چھ لاکھ اطالوی شہریوں کی پینشن مہاجرین کے ادا کردہ ٹیکس سے
شمشیر حیدر9 مارچ 2016
اٹلی میں تارکین وطن ہر سال انکم ٹیکس کے طور پر حکومت کو اربوں یورو ادا کرتے ہیں، جن سے چھ لاکھ بزرگ شہریوں کو ان کی پینشن ادا کی جاتی ہے، حالانکہ عمومی تاثر یہ ہے کہ مہاجرین ملکی خزانے پر بوجھ بنتے ہیں۔
اشتہار
اطالوی حکومت کی جاری کردہ ایک نئی سالانہ دستاویز کے مطابق ملک میں نئی رجسٹر کی جانے والی ہر پانچ کمپنیوں میں سے ایک کی ملکیت یورپی یونین سے باہر کے کسی ملک سے آئے ہوئے کسی مرد یا خاتون تارک وطن کے پاس ہوتی ہے۔
یہ سالانہ حکومتی دستاویز روبرٹو گاروفولی نے مرتب کی ہے، جو اطالوی وزیر خزانہ کے چیف آف اسٹاف بھی ہیں۔ گاروفولی نے وزارت خزانہ کے اعداد و شمار کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ اٹلی میں مقیم غیر ملکی تارکین وطن نے ملکی ویلفیئر سسٹم میں صرف مالی سال 2014ء کے دوران آٹھ ارب یورو ادا کیے۔
اس دستاویز کے مطابق یورپی یونین سے باہر کی ریاستوں کے تارکین وطن پر اطالوی حکومت کے اخراجات ان کی وجہ سے ہونے والی سرکاری آمدنی کی نسبت بہت ہی کم ہیں۔ 2014ء کے دوران ان تارکین وطن نے اطالوی سوشل سسٹم سے پینشن اور دیگر سماجی مراعات کی مد میں محض تین ارب یورو حاصل کیے تھے۔
گاروفولی نے اس ڈیٹا کی بنیاد پر لکھا ہے کہ تارکین وطن سے حاصل ہونے والی آمدن اور ان پر اٹھنے والے اخراجات کے بعد اوسطاﹰ سالانہ جو رقم باقی بچتی ہے، وہ قریب چھ لاکھ اطالوی شہریوں کو ان کی پینشن ادا کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔
اسی دستاویز کے مطابق اطالوی ریاست کے فلاحی نظام میں ادائیگیوں کے علاوہ 2014ء میں ریاستی خزانے کو ایسے غیر ملکیوں سے قریب سات ارب یورو انکم ٹیکس کی مد میں بھی موصول ہوئے۔ اس عرصے کے دوران اٹلی میں رجسٹر کی گئی نئی کاروباری کمپنیوں میں سے اٹھارہ فیصد انہی تارکین وطن نے شروع کی تھیں۔
دوسری جانب ان زیادہ تر نوجوان تارکین وطن کی طرف سے ریاست کو ادا کردہ رقوم کا ایک بڑا حصہ پناہ گزینوں کے موجودہ بحران کے دوران ملک میں نئے آنے والے تارکین وطن کو مختلف سہولیات کی فراہمی پر خرچ کیا گیا۔
2014ء اور 2015ء کے دوران تین لاکھ 20 ہزار سے زائد نئے غیر ملکی تارکین وطن پناہ کی تلاش میں اٹلی پہنچے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر کو اطالوی ساحلی محافظوں نے بحیرہ روم کے خطرناک سفر کے دوران بچا لیا تھا۔
گاروفولی کے مطابق گزشتہ برس 3.3 ارب یورو نئے آنے والے پناہ گزینوں اور تارکین وطن پر خرچ کیے گئے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ مستقبل قریب میں ان اخراجات میں کمی مشکل دکھائی دیتی ہے۔
اٹلی کی مجموعی آبادی 60 ملین یا چھ کروڑ کے قریب ہے۔ ان میں تقریباﹰ پچاس لاکھ غیر ملکی بھی شامل ہیں۔ اس یورپی ملک میں آباد غیر ملکیوں کی زیادہ تعداد یورپی یونین کے باہر سے آئے ہوئے تارکین وطن کی ہے۔ وہاں ایسے تارکین وطن میں سے اکثریت کا تعلق مشرقی یورپ، جنوبی ایشیا اور شمالی افریقی ممالک سے ہے۔
پاکستانی تارک وطن، اکبر علی کی کہانی تصویروں کی زبانی
اکبر علی بھی ان ہزاروں پاکستانی تارکین وطن میں سے ایک ہے جو مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران جرمنی اور دیگر یورپی ممالک پہنچے۔ اس پرخطر سفر کے دوران علی نے چند مناظر اپنے موبائل فون میں محفوظ کر لیے۔
تصویر: DW/S. Haider
ایران کا ویزہ لیکن منزل ترکی
علی نے پاکستان سے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے ایران کا ویزہ لیا۔ ایران سے انسانوں کے اسمگلروں نے اسے سنگلاخ پہاڑوں کے ایک طویل پیدل راستے کے ذریعے ترکی پہچا دیا۔ تین مہینے ترکی کے مختلف شہروں میں گزارنے کے بعد علی نے یونان کے سفر کا ارادہ کیا اور اسی غرض سے وہ ترکی کے ساحلی شہر بودرم پہنچ گیا۔
تصویر: Akbar Ali
میدانوں کا باسی اور سمندر کا سفر
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر سینکڑوں تارکین وطن کو نگل چکا ہے۔ یہ بات علی کو بھی معلوم تھی۔ پنجاب کے میدانی علاقے میں زندگی گزارنے والے علی نے کبھی سمندری لہروں کا سامنا نہیں کیا تھا۔ علی نے اپنے دل سے سمندر کا خوف ختم کرنے کے لیے پہلے سیاحوں کے ساتھ سمندر کی سیر کی۔ پھر درجنوں تارکین وطن کے ہمراہ ایک چھوٹی کشتی کے ذریعے یونانی جزیرے لیسبوس کے سفر پر روانہ ہو گیا۔
تصویر: Akbar Ali
دیکھتا جاتا ہوں میں اور بھولتا جاتا ہوں میں
سمندر کی خونخوار موجوں سے بچ کر جب علی یونان پہنچا تو اسے ایک اور سمندر کا سامنا تھا۔ موسم گرما میں یونان سے مغربی یورپ کی جانب رواں مہاجرین کا سمندر۔ علی کو یہ سفر بسوں اور ٹرینوں کے علاوہ پیدل بھی طے کرنا تھا۔ یونان سے مقدونیا اور پھر وہاں سے سربیا تک پہنچتے پہنچتے علی کے اعصاب شل ہو چکے تھے۔ لیکن منزل ابھی بھی بہت دور تھی۔
تصویر: Akbar Ali
کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل
ہزاروں مہاجرین کی روزانہ آمد کے باعث یورپ میں ایک بحرانی کیفیت پیدا ہو چکی تھی۔ علی جب سربیا سے ہنگری کے سفر پر نکلا تو ہنگری خاردار تاریں لگا کر اپنی سرحد بند کر چکا تھا۔ وہ کئی دنوں تک سرحد کے ساتھ ساتھ چلتے ہنگری میں داخل ہونے کا راستہ تلاشتے رہے لیکن ہزاروں دیگر تارکین وطن کی طرح علی کو بھی سفر جاری رکھنا ناممکن لگ رہا تھا۔
تصویر: Akbar Ali
متبادل راستہ: ہنگری براستہ کروشیا
کروشیا اور ہنگری کے مابین سرحد ابھی بند نہیں ہوئی تھی۔ علی دیگر مہاجرین کے ہمراہ بس کے ذریعے سربیا سے کروشیا کے سفر پر روانہ ہو گیا، جہاں سے وہ لوگ ہنگری میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ہنگری سے بذریعہ ٹرین علی آسٹریا پہنچا، جہاں کچھ دن رکنے کے بعد وہ اپنی آخری منزل جرمنی کی جانب روانہ ہو گیا۔
تصویر: Akbar Ali
جرمنی آمد اور بطور پناہ گزین رجسٹریشن
اکبر علی جب جرمنی کی حدود میں داخل ہوا تو اسے پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کے مرکز لے جایا گیا۔ علی نے جرمنی میں پناہ کی باقاعدہ درخواست دی، جس کے بعد اسے جرمنی کے شہر بون میں قائم ایک شیلٹر ہاؤس پہنچا دیا گیا۔ علی کو اب اپنی درخواست پر فیصلہ آنے تک یہاں رہنا ہے۔ اس دوران جرمن حکومت اسے رہائش کے علاوہ ماہانہ خرچہ بھی دیتی ہے۔ لیکن علی کا کہنا ہے کہ سارا دن فارغ بیٹھنا بہت مشکل کام ہے۔
تصویر: DW/S. Haider
تنہائی، فراغت اور بیوی بچوں کی یاد
علی جرمن زبان سے نابلد ہے۔ کیمپ میں کئی ممالک سے آئے ہوئے مہاجرین رہ رہے ہیں۔ لیکن علی ان کی زبان بھی نہیں جانتا۔ اسے اپنے بچوں اور بیوی سے بچھڑے ہوئے سات ماہ گزر چکے ہیں۔ اپنے خاندان کا واحد کفیل ہونے کے ناطے اسے ان کی فکر لاحق رہتی ہے۔ اس کا کہنا ہے، ’’غریب مزدور آدمی ہوں، جان بچا کر بھاگ تو آیا ہوں، اب پچھتاتا بھی ہوں، بیوی بچوں کے بغیر کیا زندگی ہے؟ لیکن انہی کی خاطر تو سب کچھ کر رہا ہوں۔‘‘