1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چھوٹی ڈبل روٹی کا سانچہ

18 مارچ 2023

توشہ خانہ سے فیض یاب ہونے والوں میں وزرائے اعظم اور صدور سبھی شامل ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ ان صاحب ثروت افراد کو ضرورت کیا ہے؟

تصویر: privat

حضرت عمر ابنِ خطاب کا دورِ خلافت ہے۔ وہ مدینے میں اپنے گھر کے باہر ایک مجمع سے خطاب کر رہے ہیں، ''اے لوگو میری بات دھیان سے سنو اور اطاعت کرو‘‘۔ مجمع میں سے ایک آواز آئی کہ ہم نہ تمہاری بات سنیں گے نہ اطاعت کریں گے۔ یہ آواز حضرت سلمان فارسی کی تھی۔

ایک سناٹا چھا گیا۔ خلیفہ عمر نے پوچھا، ''اے سلمان مجھ سے ایسی کیا خطا ہو گئی؟‘‘ سلمان فارسی نے کہا یمن سے چادروں کا جو تحفہ آیا وہ سب میں برابر تقسیم ہوا۔ تمہارے تن پر دو چادریں کیسی؟ خلیفہ عمر نےسبب بتایا  کہ میں نے اپنے کپڑے دھو کے ڈالے ہوئے تھے اور ایک چادر تن کے لیے ناکافی تھی۔ لہذا میں نے یہاں آنے کے لیے اپنے بیٹے کے حصے میں آنے والی چادر اس سے مانگ لی ۔

خلیفہ عمر کو اس کا بھی پورا ادراک تھا کہ وہ جس منصب پر ہیں، اس کے سبب لوگ ان کے اہلِ خانہ کے طرزِ زندگی پر بھی کوئی بھی سوال اٹھا سکتے ہیں۔ چنانچہ وہ رعیت کو جب کسی فعل سے منع کرتے تو پھر گھر والوں کو جمع کر کے تاکید کرتے کہ لوگوں کی تمہارے افعال پر ایسے نگاہ ہے جیسے پرندہ گوشت کو دیکھتا ہے۔ لہذا تم میں سے کسی نے کوئی ایسی حرکت کی جس سے میں نے عام آدمی کو روکا ہے تو پھر تمہیں مجھ سے تعلق کی بنا پر دوگنی سزا ملے گی۔

مجھے یہ قصہ یوں بیان کرنا پڑا ہے کہ اس ملک کا آئینی نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور یہاں کا ہر حکمران خلفائے راشدین کا دور واپس لانے کا خواب  دکھاتا ہے اور اس دور کے قصے سن کے ہر جنرل، جج ، بیوروکریٹ اور نیتا کی آنکھیں ڈبڈبا جاتی ہیں۔

مجھے یہ قصہ یوں بھی یاد آیا کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان  اور ان کی اہلیہ پر سرکاری توشہ خانے سے تحائف اونے پونے خرید کے بازار میں بیچنے کے الزام میں فردِ جرم عائد کرنے کے لیے ان کے ناقابلِ ضمانت گرفتاری وارنٹ جاری کرنا پڑے۔ ان وارنٹس کی تعمیل  کی کوشش کے دوران جو سرپھٹول ہوئی وہ آپ کے سامنے ہے۔

اس سے پہلے لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر حکومت نے گذشتہ بیس برس کے دوران توشہ خانے میں آنے جانے والی اشیا کی فہرست عام کر دی۔

فہرست کو دیکھ کے اندازہ ہوا کہ گزشتہ دو دہائیوں میں ہر حکمران اور ان کے اہلِ خانہ نے دل کھول کے ”توشہ نوشی‘‘ کی۔ صدور اور وزرائے اعظم تو رہے ایک طرف ۔ان کے اہلِ خانہ اور ان سے نتھی افسروں  نے بھی دو سو ساٹھ ملین روپے کے تحائف صرف ستاون ملین روپے کے عوض خرید لیے۔ یعنی اصل قیمت کا محض پندرہ سے بیس فیصد دے کر گھڑیاں، زیورات، نوادرات وغیرہ اڑس لیے گئے۔

پرویز مشرف سے عارف علوی تک اور شوکت عزیز سے شاہد خاقان عباسی تک کسی صدر یا وزیرِ اعظم یا ان کے کنبے نے نہیں سوچا کہ ہم اچھے بھلے کھاتے پیتے لوگ ہیں۔ توشہ خانے سے استفادے کی کیا ضرورت ہے۔

اس عرصے میں چار سابق حکمران توشہ خانے سے کروڑوں روپے مالیت کی اشیا اونے پونے خریدنے کے سلسلے میں بدعنوانی کے الزامات میں ماخوذ ہو چکے ہیں ۔ان میں آصف زرداری، یوسف رضا گیلانی، نواز شریف اور عمران خان شامل ہیں۔

کسی حکمران یا افسر کے ذہن میں ایک لمحے کو یہ خیال نہیں آیا کہ توشہ خانہ سے مفت کے داموں اشیا خرید کے انہیں مارکیٹ ریٹ پر فروخت کر کے اپنی جیب میں ڈالنے کے بجائے کسی فلاحی تنظیم یا ادارے کو یہ پیسے دان کر دے۔

پاکستان میں کم ازکم تنخواہ پچیس ہزار روپے ماہانہ ہے۔ اس ملک میں ستر فیصد کارکنوں  کی اوسط ماہانہ آمدنی پینتیس ہزار روپے ہے۔ دو بچوں اور میاں بیوی پر مشتمل چار رکنی خاندان کا گھر اگر ذاتی نہیں ہے تو کھانے پینے، کپڑے لتے، بیماری، خوشی غمی اور تعلیمی فیس کے لیے ہی اس وقت کم از کم پچاس ہزار روپے ماہانہ درکار ہیں اور اتنے پیسوں میں بھی دو وقت کی روٹی، بجلی، پانی، گیس اور ٹرانسپورٹ کے اخراجات ہی پورے ہو جائیں تو بڑی بات ہے ۔لاکھوں پنشنرز اس وقت آٹھ ہزار سے پندرہ ہزار روپے ماہانہ پر گذارہ کر رہے ہیں اور ہزاروں تو پنشن کا منہ دیکھے بغیر ہی چل بسے۔

لیکن اسی پاکستان میں ایسے مقتتدر لوگ بھی ہیں جن کی ماہانہ پنشن دس لاکھ روپے یا زائد بتائی جاتی ہے۔ انہیں سرکار کی جانب سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی گھر کا کرایہ، گاڑی، پٹرول، یوٹیلٹی بلز کی مد میں ایک مخصوص رقم اور سیکورٹی گارڈز فراہم ہوتے ہیں۔

اگر یہ جلیل القدر ہستیاں ان میں سے ایک بھی رعائیت نہ لیں تب بھی وہ اپنے طور پر یہ سب افورڈ کر سکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے یہ سوچ درکار ہے کہ یہ سب الللے تلللے ملک کی ننانوے فیصد آبادی پر بلاواسطہ ٹیکسوں، اٹھارہ فیصد جی ایس ٹی اور بیرونی قرضوں سے پورے ہوتے ہیں۔

حال ہی میں شہباز شریف حکومت نے وزراء اور سرکاری اہلکاروں کی مراعات میں کٹوتی کی تفصیلات کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ان اقدامات سے دو سو ارب روپے سالانہ کی بچت ہو گی۔ آج ایک ماہ گذرنے کے بعد بھی حکومت اپنے وزراء

 اور بابووں سے محض نصف اضافی گاڑیاں ہی واپس لے سکی ہے ۔

یہ  حضرات سب کے سب اس ملک میں مساوات اور ہر شہری کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور ریاستِ مدینہ کا نظام لانے کے خواب فروش ہیں۔

گذشتہ ہفتے قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے توشہ خانہ کا آڈٹ کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ جو جو اہلِ اقتدار، جج، جنرل اور بااثر افراد توشہ خانہ سے فیضیاب ہوئے ان سب کی فہرست مرتب کر کے ان سے ان تحائف کی پوری قیمت وصول کی جائے۔

میں یہ حکم پڑھنے کے بعد سے سوچ رہا ہوں کہ ایک وزیرِ اعظم تھے محمد خان جونیجو جنہوں نے جنرلوں کو سوزوکیوں میں بٹھانے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ ایک وزیرِ اعظم تھے نواز شریف جنہوں نے جنرل مشرف پر آرٹیکل چھ لاگو کر کے دیکھ لیا۔ اور ایک وزیرِ اعظم تھے عمران خان جنہوں نے ریاستِ مدینہ قائم کرتے کرتے توشہ خانہ کی گھڑیاں بازار میں بیچ دیں۔ اور ایک وزیرِ اعظم ہیں شہباز شریف جنہوں نے سادگی اپنانے کا نعرہ لگا کے توشہ خانہ کی جو فہرست جاری کی، اس میں کوئی جج اور جرنیل شامل نہیں۔

اور ایک تھے ہمارے محمد علی جناح۔ جنہوں نے گورنر جنرل ہاؤس کے عقب میں واقع کیفے گرینڈ والوں کو آرڈر دیا کہ وہ بڑی ڈبل روٹی نہ بھیجا کریں۔ کیونکہ ناشتہ کرنے والا صرف میں یا میری بہن فاطمہ ہے۔ چھوٹی ڈبل روٹی بھیجا کریں تاکہ ریاست کا پیسہ ضائع نہ ہو۔چھوٹی ڈبل روٹی کا سانچہ آج بھی کیفے گرینڈ والوں نے سنبھال کے رکھا  ہے۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں