر 177.9 ارب یورو کی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔
تصویر: Getty Images
قطر کی آبادی
قطر کی کُل آبادی چوبیس لاکھ ہے جس میں سے نوے فیصد آبادی غیرملکیوں پر مشتمل ہے۔ تیل جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال خلیجی ریاست قطر میں سالانہ فی کس آمدنی لگ بھگ ایک لاکھ تئیس ہزار یورو ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Wire/S. Babbar
برطانیہ کے زیر انتظام
اس ملک کے انتظامی امور سن 1971 تک برطانیہ کے ماتحت رہے۔ برطانیہ کے زیر انتظام رہنے کی کُل مدت 55 برس تھی۔ تاہم سن 1971 میں قطر نے متحدہ عرب امارات کا حصہ بننے سے انکار کر دیا اور ایک خود مختار ملک کے طور پر ابھرا۔
تصویر: Reuters
بادشاہی نظام
قطر میں انیسویں صدی سے بادشاہی نطام رائج ہے اور تب سے ہی یہاں الثانی خاندان بر سراقتدار ہے۔ قطر کے حالیہ امیر، شیخ تمیم بن حماد الثانی نے سن 2013 میں ملک کی قیادت اُس وقت سنبھالی تھی جب اُن کے والد شیخ حماد بن خلیفہ الثانی اپنے عہدے سے دستبردار ہو گئے تھے۔
تصویر: Reuters
9 تصاویر1 | 9
قطر نے طالبان کے ساتھ اپنے قریبی تعلقات کا سنگ بنیاد 2013 ء میں ہی رکھ دیا تھا۔ چکا چوند سے بھرپور شہر دوحہ میں دنیا بھر میں کالعدم قرار دیے گئے طالبان نے اپنی نمائندگی کے لیے دفتر قائم کر لیا، امریکا کی استدعا پر۔
ساتھ ہی ساتھ خلیج کے خطے میں امریکا کا سب سے بڑا فوجی اڈہ فعال رہا۔ برلن میں قائم تھنک ٹینک SWP سے منسلک ایک ماہر مارکس کائم کے بقول، ''بین الاقوامی سطح پر خود کو ناگزیر بنانے کی حکمت عملی افغانستان کے سلسلے میں بہت کام آئی۔‘‘
امریکا نے اس کے آس پاس ہی، زیادہ پہلے کی بات نہیں، کابل میں قطر کی طرف سے اپنی سفارتی نمائندگی کا اعلان کیا تھا۔ کیم کہتے ہیں، '' قطر نے خالصتاً اپنے مفادات کے پیش نظر یہ پوزیشن سنبھالی اور خود کو ایک ایماندار غیر جانبدار ثالث کے طور پر پیش کیا۔ اس سے اس خلیجی ریاست کو خود کو دنیا کے سامنے ایک نمایاں مقام اور حیثیت کی حامل ریاست کے طور پرپیش کرنے کا موقع مل گیا۔‘‘
اشتہار
بین الاقوامی پذیرائی
آئندہ ہفتے وفاقی جرمن صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر قطر کا دورہ کریں گے۔ یہ بھی قطر کی حکمت عملی کے ساتھ بہت ہی موافق بیٹھتا ہے۔ جرمن سربراہ مملکت باضابطہ طور پر قطر کے قیمتی دوستانہ رویے اور کردار کا شکریہ ادا کریں گے۔
رواں برس اگست کے وسط میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد 40 ہزار باشندوں کا افغانستان سے انخلا قطر کے رستے ہی ممکن ہوا تھا۔ ان میں سے بہت سے جرمنی پہنچے تھے۔
قطر نے ابھی تک کابل میں نئی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ لیکن خلیجی امارات اپنے بین الاقوامی شراکت داروں پر زور دے رہا ہے کہ وہ طالبان سے بات چیت جاری رکھیں۔
سفیر عبداللہ محمد الثانی نے کہا، '' بات چیت کے مثبت نتائج سامنے آ سکتے ہیں، جب کہ بائیکاٹ صرف مزید پولرائزیشن اور دفاعی ردعمل کا باعث بنے گا۔‘‘
برلن میں قطر کے سفیر نے مزید کہا کہ افغانستان میں ڈرامائی انسانی بحران کے پیش نظر قطر نے بارہا عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ افغان عوام کے لیے بنیادی سامان کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ایک انسانی امدادی پیکج تیار کیا جائے۔ ‘‘
ایک امر یقینی ہے : اس وقت قطر میں سفارتی حکمت عملی سازوں کے لیے حالات بہت سازگار جا رہے ہیں۔ افغانستان کے معاملے نے اس چھوٹی صحرائی ریاست کے بین الاقوامی وقار میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔
ماتھیاس فون ہائن/ ک م/ ع ب
قطر اور گلف تعاون کونسل، سالوں پر پھیلے اختلافات
حالیہ قطری بحران، خلیجی ریاستوں اور دوحہ حکومت کے درمیان پیدا ہونے والے تناؤ کی پہلی مثال نہیں۔ ڈی ڈبلیو نے تصاویر کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں علاقائی کشیدگی کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی ہے۔
تصویر: Picture alliance/AP Photo/K. Jebreili
کشیدہ تعلقات اور کرچی کرچی اعتماد
رواں برس پانچ جون کو سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے قطر پر دہشت گردی کی حمایت اور اپنے حریف ایران سے تعلقات کے فروغ کا الزام عائد کرتے ہوئے دوحہ سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ دوحہ حکومت نے ان تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نے نہ صرف قطر پر پابندیاں عائد کیں بلکہ تعلقات کی بحالی کے لیے تیرہ مطالبات بھی پیش کیے۔ کویت فریقین کے درمیان ثالثی کی کوشش کر رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/STRINGER
خلیج تعاون کونسل بھی علاقائی عدم استحکام سے متاثر
پانچ مارچ سن 2014 میں بھی سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے اسلام پسند تنظیم اخوان المسلمون کے ساتھ تعاون پر قطر سے تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ اخوان المسلمون کو بعض ممالک کے نزدیک دہشت گرد تنظیم خیال کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Elfiqi
عرب اسپرنگ اور خلیجی تعاون کونسل
سن 2011 میں تیونس سے شروع ہونے والی انقلابی تحریک کے بعد ایسی تحریکیں کئی عرب ممالک میں پھیل گئی تھیں تاہم’عرب بہار‘ نے جی سی سی رکن ریاستوں میں بغاوتوں کی قیادت نہیں کی تھی۔ سوائے بحرین کے جس نے سعودی فوجی مدد سے ملک میں ہونے والے شیعہ مظاہروں کو کچل ڈالا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Al-Shaikh
سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام
قطر پر سن 2013 میں ہونے والے خلیجی تعاون کونسل کے سکیورٹی ایگریمنٹ کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے آٹھ ماہ کے شدید تناؤ کے بعد قطر میں اپنے سفارتخانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/J. Ernst
پائپ لائن تنازعہ
سعودی عرب اور قطر کے درمیان تعلقات اُس وقت کم ترین سطح پر پہنچ گئے جب ریاض حکومت نے قطر کے کویت کے لیے ایک گیس پائپ لائن منصوبے کو نا منظور کر دیا۔ اسی سال سعودی حکومت نے قطری گیس اومان اور متحدہ عرب امارات لے جانے والے پہلے سے ایک طے شدہ پائپ لائن منصوبے پر بھی احتجاج کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
سرحدی جھڑپ
سن 1992 میں سعودی عرب اور قطر کے مابین ایک سرحدی جھڑپ میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ قطر نے دعوی کیا کہ ریاض نے خفوس کے مقام پر ایک سرحدی چوکی کو نشانہ بنایا۔ دوسر طرف سعودی عرب کا کہنا تھا کہ قطر نے اُس کے سرحدی علاقے پر حملہ کیا ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
سرحدوں کے تنازعات
سن 1965 میں سعودی عرب اور قطر کے درمیان ان کی سرحدی حد بندی کے حوالے سے ایک معاہدہ طے پایا تھا تاہم یہ معاملہ کئی برس بعد بھی مکمل طور پر طے نہیں ہو سکا تھا۔ سن 1996 میں دونوں ممالک نے اس حوالے سے ایک معاہدے پر دستخط کیے تاہم اس کے مکمل نفاذ میں مزید ایک عشرے سے زیادہ کا عرصہ لگا۔
علاقائی تنازعات
سن 1991 میں دوحہ ہوار جزائر سے متعلق بحرین کے ساتھ ایک تنازعے کو اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے گیا۔ سن 1986 میں بھی دونوں ممالک کے درمیان سعودی عرب کی مداخلت کے باعث عسکری تصادم ہوتے ہوتے رہ گیا۔ بعد میں انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے بحرین کے حق میں فیصلہ دیا تھا جبکہ قطر کو جینن جزائر کی ملکیت دی گئی تھی۔