چھ فلسطینی قیدی سرنگ بنا کر اسرائیلی جیل سے فرار ہو گئے
6 ستمبر 2021
چھ فلسطینی قیدی ایک سرنگ بنا کر ایک ہائی سکیورٹی اسرائیلی جیل سے فرار ہو گئے۔ ان میں ایک اہم عسکریت پسند رہنما ذکریا زبیدی بھی شامل ہے۔ اسرائیلی فورسز نے ان مفرور فلسطینی قیدیوں کی وسیع پیمانے پر تلاش شروع کر دی ہے۔
اشتہار
یروشلم سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق فلسطینی قیدیوں کا یہ گروپ شمالی اسرائیل کی گِلبوآ جیل سے آج پیر چھ ستمبر کو طلوع آفتاب سے بھی پہلے فرار ہوا۔ جیل خانہ جات کے اسرائیلی محکمے کے مطابق ان قیدیوں کے فرار کے بعد حکام کو اس وقت پوری طرح الرٹ کر دیا گیا، جب صبح تین بجے کے قریب گِلبوآ جیل کے باہر مقامی باشندوں نے اچانک چند 'مشکوک افراد‘ کی نشاندہی کی۔
اسرائیلی محکمہ جیل نے ایک بیان میں ان فلسطینیوں کے فرار کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ مفرور قیدیوں میں ذکریا زبیدی نامی ایک ایسا سابقہ فلسطینی عسکریت پسند رہنما بھی شامل ہے، جس کا تعلق مقبوضہ مغربی اردن کے علاقے میں بار بار بدامنی کا شکار ہونے والے شہر جنین سے ہے۔
پولیس، فوج اور خفیہ سروس مفرور قیدیوں کی تلاش میں
جیلوں کے محکمے کے جاری کردہ بیان کے مطابق پولیس، ملکی فوج اور داخلی سلامتی کی ذمے دار اسرائیلی خفیہ سروس شِن بیت کے جاسوس ان مفرور فلسطینی قیدیوں کی تلاش میں ہیں۔ اس مقصد کے لیے گِلبوآ اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں فوری طور پر عارضی چیک پوسٹیں بھی قائم کر دی گئی ہیں اور ان قیدیوں کی تلاش کے لیے سکیورٹی فورسز کے جاسوس کتے بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔
اسرائیلی میڈیا نے اپنی رپورٹوں میں بتایا ہے کہ ممکن ہے کہ یہ مفرور قیدی اب تک واپس مغربی کنارے کے اس فلسطینی علاقے میں پہنچ چکے ہوں، جو 1967ء سے اسرائیل کے قبضے میں ہے۔ ملکی فوج نے کہا ہے کہ مغربی اردن کے علاقے میں ان چھ فلسطینیوں کی تلاش کے لیے اس کے دستے تعینات ہیں اور کسی بھی کارروائی کے لیے تیار ہیں۔
اشتہار
سرنگ کی فوٹیج
اسرائیلی حکام نے اس واقعے کے بعد ایک ایسی ویڈیو فوٹیج بھی جاری کر دی، جس میں جیل حکام اور دیگر سکیورٹی اہلکاروں کو ایک بہت تنگ سی سرنگ کا معائنہ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
فرار ہونے والے قیدیوں نے یہ سرنگ منہ دھونے کے لیے استعمال ہونے والے ایک واش بیسن کے نیچے بنائی، جہاں سے وہ زمین کے نیچے بہت دور تک جاتی ہے۔
یہ فلسطینی گِلبوآ کی جیل سے ایک ایسے وقت پر فرار ہوئے جب یہودیوں کے نئے سال کے آغاز کے موقع پر اہم قومی تعطیلات شروع ہونے میں چند ہی گھنٹے باقی رہ گئے تھے۔
اسرائیل فلسطین تنازعہ، دو سو سے زائد فلسطینی ہلاک
اسرائیل اور فلسطین حالیہ تاریخ کے بدترین تنازعہ میں گھرے ہوئے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ پٹی پر فضائی بمباری اور حماس کے جنگجوؤں کی جانب سے اسرائیل میں راکٹ داغنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک نظر اس تنازعہ پر
تصویر: Fatima Shbair/Getty Images
اسرائیل پر راکٹ داغے گئے
دس مئی کو حماس کی جانب سے مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر اسرائیل پر راکٹ داغے گئے۔ اسرائیل کی جانب سے جوابی کارروائی میں غزہ پر بھاری بمباری کی گئی۔ تشدد کا یہ سلسلہ مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں اور اسرائیلی سکیورٹی فروسزکے درمیان تصادم کے بعد شروع ہوا۔
تصویر: Fatima Shbair/Getty Images
تل ابیب میں راکٹ داغے گئے
گیارہ مئی کو اسرائیل کی جانب سے غزہ کے مرکز میں بمباری کی گئی جوابی کارروائی کرتے ہوئے حماس کی جانب سے تل ابیب میں راکٹ داغے گئے۔
تصویر: Cohen-Magen/AFP
فرقہ وارانہ تشدد
اگلے روز اسرائیل میں فلسطینی اور یہودی آبادیوں میں تناؤ اور کشیدگی کی رپورٹیں آنا شروع ہوئی۔ اور فرقہ وارانہ تشدد کے باعث ایک اسرائیلی شہری ہلاک ہوگیا۔ پولیس کی جانب سے تل ابیب کے ایک قریبی علاقے میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ پولیس نے چار سو سے زائد عرب اور یہودی افراد کو حراست میں لے لیا۔
تصویر: Cohen-Magen/AFP
ہنگامی اجلاس
بارہ مئی کو روس کی جانب سے یورپی یونین، امریکا اور اقوم متحدہ کے اراکین کے ساتھ اس بگڑتی صورتحال پر ایک ہنگامی اجلاس بلایا گیا۔
تصویر: Ahmad gharabli/AFP
جنگی گاڑیاں اور فوجی تعینات
تیرہ مئی کو اسرائیل کی جانب سے غزہ کی سرحد کے پاس جنگی گاڑیاں اور فوجی تعینات کر دیے گئے۔ اگلے روز اسرائیل کے زیر انتظام مغربی کنارے میں فلسطینیوں اور اسرائیلی پولیس کے درمیان جھڑپوں میں گیارہ افراد ہلاک ہو گئے۔
تصویر: Mussa Qawasma/REUTERS
مہاجرین کے کیمپ پر اسرائیلی بمباری
پندرہ مئی کو غزہ میں قائم مہاجرین کے کیمپ پر اسرائیلی بمباری سے ایک ہی خاندان کے دس افراد ہلاک ہو گئے۔ کچھ ہی گھنٹوں پر اسرائیلی نے بمباری کرتے ہوہے ایک ایسی عمارت کو مسمار کر دیا گیا جس میں صحافتی ادارے الجزیرہ اور اے پی کے دفاتر تھے۔ اس عمارت میں کئی خاندان بھی رہائش پذیر تھے۔ بمباری سے ایک گھنٹہ قبل اسرائیل نے عمارت میں موجود افراد کو خبردار کر دیا تھا۔
تصویر: Mohammed Salem/REUTERS
حماس کے رہنماؤں کے گھروں پر بمباری
اگلے روز اسرائیل کی جانب سے حماس کے مختلف رہنماؤں کے گھروں پر بمباری کی گئی۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق ان حملوں میں بیالیس فلسطینی ہلاک ہو گئے۔ اقوام متحدہ کے سکریڑی جنرل کی جانب سے اس تنازعہ کو فوری طور پر ختم کیے جانے کی اپیل کی گئی۔
تصویر: Mahmud Hams/AFP
'اسلامک اسٹیٹ' کا ایک کمانڈر ہلاک
سترہ مئی کو دہشت گرد تنظیم 'اسلامک اسٹیٹ' کی جانب سے کہا گیا کہ اسرائیلی بمباری میں ان کا ایک کمانڈر ہلاک ہو گیا ہے۔ دوسری جانب اقرام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں امریکا کی جانب سے تیسری مرتبہ اسرائیلی فلسطینی تنازعہ پر اس مشترکہ بیان کو روک دیا گیا جس میں تشدد کے خاتمے اور شہریوں کو تحفظ پہنچانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
تصویر: Said Khatib/AFP
دو سو سے زائد فلسطینی ہلاک
اس حالیہ تنازعہ میں اب تک دو سو سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں سے قریب ساٹھ بچے ہیں۔ تیرہ سو سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
تصویر: Ahmad Gharabli/AFP/Getty Images
تین ہزار سے زائد راکٹ فائر کئے گئے
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ حماس کی جانب سے تین ہزار سے زائد راکٹ فائر کئے گئے ہیں جن کے باعث ایک بچے سمیت دس اسرائیلی شہری ہلاک ہو گئے ہیں۔
ب ج، ا ا (اے ایف پی)
تصویر: Amir Cohen/REUTERS
10 تصاویر1 | 10
اسرائیلی وزیر اعظم کا ردعمل
اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے اپنے ایک بیان میں فلسطینی قیدیوں کے ملک کی انتہائی سخت حفاظتی انتظامات والی ایک جیل سے فرار کو 'بہت سنجیدہ نوعیت کا واقعہ‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ مفرور قیدیوں کو ڈھونڈنے والے حکام انہیں مسلسل باخبر رکھے ہوئے ہیں۔
حکام کے مطابق یہ خطرہ بھی تھا کہ کہیں اس جیل میں زیادہ تر سلامتی سے متعلقہ جرائم کی وجہ سے بند قیدیوں نے مزید سرنگیں بھی نہ بنائی ہوں۔ اس لیے اس واقعے کے بعد گِلبوآ کی جیل کے تمام 400 قیدیوں کو احتیاطاﹰ دیگر مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
حماس کی طرف سے مفرور قیدیوں کی تعریف
غزہ پٹی کے محصور علاقے پر حکمران فلسطینی تنظیم حماس نے کہا ہے کہ گِلبوآ جیل سے چھ فلسطینیوں قیدیوں کے فرار کا یہ واقعہ ایک 'باہمت اقدام‘ ہے جو اسرائیلی سکیورٹی سسٹم کی 'حقیقی شکست‘ بھی ہے۔
عرب اسرائیل جنگ کے پچاس برس مکمل
پچاس برس قبل عرب اسرائیل جنگ کا آغاز ہوا تھا۔ تفصیلات اس پکچر گیلری میں
تصویر: AFP/Getty Images
اسرائیلی فوج نے حملے کے بعد تیزی کے ساتھ پیش قدمی کی
پانچ جون کو اسرائیلی فوج نے مختلف محاذوں پر حملہ کر کے عرب افواج کی اگلی صفوں کا صفایا کر دیا تا کہ اُسے پیش قدمی میں مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
اسرائیلی فوج نے حملے میں پہل کی تھی
عالمی برادری اور خاص طور پر امریکا اِس جنگ کا مخالف تھا اور اُس نے واضح کیا کہ جو پہلے حملہ کرے گا وہی نتائج کا ذمہ دار ہو گا مگر اسرائیلی فوجی کمانڈروں کا خیال تھا کہ حملے میں پہل کرنے کی صورت میں جنگ جیتی جا سکتی ہے۔
تصویر: Keystone/ZUMA/IMAGO
مشرقی یروشلم پر بھی اسرائیل قابض ہو گیا
اسرائیلی فوج کے شیرمین ٹینک دس جون سن 1967 کو مشرقی یروشلم میں گشت کرتے دیکھے گئے تھے۔ شیرمین ٹینک امریکی ساختہ تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Guillaud
چھ روز جنگ میں اسرائیلی فوج کو فتح حاصل ہوئی
اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کا کئی علاقوں پر قبضہ، پھر اُن کا اسرائیل میں انضمام اور دنیا کے مقدس ترین مقامات کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں پیدا تنازعہ مزید شدت ہو گیا۔
تصویر: Imago/Keystone
عرب افواج کے جنگی قیدی
پچاس برس قبل اسرائیلی فوج نے حملہ کرتے ہوئے عرب ممالک کے وسیع علاقے پر قبضہ کر لیا اور بے شمار فوجیوں کو جنگی قیدی بنا لیا۔
تصویر: David Rubinger/KEYSTONE/AP/picture alliance
جزیرہ نما سینائی میں اسرائیلی فوج کی کامیاب پیش قدمی
مصر کے علاقے جزیرہ نما سینائی میں مصری افواج اسرائیل کے اجانک حملے کا سامنا نہیں کر سکی۔ بے شمار فوجیوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ اسرائیلی فوج نے مصری فوج کی جانب سے خلیج تیران کی ناکہ بندی کو بھی ختم کر دیا۔
تصویر: Keystone/Getty Images
ہر محاذ پر عرب ممالک کو پسپائی کا سامنا رہا
غزہ پٹی پر قبضے کے بعد ہتھیار پھینک دینے والے فوجیوں کی پہلے شناخت کی گسی اور پھر اسرائیلی فوج نے چھان بین کا عمل مکمل کیا گیا۔
تصویر: Picture-alliance/AP/Keystone/Israel Army
7 تصاویر1 | 7
غزہ پٹی کے علاقے میں حماس کے بعد دیگر بڑے مسلح فلسطینی گروپوں میں سے ایک جہادِ اسلامی نے اس واقعے پر اپنے ردعمل میں کہا کہ یہ 'جیل بریک قابض فورسز کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے‘۔
ذکریا زبیدی کون؟
گِلبوآ جیل سے فرار ہونے والوں میں سے ذکریا زبیدی ایک ایسا سابقہ فلسطینی عسکریت پسند رہنما ہے، جو شہدائے الاقصیٰ بریگیڈ کا سابق سربراہ اور بہت سے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے لیے ایک جانی پہچانی شخصیت ہے۔
اسے 2019ء میں مغربی کنارے کے ایک گاؤں سے دہشت گردی کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ زبیدی کو ماضی میں مختلف مسلح حملوں میں حصہ لینے کی وجہ سے فلسطینی انتظامیہ کی طرف سے بھی باقاعدہ الزامات کا سامنا رہا ہے۔
م م /ع ح (اے ایف پی، اے پی)
غزہ کی سرنگیں
غزہ پٹی میں اسرائیلی فوجی کارروائی کا ایک اہم ہدف سرنگوں کو تباہ کرنا بھی ہے۔ حماس ان سرنگوں کو اسرائیل پر حملوں کے لیے استعمال کرتی ہے۔ تاہم زیر زمین بنائےجانے والے یہ راستے دیگر مقاصد کے لیے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/landov
خفیہ داخلی راستے
سرنگوں میں داخل ہونے کے اکثر راستے عام گھروں میں ہوتے ہیں کیونکہ انہیں بیرونی دنیا سے پوشیدہ رکھنا مقصود ہوتا ہے۔ انہیں استعمال کرنے والوں کو محصول بھی ادا کرنا پڑتا ہے اور اس ر قم کا کچھ حصہ گھر کے مالک کو بھی جاتا ہے۔ اسرائیل کا موقف ہے کہ غزہ کے باسی جو پیسہ سرنگوں کو استعمال کرنے پر خرچ کرتے ہیں، اسے کسی اور مقصد میں بھی لایا جا سکتا ہے۔
تصویر: Getty Images
بقا کا راستہ یا اسمگلنگ کا ذریعہ؟
فلسطینیوں کی نظر میں یہ سرنگیں غزہ پٹی کی بقا کے لیے ضروری ہیں جبکہ اسرائیل کے خیال میں غزہ میں اسلحے کی ترسیل اور جنگجوؤں کی آمدورفت کے لیے بھی انہی سرنگوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ سینکڑوں یا پھر ہزاروں کی تعداد میں یہ سرنگیں غزہ اور بیرونی دنیا کے درمیان رابطے کا واحد ذریعہ ہیں۔ کم اونچائی والے ان راستوں سے جانوروں کو بھی لایا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images
پُر خطر تعمیر
ان زیر زمین سرنگوں کی تعمیر میں عام اوزار استعمال کیے جاتے ہیں یعنی بیلچے اور کدال وغیرہ۔ اس دوران لکڑیوں کے تختے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ بڑی سرنگوں میں سیمنٹ اور کنکریٹ بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔ نوجوان فلسطینیوں کے لیے سرنگیں کھودنا روزگار کا ذریعہ بھی ہے۔ زمین کے سرکنے کی وجہ سے اکثر جان لیوا حادثات بھی رونما ہوتے ہیں۔
تصویر: Getty Images
تعمیراتی سامان کی ترسیل
فلسطینی غزہ پٹی کے مخدوش بنیادی ڈھانچے اور تعمیراتی کاموں کے لیے سیمنٹ اور دیگر ضروری اشیاءکی ترسیل کے لیے ان سرنگوں کو واحد ذریعے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ سرنگیں کپڑے اور ضروریات زندگی کے سامان کے علاوہ اسلحے کی منتقلی کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہیں۔
تصویر: DW/T. Krämer
بڑھتا ہوا رجحان
غزہ پٹی میں گزشتہ تیس برسوں سے سرنگوں کا نظام موجود ہے۔ 1979ء میں اسرائیل اور مصر کے مابین ہونے والے امن معاہدے کے بعد1982ء میں شہر رفاہ کو تقسیم کر دیا گیا۔ ایک حصہ مصر جبکہ دوسرا غزہ میں شامل ہو گیا تھا۔ اس منقسم شہر میں سامان کا تبادلہ سرنگوں کے ذریعے ہی ہوتا تھا اور اس کے بعد سے سرنگوں کا یہ جال پھیلتا ہی چلا گیا۔
تصویر: Getty Images
بہترین نیٹ ورک
کئی سرنگیں بہترین مواصلاتی نظام سے بھی لیس ہیں۔ بجلی کے علاوہ بیرونی دنیا سے رابطے کے لیے ان میں ٹیلیفون تک کی سہولت بھی موجود ہے۔ مخصوص حالات میں حملوں سے محفوظ رہنے کے لیے بھی ان سرنگوں میں پناہ لی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images
مصر بھی سرنگوں سے خائف
اسرائیل کے ساتھ ساتھ مصر بھی ان سرنگوں کے خلاف ہے۔ مصر کے جزیرہ نما سینائی میں کیے جانے والے اکثر حملوں کی ذمہ داری بھی حماس پر عائد کی جاتی ہے۔ اس وجہ سے ملکی فوج گزشتہ کئی برسوں کے دوران متعدد سرنگوں کے اُن حصوں کو تباہ کر چکی ہے، جو مصر میں ہیں۔ سابق مصری صدر محمد مرسی کے دور میں بھی یہ سرنگیں تباہ کرنے کا سلسلہ جاری رہا تھا۔
تصویر: DW/S.Al Farra
زمین کے نیچے سے خطرہ
کچھ سرنگیں ایسی بھی ہیں، جن کے ذریعے اسرائیلی فوجیوں پر حملے بھی کیے گئے ہیں۔ شدت پسند فلسطینی کسی اسرائیلی چوکی یا چھاؤنی کے نیچے پہنچنے کے بعد زیر زمین دھماکے کرتے ہیں۔ 2004ء میں حماس کی جانب سے اسی طرح کے ایک حملے میں پانچ اسرائیلی فوجی ہلاک جبکہ دیگر دس زخمی ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images
غزہ میں کارروائی جاری
اسرائیلی ذرائع کے مطابق غزہ میں کی جانے والی کارروائی کے دوران اب تک درجنوں ایسی سرنگوں کا پتا چلا کر انہیں تباہ کیا جا چکا ہے۔ عالمی برادری کی اپیلوں کے باوجود اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو غزہ پر حملے جاری رکھنے پر بضد ہیں۔ ’’ہم اس وقت تک یہ کارروائی جاری رکھیں گے، جب تک تمام سرنگوں کو تباہ نہیں کر دیا جاتا۔‘‘