لگژری کاریں اور ہوائی جہازوں کے انجن تیار کرنے والی برطانوی کمپنی رولز رائس کا منافع اس سال کی پہلی ششماہی میں دو گنا سے بھی زیادہ ہو گیا، جس کی بڑی وجہ رولز رائس گاڑیوں اور طیاروں کے انجنوں کی فروخت میں واضح اضافہ بنا۔
اشتہار
برطانوی دارالحکومت لندن سے منگل یکم اگست کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق عالمی سطح پر مشہور اس برطانوی کمپنی کی طرف سے آج بتایا گیا کہ گزشتہ سال کی پہلی ششماہی کے مقابلے میں سال رواں کے پہلے چھ ماہ کے دوران رولز رائس کا قبل از ٹیکس منافع بڑھ کر 276 فیصد ہو گیا۔
ان چھ ماہ کے دوران اس برٹش کمپنی کی بہت اچھی کاروباری کارکردگی کی بڑی وجہ یہ رہی کہ اس عرصے میں نہ صرف دنیا بھر میں رولز رائس گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ ہوا اور ساتھ ہی کمپنی کے پیداواری اور انتظامی لاگت کم کرنے سے متعلق اقدامات بھی مؤثر ثابت ہوئے بلکہ ساتھ ہی اسی کمپنی کے تیار کردہ مختلف ہوائی جہازوں کے انجنوں کی نئی قسم Trent XWB کی فروخت میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوا۔
کمپنی کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق 2016ء میں یکم جنوری سے لے کر 30 جون تک کے عرصے کے مقابلے میں 2017ء کے اسی عرصے کے دوران رولز رائس کا منافع 104 ملین پاؤنڈ سے بڑھ کر 287 ملین پاؤنڈ یا 382 ملین امریکی ڈالر کے برابر ہو گیا۔
اسی دوران اس کمپنی کی مجموعی آمدنی میں بھی چھ فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا، جو ایک ماہ قبل ختم ہونے والی ششماہی کے دوران بڑھ کر 6.87 بلین پاؤنڈ ہو گئی۔
BMW کو تیسرے کوارٹر میں ریکارڈ منافع
جرمن لگژری کار ساز ادارے BMW کو رواں برس کی سہ ماہی میں ریکارڈ منافع ہوا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
توقعات سے بھی بڑھ کر منافع
جرمن شہر میونخ میں قائم دنیا کی اس سب سے بڑی کار ساز کمپنی کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ اسے اس سہ ماہی میں توقعات سے بڑھ کر منافع حاصل ہوا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Citypress24/Boenisch
دو بلین ڈالر کا خالص منافع
بی ایم ڈبلیو کے مطابق اسے گزشتہ برس یعنی 2015ء کی تیسری سہ ماہی میں 1.6 بلین یورو کا منافع ہوا تھا تاہم رواں برس کی اس تیسری سہ ماہی میں اسے 1.8 بلین یورو کا خالص منافع ہوا ہے یہ رقم دو بلین امریکی ڈالرز کے برابر بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/J. Lee
بی ایم ڈبلیو کی حکمت عملی تسلسل سے جاری
بی ایم ڈبلیو کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ہیرالڈ کرؤگر کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بی ایم ڈبلیو اپنی مضبوط حکمت عملی پر مسلسل عمل پیرا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schrader
نو ماہ میں 5.5 بلین کا منافع
رواں برس کے آغاز سے ستمبر کے آخر تک بی ایم ڈبلیو کے خالص منافع میں 11.7 اضافہ ہوا ہے اور یہ 5.5 بلین یورو رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O.Spata
23 بلین یوروز سے زائد کی فروخت
دنیا کی اس سب سے بڑی لگژری کاریں تیار کرنے والی کمپنی نے رواں برس کی تیسری سہ ماہی میں 23.4 بلین یورو مالیت کی کاریں فروخت کی ہیں۔
تصویر: DW/A. Chatterjee
تمام گروپس کے انفرادی یونٹس کی فروخت میں اضافہ
بی ایم ڈبلیو گروپ میں اب مِنی اور رولز رائس ڈویژن بھی شامل ہیں۔ اس کمپنی کے ہر گروپ کی انفرادی یونٹس کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
گزشتہ برس کے مقابلے سات فیصد زائد کاروں کی فروخت
بی ایم ڈبلیو گروپ نے 2016ء کی تیسری سہ ماہی میں 583,000 کاریں فروخت کی ہیں۔ یہ تعداد گزشتہ برس کی دوسری سہ ماہی کے مقابلے میں 7.1 فیصد زائد ہے۔
تصویر: Imago/Xinhua
ریسرچ اور ڈویلپمنٹ بی ایم ڈبلیو کی ترجیح
چیف ایگزیکٹیو آفیسر ہیرالڈ کرؤگر کے مطابق بی ایم ڈبلیو اپنے منافع کو الیکٹرک اور بغیر ڈرائیور کی کاروں کی تیاری کے لیے تحقیق میں بھی استعمال کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Hoppe
8 تصاویر1 | 8
رولز رائس کے شہری ہوا بازی کے لیے استعمال ہونے والے طیاروں کے انجنوں کی نئی قسم ٹرینٹ ایکس ڈبلیو بی کو یورپی طیارہ ساز کنسورشیم ایئر بس کی طرف سے اس کے کمرشل طیاروں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
رولز رائس کے سربراہ وارین ایسٹ نے بتایا کہ سول ایرواسپیس شعبے میں اس کمپنی کے انجنوں کی فروخت میں 27 فیصد اضافہ ہوا اور نئے طے شدہ آرڈرز کو دیکھا جائے تو یہ رجحان آئندہ بھی جاری رہے گا۔
اس کے علاوہ رولز رائس نے اپنے انتظامی اخراجات میں انہی چھ ماہ کے دوران سات فیصد کی کمی بھی کر لی، جو 38 ملین پاؤنڈ کے برابر بنتی ہے۔
اس برٹش کمپنی کو صرف ہوائی جہازوں کے انجن بنانے میں ہی مہارت حاصل نہیں بلکہ اس کی تیار کردہ بہت مہنگی لگژری کاریں بھی دنیا بھر کے امراء میں بہت پسند کی جاتی ہیں۔
رولز رائس نے ابھی کچھ عرصہ قبل ہی اپنی تیار کردہ ایک نئی گاڑی ’سوَیپ ٹیل‘ Sweptail بھی متعارف کرائی تھی۔ یہ گاڑی دنیا کی سب سے مہنگی گاڑی قرار دی جاتی ہے، جس کی قیمت 12 ملین برطانوی پاؤنڈ بتائی گئی تھی اور اس کمپنی نے ایسی صرف ایک ہی گاڑی تیار کی تھی۔
پرانی اور نایاب کاریں: پاکستانی امراء کا مہنگا شوق
پاکستان کے امیر طبقے میں کلاسیکی ماڈلز کی قدیم اور نایاب کاریں جمع کرنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ افغان بادشاہ کی رولز رائس ہو یا بھارت کے آخری وائسرائے کی کار، ان کے سامنے پیسہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔
تصویر: DW/S. Raheem
پاکستانی دارلحکومت اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں پرانی کاریں رکھنے کے شوقین مالکان کی تنظیم "وینٹیج اینڈ کلاسک کار کلب آف پاکستان" کے زیر اہتمام سالانہ کار شو کا انعقاد کیا گیا۔
تصویر: DW/S. Raheem
ہر سال کاروں کے شوقین خواتین و حضرات بڑی تعداد میں اس کار شو کو دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ اس کار شو میں شرکت کرنیوالوں کے لئے کوئی داخلی ٹکٹ بھی نہیں رکھا جاتا جبکہ شرکاء ان گاڑیوں میں بیٹھ کر یا ساتھ کھڑے ہو کر سیلفیاں بناتے اور تصاویر کھنچواتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Adil
”کیڈلاک فلی وڈ" امی یہ کار انیس سو انسٹھ میں امریکہ نے تیار کی تھی۔ اس کار کی خاص بات یہ ہے کہ پاکستان کے سابق فوجی صدر ایوب خان کے زیر استعمال رہی ہے۔ اس کا منفرد اور پروقار ڈیزائن اسے اب بھی لوگوں کے لئے انتہائی جاذب نظر بنائے ہوئے ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
"منی کوپر" انیس سو چھپن میں سوئٹزر لینڈ میں پیدا ہونے والے تیل کے بحران کے حل کے طور پر الیکس ایسی گونیس کا ایک جواب تھا۔ بیالس سال تک تیار ہونیوالی اس کار کے چون لاکھ یونٹس فروخت کیے گئے۔
تصویر: DW/S. Raheem
انیس سو اٹھاون میں تیار کی گئی امریکن کمپنی "شیور لیٹ " کی اس گاڑی کے مالک کا کہنا ہے کہ یہ کار اب بھی اتنی شاندار ہے کہ اس میں بیٹھ کر آپ کو اس کی عظمت کا احساس ہوتا ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
اس مہنگے شوق کا سب سے مشکل مرحلہ ان کاروں کے اسپیئر پارٹس کا حصول ہوتا ہے۔ ان کاروں کے اسپیئر پارٹس خصوصی طور پر امریکا یا پھر یورپی ملکوں سے منگوائے جاتے ہیں اور اس مقصد کے لیے غیر ملکی اخباروں میں اشتہارات بھی دیے جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B.K. Bangash
انیس سو ستائیس میں تیار کی گئی برطانوی کار کمپنی کی کار "ٹرائمف سپر سیون ٹورر" کا اندرونی منظر اس کار کی سادگی کی گواہی دیتا ہے۔ پاکستان میں نایاب اور کلاسک کاروں کے کلب کے مطابق کاریں جمع کرنے والے افراد اس خطے میں گزشتہ صدی کی تاریخ کو محفوظ کر رہے ہیں۔
تصویر: DW/S. Raheem
کار شو کے منتظیمن کے کلب "وینٹیج اینڈ کلاسک کار کلب آف پاکستان" کے ارکان کی تعداد پاکستان کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے متمول افراد کی ہے۔ پرانی گاڑیوں کو خریدنا اور پھر ان کی دیکھ بحال اور مرمت خاصا مہنگا کام ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
کار شو کے منتظیمن کے کلب "وینٹیج اینڈ کلاسک کار کلب آف پاکستان" کے ارکان کی تعداد پاکستان کے مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے متمول افراد کی ہے۔ پرانی گاڑیوں کو خریدنا اور پھر ان کی دیکھ بحال اور مرمت خاصا مہنگا کام ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
کار شو میں رکھی گئی اکثر گاڑیوں کے ماڈل کافی پرانے ہونے کے باوجود مالکان نے انہیں خاصی بہتر حالت میں رکھا ہوا ہے۔ زیر نظر تصویر جرمن میڈ "فوکس ویگن بیٹل" کے انیس سو ساٹھ کے ماڈل کی ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
اس کار شو میں رکھی ہوئی لال اور کالے رنگ کی سب سے پرانے ماڈل کی کار "ٹرائمف سپر سیون ٹورر" تھی جو انیس سو ستائیس میں تیار کی گئی۔ اس کار کی رفتار پچاس کلومیٹر فی گھنٹہ ہے جبکہ اس کے ساتھ گہرے نیلے رنگ میں کھڑی فرانسیسی کار"پیجو" کا ماڈل انیس سو انسٹھ ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
جرمن کار کمپنی 'فوکس ویگن کی ایک بغیر چھت والی دلکش کار کی ڈرائیونگ سیٹ کا منظر۔ انیس سو پچپن میں جب اس کار کو فروخت کے لئے پیش کیا گیا تو اس کو دیکھ کر لوگ دنگ رہ گئے تھے۔
تصویر: DW/S. Raheem
انیس سو چالیس میں تیار کی گئی "بیوک" کار کی پیدوار کے پہلے ہی سال ایک لاکھ اٹھائیس ہزار سات سو یونٹ فروخت ہوئے۔ آٹھ سلنڈر اس گاڑی کی خاص بات اس کا منفرد ڈیزائیں اور کشادہ انٹیرئیر ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
راولپنڈی کی ایک سیاسی شخصیت اور سابق تحصیل ناظم راجہ حامد نواز بھی ہر دفعہ اپنے پرانے ماڈل کی گاڑیوں کے ساتھ اس کار شو میں نظر آتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی وہ اپنی انیس سو چھیاسٹھ ماڈل شیورلٹ کار کے ہمراہ شو میں شریک ہوئے۔
تصویر: DW/S. Raheem
امریکی کمپنی شیور لیٹ نے انیس سو تریپن میں پہلی سپورٹس کار سیریز "کوروٹ" کے نام سے متعارف کرائی اور پھر اس کی مقبولیت کبھی بھی کم نہ ہو سکی۔ زیر نظر تصویر انیس سو بیاسی میں تیار کی گئی ایک "کوروٹ" سیریز کار کی ہے۔ اس گاڑی کے مالک کا کہنا ہے کہ اس گاڑی کے انجن کی طاقت چھ ہزار سی سی ہے جس کی وجہ سے اس کی رفتار انتہائی تیز ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
کار شو میں ایک ایسی گاڑی بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز رہی جس کے مالک کا دعویٰ تھا کہ اس گاڑی کو انہوں نے مکمل طور پر اپنے ہاتھوں سے تیا ر کیا ہے یعنی کہ یہ ایک "ہینڈ میڈ گاڑی" ہونے کی وجہ سے لوگوں کو متوجہ کرنے میں کامیاب رہی۔