سابق اطالوی وزیر اعظم سلویو برلسکونی کے مطابق اٹلی میں موجود چھ لاکھ تارکین وطن ’جرائم کے ارتکاب کے لیے تیار بیٹھے‘ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ان کی سیاسی جماعت حکومت میں آئی تو ان سب غیر ملکیوں کو ملک بدر کر دیا جائے گا۔
اشتہار
اٹلی کی قدامت پسند جماعت کے رہنما سلویو برلسکونی کا کہنا ہے کہ اگلے ماہ انتخابات میں اگر ان کی جماعت فتح یاب ہوئی اور اگلی حکومت قائم کرنے میں کامیاب رہی، تو وہ ملک میں موجود تارکین وطن کے خلاف سخت اقدامات کریں گے۔
ہجرت کا سب سے تکليف دہ پہلو، ماہ رمضان ميں اکيلے پن کا احساس
بلقان روٹ کی بندش کے بعد مہاجرين کی اکثریت ليبيا کے راستے آج کل يورپ پہنچ رہی ہے، جہاں ان کی پہلی منزل اٹلی ہوتی ہے۔ ايک نيا ملک، نئی زبان اور نيا سماج، جانيے اٹلی کے جزيرے سسلی پر مسلمان مہاجرين رمضان کيسے گزار رہے ہيں۔
تصویر: DW/D.Cupolo
انجان ملک ميں روزے رکھنا
رواں سال اب تک جتنے پناہ گزين يورپ پہنچے ہيں، ان کی پچاسی فيصد تعداد اٹلی ميں موجود ہے۔ ان میں سے اکثريت کا تعلق مسلم ممالک سے ہے اور ہزاروں کے ليے ايک انجان ملک اور معاشرے ميں يہ ان کا پہلا رمضان ہے۔ رمضان ميں مذہبی ذمہ داريوں کو پورا کرنے کے سلسلے ميں مہاجرين کو سماجی مسائل کا سامنا ہے کيونکہ يہ سب ان کے ليے بالکل نيا ہے۔ تاہم سسلی ميں کتانيا کی مسجد الرحمان بہت سوں کے ليے سکون کی آغوش ہے۔
تصویر: DW/D.Cupolo
يورپی طور طريقے سيکھنا
رمضان ميں سورج طلوع ہونے سے غروب ہونے تک کھايا، پيا نہيں جا سکتا ليکن روزے کا مقصد صرف يہی نہيں۔ مسلمان اس ماہ زيادہ سے زيادہ نيکياں کمانے کی کوشش کرتے ہيں۔ نائجيريا سے اٹلی پہنچ کر سولہ سالہ گلاڈيما کو احساس ہوا کہ يہاں کا طرز زندگی کس قدر مختلف ہے۔ اس نے کہا، ’’یورپ کے بارے ميں سب سے حيران کن بات يہ ہے کہ آپ کئی ماہ تک ان ہی افراد کو سڑکوں پر ديکھ سکتے ہيں ليکن آپ ان کے نام تک نہيں جان سکتے۔‘‘
تصویر: DW/D.Cupolo
طويل روزے
مسلم ممالک سے پہلی دفعہ يورپ ميں آنے والے ان پناہ گزينوں کے ليے ایک بڑی تبديلی يہاں کا معاشرہ ہی نہيں بلکہ يہاں کا جغرافيہ بھی ہے۔ خطِ استوا سے زيادہ فاصلے کا مطلب ہے کہ یہاں گرمیوں میں دن کا دورانيہ زيادہ طويل ہوتا ہے اور نتيجتاً روزے کا دورانيہ بھی۔ گلاڈيما کہتا ہے، ’’ميں يہ سوچ بھی نہيں سکتا تھا کہ کوئی رات تين بجے سے اگلے دن رات آٹھ بجے تک روزہ رکھے۔ اب ميں اتنا طويل روزہ رکھ رہاں ہوں۔‘‘
تصویر: DW/D.Cupolo
بڑھتی ہوئی بنگلہ ديشی برادری
براعظم افريقہ کے مختلف حصوں سے پناہ گزين يورپ پہنچنے کے ليے ليبيا کا راستہ اختيار کرتے آئے ہيں۔ اطالوی وزارت داخلہ کے مطابق اب بڑی تعداد ميں بنگلہ ديشی تارکين وطن بھی يہی راستہ اختيار کر رہے ہيں۔
تصویر: DW/D.Cupolo
مختلف زبانوں ميں قرآن دستياب
سسلی بحيرہ روم کا سب سے بڑا جزيرہ اور اٹلی کا خود مختار علاقہ ہے۔ دنيا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے مہاجرين کی آمد کے تناظر ميں وہاں مسجد الرحمان کے مولوی نے مختلف زبانوں ميں قرآن پاک کی دستيابی کو يقينی بنايا ہے۔ مراکش نژاد مولوی بتاتے ہيں کہ ان کی مسجد ميں نماز ادا کرنے کے ليے دنيا بھر سے ہر شہريت کے لوگ آتے ہيں۔
تصویر: DW/D.Cupolo
مختلف ثقافت و سماج
’’مسجد ميں ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ رمضان ہے ليکن جب ميں سڑکوں پر ہوتا ہوں، تو لگتا ہے کہ يوں ہی کوئی عام سا دن ہے،‘‘ اٹھائيس سالہ پاکستانی تارک وطن خان کہتا ہے۔ اس کے بقول يہاں کا معاشرہ بہت مختلف ہے اور بالکل اسلامی نہيں۔ وہ مزيد کہتا ہے، ’’ميں مسيحی نہيں ليکن جب تک ہم سب ايک دوسرے کے ساتھ محبت اور احترام کے ساتھ پيش آتے رہيں، اس سے کوئی فرق نہيں پڑتا کہ آپ کس مذہب کے ماننے والے ہيں۔‘‘
تصویر: DW/D.Cupolo
فراغت نہ ہونے کے برابر
جنوبی اٹلی ميں عام طور پر دکانيں شام کے وقت جلد بند ہو جاتی ہيں۔ سہ پہر کے وقت کھانے کا وقفہ بھی معمول کی بات ہے۔ اس کے برعکس بنگلہ ديشی دکان دار زيادہ دير تک کام کرتے رہتے ہيں، خواہ کوئی بھی موسم اور کوئی بھی وقت ہو۔ پچيس سالہ مومن معتوبر کہتا ہے، ’’ہم تھکے ہوئے ہوں تو بھی اپنی دکان کھلی رکھتے ہيں اور کام کاج کرتے رہتے ہيں۔ رمضان ميں بھی يہ معمول مشکل نہيں کيونکہ يہ تو ہمارا مذہب ہے۔‘‘
تصویر: DW/D.Cupolo
روايتی کھانے اور افطار
بہت سے تارکين وطن کے ليے رمضان ايک وقت بھی ہوتا ہے جب وہ اپنے آبائی علاقوں کے کھانے اور روايتی اسلامی طريقہ ہائے کار سے افطار کرنا چاہتے ہيں۔ ليکن سماجی انضمام کو فروغ دينے کے ليے کام کرنے والے اسمائيل جامع کا کہنا ہے کہ بيرون ملک رمضان کا مطلب يہ بھی ہے کہ لوگ نئے کھانے اور نئی روايات کو موقع ديں۔
تصویر: DW/D.Cupolo
برکتوں کے مہينے ميں اکيلے پن کا احساس
ليبيا کے راستے حال ہی ميں اٹلی پہنچنے والے نوجوان مالا کا کہنا ہے، ’’آج کل رمضان جاری ہے۔ جب ميں اپنے گھر کو ياد کرتا ہوں تو خود کو بہت اکيلا محسوس کرتا ہوں۔‘‘ مالا کا يہ اپنے اہل خانہ کے بغير پہلا رمضان ہے۔ وہ کہتا ہے، ’’ہم تو يہاں آمد پر ہی اجنبی ہيں ليکن اس ہجرت کا سب سے تکليف دہ پہلو اکيلے پن کا احساس ہے۔‘‘
اٹلی میں مارچ کی چار تاریخ کو ہونے والے عام انتخابات میں تارکین وطن اور مہاجرین کا موضوع اہم ترین ہے۔ بحیرہء روم سے ریسکیو کیے جانے والے لاکھوں تارکین وطن مختلف اطالوی علاقوں میں مقیم ہیں اور آئندہ انتخابات کے لیے یہی معاملہ تمام سیاسی جماعتوں کی مہم کا بنیادی حصہ ہے۔ تاہم گزشتہ ہفتے کو تارکین وطن کا معاملہ ایک اور موڑ مڑ گیا، جب ایک مسلح اطالوی شخص نے مشتبہ طور پر چھ افریقی تارکین وطن پر فائرنگ کر کے انہیں زخمی کر دیا۔ اس شخص نے وسطیٰ اطالوی قصبے ماکیراتا میں اپنی گاڑی سے ان افراد پر فائرنگ کی تھی۔ پولیس کے مطابق یہ حملہ آور انتہائی دائیں بازو کے شدت پسندانہ نئے نازی خیالات سے متاثر ہے۔ اس سے پہلے اسی علاقے میں ایک نائجیرین تارک وطن نے ایک 18 سالہ اطالوی خاتون کو قتل کر دیا تھا۔
اطالوی پہاڑوں کی آغوش ميں ايک نئی زندگی کا آغاز
جنوبی اٹلی ميں اسپرومونٹے پہاڑی سلسلے کی آغوش ميں ايک چھوٹا سا گاؤں جو کبھی تاريکی اور خاموشی کا مرکز تھا، آج نوجوانوں کے قہقہوں سے گونج رہا ہے۔ سانت آليسيو ميں اس رونق کا سبب پناہ گزين ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
گمنامی کی طرف بڑھتا ہوا ايک انجان گاؤں
کچھ برس قبل تک سانت آليسيو کی کُل آبادی 330 افراد پر مشتمل تھی۔ ان ميں بھی اکثريت بوڑھے افراد کی تھی۔ چھوٹے چھوٹے بلاکوں کی مدد سے بنی ہوئی تنگ گلياں اکثر وبيشتر خالی دکھائی ديتی تھيں اور مکانات بھی خستہ حال ہوتے جا رہے تھے۔ گاؤں کے زيادہ تر لوگ ملازمت کے بہتر مواقع کی تلاش ميں آس پاس کے بڑے شہر منتقل ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
نئے مہمان، نئی رونقيں
سن 2014 ميں سانت آليسيو کی کونسل نے قومی سطح کے ’پروٹيکشن سسٹم فار ازائلم سيکرز اينڈ ريفيوجيز‘ (SPRAR) نامی نيٹ ورک کے تحت مہاجرين کو خالی مکانات کرائے پر دينا شروع کيے۔ آٹھ مکانات کو قريب پينتيس مہاجرين کو ديا گيا اور صرف يہ ہی نہيں بلکہ ان کے ليے زبان کی تربيت، سماجی انضام کے ليے سرگرميوں، کھانے پکانے اور ڈانس کلاسز کا انتظام بھی کيا گيا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
ايک منفرد منصوبہ
يہ ايک خصوصی منصوبہ ہے، جس کے تحت ان افراد کو پناہ دی جا رہی ہے، جو انتہائی نازک حالات سے درچار ہيں۔ ان ميں ماضی میں جسم فروشی کی شکار بننے والی عورتيں، ايچ آئی وی وائرس کے مريض، ذيابيطس کے مرض ميں مبتلا افراد اور چند ايسے لوگ بھی شامل ہيں جنہوں نے اپنے آبائی ملکوں ميں جنگ و جدل کے دوران کوئی گہرا صدمہ برداشت کیا ہے یا زخمی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
ميئر اسٹيفانو کالابرو بھی خوش، لوگ بھی خوش
سانتا ليسيو کے ميئر اسٹيفانو کالابرو کا کہنا ہے کہ ان کا مشن رحم دلی پر مبنی ہے اور انسانی بنيادوں پر مدد کے ليے ہے ليکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے معاشی فوائد بھی ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
دو طرفہ فوائد
رياست کی طرف سے ہر مہاجر کے ليے يوميہ پينتاليس يورو ديے جاتے ہيں۔ يہ رقم انہیں سہوليات فراہم کرنے پر صرف کی جاتی ہے۔ اس منصوبے کی وجہ سے سانت آليسيو ميں سولہ لوگوں کو ملازمت مل گئی ہے، جن ميں سات افراد مقامی ہيں۔ سروسز کی فراہمی کے ليے ملنے والی رقوم کی مدد سے گاؤں کا جم ( ورزش کا کلب) واپس کھول ديا گيا ہے اور اس کے علاوہ ايک چھوٹی سپر مارکيٹ اور ديگر چھوٹے چھوٹے کاروبار بھی بندش سے بچ گئے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
سانت آليسيو کے ليے نئی اميد
مقامی افراد اس پيش رفت سے خوش دکھائی ديتے ہيں۔ نواسی سالہ انتوونيو ساکا کہتے ہيں کہ وہ اپنے نئے پڑوسيوں سے مطمئن ہيں۔ ساکا کے بقول وہ اپنی زندگياں خاموشی سے گزارتے ہيں ليکن ديگر افراد کے ساتھ ان کا برتاؤ اچھا ہے اور کام کاج ميں بھی لوگوں کا ہاتھ بٹاتے ہيں۔ سيليسٹينا بوريلو کہتی ہيں کہ گاؤں خالی ہو رہا تھا اور عنقريب مکمل طور پر خالی ہو جاتا، مگر مہاجرين نے اسے دوبارہ آباد کر ديا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
6 تصاویر1 | 6
اتوار کے روز ایک اطالوی ٹی وی کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں سابق وزیر اعظم برلسکونی نے کہا کہ سن 2013ء سے اب تک تارکین وطن کی بہت بڑی تعداد اٹلی میں داخل ہو چکی ہے۔ ’’نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت قریب چھ لاکھ تیس ہزار تارکین وطن میں سے صرف تیس ہزار کو ملک میں قانونی طور پر رہنے کا حق حاصل ہے، جب کہ باقی چھ لاکھ ایک ایسا سماجی بم ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے، کیوں کہ وہ جرائم کر کے ہی اٹلی میں رہ رہے ہیں۔‘‘
یہ بات اہم ہے کہ برلسکونی خود انتخابات میں شریک نہیں ہو سکتے کیوں کہ انہیں ٹیکس فراڈ کے ایک مقدمے میں عدالت مجرم قرار دے چکی ہے، تاہم وہ خود اپنی فورسا اٹالیا نامی سیاسی پارٹی کے لیے انتخابی مہم میں شریک ہیں، جب کہ اس جماعت نے دائیں بازو کی ایک مہاجرین مخالف جماعت کے ساتھ انتخابی اتحاد بھی قائم کر رکھا ہے۔