چھ ہزار یورو کے عوض دیگر یورپی ممالک کے لیے انسانی اسمگلنگ
19 جولائی 2019
یونان کے دو جزائر پر انسانی اسمگلنگ میں ملوث ایک درجن سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ گرفتار ہونے والے افراد مہاجرین کو جعلی دستاویزات فراہم کر کے دوسرے یورپی ممالک روانہ کرنے میں ملوث پائے گئے ہیں۔
اشتہار
یونان کے جزیروں ساموس اور کوس میں یونانی حکام نے دو مختلف گروپوں کو افراد کو حراست میں لیا، جو مہاجرین سے پیسے لے کر انہیں جعلی دستاویزات فراہم کرنے میں ملوث تھے۔ گرفتار ہونے والے ایک گروپ کے چھ افراد کوس ہوائی اڈے پر کام کرتے تھے۔
ان افراد کو رواں ہفتے کے دوران حراست میں لیا گیا تھا۔ ان افراد پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ یہ چھ ہزار یورو یا تقریباً چھ ہزار سات سو امریکی ڈالر کے عوض کسی بھی مہاجر کو جعلی دستاویزات فراہم کرتے تھے تا کہ وہ بذریعہ ہوائی جہاز کسی دوسرے یورپی ملک کے لیے روانہ ہو سکے۔ تفتیشی اہلکاروں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ مزید چھان بین سے کئی اور افراد بھی حراست میں لیے جا سکتے ہیں۔
یونانی پولیس نے مزید بتایا کہ ساموس جزیرے پر نو افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ یہ ایک دوسرے گروپ سے وابستہ ہیں اور ان کا کام کسی بھی مہاجر کو جعلی ہیلتھ سرٹیفیکٹ فراہم کرنا ہیں تا کہ وہ اس جزیرے سے باہر جا سکے اور پھر کسی دوسرے یورپی ملک پہنچنے کی کوششوں میں مصروف ہو جائے۔ پولیس حکام نے کہا ہے کہ تفتیشی عمل کا دائرہ وسیع کیا جا سکتا ہے۔
یونانی جزائر ساموس اور کوس میں مہاجرین کے کیمپوں میں گنجائش سے زائد سیاسی پناہ کے متلاشیوں کو رکھا گیا ہے۔ ان کیمپوں میں مناسب سہولیات کا بھی فقدان کی بھی خبریں گردش کرتی رہتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی مہاجرین کی ایجنسی گزشتہ برس یونانی حکومت سے ان کیمپوں کے لیے مزید سہولیات فراہم کرنے کا مطالبہ کر چکی ہے۔
اقوام متحدہ کی ایجنسی کے مطابق مہاجرین کے ایک کیمپ میں سات سو افراد کی گنجائش ہے لیکن وہاں ستائیس سو افراد رکھے گئے ہیں۔ اس وقت یونانی حکومت کی اجازت سے نو عمر بیمار بچے، بغیر والدین کے بچے اور بیمار بالغ افراد علاج معالجے کے لیے یونان کی مرکزی علاقے میں داخل ہونے کے مجاز ہیں۔
ع ح، ع ا، نیوز ایجنسیاں
سمندر کی آغوش میں موت تارکینِ وطن کی منتظر
مہاجرین کا بُحیرہ روم کے راستے یورپ کی جانب سفر دن بدن خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ سمندر میں ڈوبتے تارکین وطن کو بچانے والی امدادی تنظیمیں لیبیا پر اس حوالے سے معاونت کرنے میں ناکامی کا الزام عائد کرتی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Medina
ڈرامائی واقعہ
اس تصویر میں ایک مہاجر خاتون اور ایک بچے کی لاشیں ڈوبنے والی کشتی کے شکستہ ڈھانچے کے درمیان تیر رہی ہیں۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن برائے مہاجرت کے اطالوی دفتر کے ترجمان فلاویو ڈی جیاکومو نے اسے ’ڈرامائی واقعہ‘ قرار دیا۔
تصویر: Reuters/J. Medina
صدمے کے زیر اثر
یہ مہاجر خاتون ڈوبنے سے بچ گئی تھی۔ ایک غیر سرکاری ہسپانوی این جی او’ پرو آکٹیوا اوپن آرمز‘ کے عملے نے اس خاتون کو بچانے کے لیے امدادی کارروائی کی اور پھر اپنے جہاز پر لے آئے۔ اس خاتون کو غالباﹰ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے سمندر ہی میں چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ واپس لیبیا نہیں جانا چاہتی تھی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
کمپیوٹر اسکرین پر کشتی کی تلاش
جہاز کے کپتان مارک رائگ سرے اوس اور آپریشنل مینیجر انابل مونٹیس سمندر میں موجود کسی کشتی کے مقام کا تعین کر رہے ہیں۔ پرو آکٹیوا اوپن آرمز کے عملے کے ارکان کے خیال میں یہ مہاجرین کی کشتی بھی ہو سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/J. Medina
تباہ حال کشتی سے لپٹی خاتون
امدادی کارکن ایستھر کامپس سمندر میں ایسے مہاجرین کو ایک بہت بڑی دور بین کے ذریعے تلاش کر رہی ہیں جنہیں مدد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ گزشتہ ہفتے اس امدادی بحری جہاز کے عملے نے ایک تباہ حال کشتی سے لپٹی ہوئی ایک تارک وطن خاتون کو بچایا تھا۔ تاہم ایک اور خاتون اور بچے تک مدد پہنچنے میں دیر ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
لیبیا واپس نہیں جانا
جہاز کے عملے نے تصویر میں نظر آنے والی دو لاشوں کو پلاسٹک میں لپیٹ دیا ہے۔ پرو آکٹیوا کے بانی آسکر کامپس نے ایک ٹویٹ پیغام میں لکھا،’’ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے بتایا ہے کہ انہوں نے ایک سو اٹھاون مہاجرین سے بھری ایک کشتی کا راستہ روکا تھا۔ لیکن جو نہیں بتایا وہ یہ تھا کہ انہوں نے دو عورتوں اور ایک بچے کو کشتی ہی پر چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ لیبیا واپس نہیں جانا چاہتی تھیں اور وہ کشتی ڈوب گئی۔‘‘
تصویر: Reuters/J. Medina
اسپین کی طرف سفر
امدادی کارروائی کے بعد پروآکٹیوا کا ’آسترال‘ نامی جہاز اب اسپین کی ایک بندرگاہ کی جانب رواں دواں ہے۔