چھ فلسطینی خواتین کار ریسنگ کی دنیا میں
22 اگست 2012مشرق وسطیٰ کی ان چھ خواتین کو اسپیڈ سسٹرز کے نام سے پکار جا رہا ہے۔ ان کی لیڈر میسُون جائیوسی ہیں۔ بظاہر جائیوسی خواتین کے جدید فیشن کی دلداہ دکھائی دیتی ہیں لیکن مغربی کنارے کے شہر راملہ میں جب اس نے اپنی تیز رفتاری کا مظاہرہ کیا تو سڑکوں کے کنارے کھڑے لوگ ششدر رہ گئے۔ اسپیڈ سسٹرز گروپ کی لیڈر میسون جائیوسی (Maysoon Jayyusi) چھتیس برس کی ہیں جبکہ اس گروپ کی سب سے کم عمر ڈرائیور بائیس سال کی ہیں۔
ان خواتین کو اسرائیلی قبضے کی وجہ سے ایک دھندلے مستقبل کا سامنا ہے۔ ان کے والدین بھی متشکک ہو چکے ہیں۔ یہ بین الاقوامی سطح پر بعض دستاویزی فلموں کا موضوع بھی بن چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کار ریسنگ میں دلچسپی کے بعد انہیں آزادی کے نئے مطلب سے آگاہی حاصل ہوئی ہے۔
چھبیس سالہ مونا ایناب (Mona Ennab) کا کہنا ہے کہ وہ کار ریسنگ کے دوران خود کو آزاد محسوس کرتی ہیں۔ ایناب کا مزید کہنا ہے کہ ایک طرح سے یہ چاروں طرف پھیلے مجموعی ماحول سے نظریں چرانا بھی ہے۔ مونا ایناب نے اسپیڈ ڈرائیونگ اپنے خاندان کی اجازت کے بغیر شروع کی تھی۔ابتداء میں انہوں نے اپنا شوق اپنی بہن کی موٹر گاڑی کو چپکے سے نکال پورا کیا اور اُس وقت ان کے پاس لائسنس بھی نہیں تھا۔ ان خواتین کی ایک اور ساتھی بیٹی سعدہ (Betty Saadeh) کوکسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ سعدہ کی خواہش ہے کہ وہ کسی روز فارمولا ون کار ریسنگ میں شریک ہو سکے۔
میسون جائیوسی کا کار ریسنگ میں شوق مجموعی سیاسی صورت حال کے گھُٹے ہوئے ماحول کی وجہ سے پیدا ہوا۔ اس مناسبت سے جائیوسی کا کہنا ہے کہ اسرائیلی چیک پوائنٹس پر لمبی قطاروں میں کھڑے رہنے سے شدید یاسیت اور ڈیپریشن کی کیفیت پیدا ہونے کے باعث وہ خود کو بہت ہی کمزور محسوس کرتی تھی اور اب کار ریسنگ کے دوران گاڑی کی رفتار میں اضافہ کرتے ہوئے خود کو توانا اور طاقتور محسوس کرتی ہوں۔
میسون جائیوسی نے والدین سے بچ بچا کر اسپیڈ رینگ کے اسباق حاصل کرنے شروع کیے۔ وہ فلسطینی علاقے میں قائم اہم ترین درسگاہ بیر زیت یونیورسٹی (Bir Zeit University) سے بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری رکھتے ہیں۔ وہ دوران نوکری اپنی تنخواہ کو اسپیڈ ریسنگ کی ٹریننگ کے لیے بچاتی رہیں۔ جائیوسی کے مطابق ابتداء میں ٹریفک کے ادارے کا خیال تھا کہ یہ ممکن نہیں۔ لیکن سن 2010 میں فلسطینی موٹر اسپورٹ اور موٹر سائیکلنگ فیڈریشن کے سربراہ خالد قدورہ (Khaled Qaddoura) نے ان کی درخواست پر مثبت فیصلہ سنا دیا۔ خالد قدورہ نے میسون جائیوسی کو ابتدائی تربیتی کیمپ میں شرکت کی دعوت دی۔ یہ تربیتی کیمپ برٹش کونسل کی جانب سے اسپانسر کیا گیا تھا۔ اس تربیتی کیمپ میں کئی اور خواتین کو بھی مدعو کیا گیا۔
ah/ai(AFP)