چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور پر تنقید، مداحوں کی بھی کمی نہیں
عبدالستار، اسلام آباد
17 جنوری 2019
پاکستانی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی عدالت عظمیٰ کے سربراہ کے طور پر سرکاری ذمے داریوں کا آج جمعرات سترہ جنوری کو آخری دن ہے۔ ان کے اس عہدے کی مدت پر پاکستان میں کئی حلقے واضح تنقید کر رہے ہیں تو کئی تعریف بھی۔
اشتہار
پاکستان میں موجودہ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر ملک کے کئی حلقوں میں ان کی طرف سے کیے جانے والے عدالتی اقدامات اور ان کی شخصیت پر بحث جاری ہے۔ کئی حلقے ان کے سخت ناقد بنے ہوئے ہیں جبکہ کئی لوگوں کی طرف سے چیف جستس ثاقب نثار کی حمایت بھی کی جا رہی ہے۔
ناقدین کا خیال ہے کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے جمہوریت، انسانی حقوق اور انصاف کے معاملے میں غیر جانبداری اور شفافیت کی بات تو کی تاہم ان کے اقدامات مبینہ طور پر اس بارے میں دعووں کی نفی کرتے رہے۔
ٹوئٹر پر ان کے حالیہ بیانات پر تنقید کا ایک پورا سیلاب امڈ آیا ہے۔ معروف صحافی اور کالم نگار مبشر زیدی نے کسی کا نام لیے بغیر ٹوئٹر پر لکھا، ’’بدبو دار کچرے کا ٹوکرا، تاریخ کے کوڑے دان میں۔‘‘ معروف تجزیہ نگار بابر ستار نے لکھا، ’’چیف جسٹس نے اپنے اختیارات کاغلط استعمال کر کے جس طرح سیاسی، معاشی اور قانونی بے یقینی پیدا کی، وہ کافی عرصے تک ہمیں اذیت دیتی رہے گی۔‘‘ اسی طرح معروف صحافی مطیع اللہ جان نے لکھا، ’’پاکستان کی سیاست کا ایک باب چوہدری نثار سے شروع ہو کر ثاقب نثار پر بند ہوگیا ہے۔‘‘
اس کافی سخت تنقید کے باوجود ملک میں کئی حلقے چیف جسٹس ثاقب نثار کے مداح بھی ہیں۔ اسکولوں کی فیس میں ہوش ربا اضافہ ہو یا ہسپتالوں اور سرکاری اداروں کی حالت زار، ان سب معاملات کا چیف جسٹس نے از خود نوٹس لے کر بہت سے پاکستانیوں کے دل جیت لیے تھے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی کارکردگی پر رد عمل ملا جلا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’آبادی، آلودگی، اسکولوں کی فیس اور ہسپتالوں کی حالت زار پر ان کے اقدامات کو عوام میں بڑی پذیرائی حاصل ہوئی۔ کئی لوگوں کے خیال میں بیوروکریسی صرف عدالتوں ہی سے ڈرتی ہے اور یہ خوف عدالتوں کی طرف سے از خود نوٹس لیے جانے کے واقعات سے پیدا ہوا۔ تاہم ان کی طرف سے لوگوں کی بے عزتی کرنے اور انتظامی معاملات میں دخل دینے سمیت کئی اقدامات نے ان کے خلاف تنقید کا راستہ بھی ہموار کیا۔‘‘
پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ انہوں نے طاقت ور جرنیلوں کو نکیل ڈالنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن چیف جسٹس ثاقب نثار پر ان کے ناقدین یہ الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے سیاست دانوں کے خلاف فیصلے دیے، جن سے جمہوریت کمزور ہوئی۔
2018: دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک
سن 2018 کے ’گلوبل ٹیررازم انڈیکس‘ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 64 فیصد کم رہی۔ اس انڈیکس کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردی کے شکار ممالک یہ رہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
عراق
گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس عراق میں دہشت گردی کے واقعات میں 4271 افراد ہلاک ہوئے جب کہ سن 2016 میں یہ تعداد قریب 10 ہزار تھی۔ داعش کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں 52 فیصد کمی ہوئی۔ اس کے باوجود عراق دہشت گردی کے شکار ممالک کی فہرست میں گزشتہ مسلسل چودہ برس سے سر فہرست رہا۔ عراق کا جی ٹی آئی اسکور دس سے کم ہو کر 9.75 رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP
افغانستان
تازہ رپورٹ کے مطابق افغانستان اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے تاہم اس برس افغانستان میں دہشت گردی کے سبب ہلاکتوں کی تعداد عراق سے بھی زیادہ رہی۔ گزشتہ برس افغانستان میں قریب بارہ سو دہشت گردانہ حملوں میں 4653 افراد ہلاک جب کہ پانچ ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ زیادہ تر حملے طالبان نے کیے جن میں پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.39 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
نائجیریا
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں جی ٹی آئی اسکور 8.66 کے ساتھ نائجیریا اس تیسرے نمبر پر ہے۔ سن 2017 کے دوران نائجیریا میں دہشت گردی کے سبب ہلاکتوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے کچھ زائد رہی جو اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں سولہ فیصد کم ہے۔
تصویر: Reuters/Stringer
شام
سن 2016 کی نسبت گزشتہ برس شام میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد اڑتالیس فیصد کم رہی۔ اس کے باوجود خانہ جنگی کا شکار یہ ملک قریب گیارہ سو ہلاکتوں کے ساتھ دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران شام میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں زیادہ تر داعش اور النصرہ کے شدت پسند ملوث تھے۔ شام کا اسکور 8.6 سے کم ہو کر اس رپورٹ میں 8.3 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP
پاکستان
پانچویں نمبر پر پاکستان ہے جہاں گزشتہ برس 576 دہشت گردانہ واقعات میں ساڑھے آٹھ سو انسان ہلاک ہوئے۔ 2016ء کے مقابلے میں گزشتہ برس تحریک طالبان پاکستان کی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 17 فیصد کم رہی۔ داعش خراسان کے حملوں میں 50 فیصد جب کہ لشکر جھنگوی کے حملوں کے باعث ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں 17 فیصد اضافہ ہوا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
صومالیہ
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی امسالہ فہرست میں صومالیہ چھٹے نمبر پر رہا، گزشتہ انڈیکس میں صومالیہ ساتویں نمبر پر تھا۔ اس ملک میں الشباب تنظیم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے نوے فیصد سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ صومالیہ میں دہشت گردی کے سبب ہلاکتوں کی تعداد میں 93 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں صومالیہ کا اسکور 7.6 سے بڑھ کر 8.02 ہو گیا۔
تصویر: picture alliance/dpa/AAS. Mohamed
بھارت
بھارت بھی اس فہرست میں آٹھ کی بجائے ساتویں نمبر پر آ گیا۔ دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا جب کہ ہلاکتوں کی تعداد میں بھی بارہ فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔ سن 2017 میں مجموعی طور پر 384 بھارتی شہری دہشت گردی کا نشانہ بن کر ہلاک جب کہ چھ سو سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ انڈیکس کے مطابق بھارت کے مشرقی حصے میں ہونے والی زیادہ تر دہشت گردانہ کارروائیاں ماؤ نواز باغیوں نے کیں۔ بھارت کا اسکور 7.57 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Seelam
یمن
یمن میں متحارب گروہوں اور سعودی قیادت میں حوثیوں کے خلاف جاری جنگ کے علاوہ اس ملک کو دہشت گردانہ حملوں کا بھی سامنا ہے۔ تاہم سن 2016 کے مقابلے میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد 75 فیصد کم رہی۔ مجموعی طور پر دہشت گردی کے 141 واقعات میں 378 افراد ہلاک ہوئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں حوثی شدت پسندوں کے علاوہ القاعدہ کی ایک شاخ کے دہشت گرد ملوث تھے۔ گزشتہ انڈیکس میں یمن چھٹے نمبر پر تھا۔
تصویر: Reuters/F. Salman
مصر
مصر ایک مرتبہ پھر دہشت گردی سے متاثرہ ٹاپ ٹین ممالک میں شامل ہو گیا۔ 169 دہشت گردانہ واقعات میں 655 افراد ہلاک ہوئے۔ زیادہ تر حملے داعش کے گروہ نے کیے۔ مصر کا جی ٹی آئی اسکور 7.35 رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Abdallah
فلپائن
دہشت گردی کے 486 واقعات میں 326 انسانوں کی ہلاکتوں کے ساتھ فلپائن بھی ٹاپ ٹین میں شامل کیا گیا۔ فلپائن کا انڈیکس اسکور 7.2 رہا۔ فلپائن میں پینتیس فیصد حملوں کی ذمہ داری کمیونسٹ ’نیو پیپلز آرمی‘ نے قبول کی جب کہ داعش کے ابوسیاف گروپ کے حملوں میں بھی اٹھارہ فیصد اضافہ ہوا۔
تصویر: Reuters/E. de Castro
ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو
گلوبل ٹیررازم انڈیکس میں 7.05 کے اسکور کے ساتھ گیارہویں نمبر جمہوری جمہوریہ کانگو ہے۔
تصویر: DW/J. Kanyunyu
ترکی
ترکی گزشتہ انڈیکس میں پہلی مرتبہ پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔ اس برس ترکی میں دہشت گردی کے واقعات اور ان کے سبب ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کم ہوئی۔ موجودہ انڈیکس میں ترکی کا اسکور 7.03 رہا۔ دہشت گردی کے زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری پی کے کے اور ٹی اے کے نامی کرد شدت پسند تنظیموں نے قبول کی جب کہ داعش بھی ترک سرزمین پر دہشت گردانہ حملے کیے۔
تصویر: Reuters/Y. Karahan
لیبیا
لیبیا میں معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہ ملک تیزی سے دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا۔ گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق 2016ء میں لیبیا میں 333 دہشت گردانہ حملوں میں پونے چار سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔ دہشت گردی کی اکثر کارروائیاں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے منسلک مختلف گروہوں نے کیں۔ گزشتہ انڈیکس میں لیبیا 7.2 کے اسکور کے ساتھ دسویں جب کہ تازہ انڈیکس میں 6.99 اسکور کے ساتھ تیرہویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Reuters/H. Amara
13 تصاویر1 | 13
معروف سیاست دان سینیٹر عثمان کاکڑ کے خیال میں ان کے دور میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ انصاف کے معیار دوہرے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’لوگوں نے اس بات کو محسوس کیا کہ چیف جسٹس صاحب حزب اختلاف اور نواز شریف کے خلاف زیادہ سخت تھے لیکن چاہے بنی گالہ کا مسئلہ ہو یا پھر علیمہ خان کی املاک کا، اس میں حکومت اور حکومت سے وابستہ لوگوں کی طرف ان کا رویہ مبینہ طور پر نرم نظر آیا۔ سیاست دانوں کے خلاف فیصلوں کی وجہ سے ملک میں جمہوریت کمزور ہوئیِ‘‘
پاکستانی انتخابات: بڑے سیاسی برج جو ’ہیں‘ سے ’تھے‘ ہو گئے
پاکستان میں پچیس جولائی کے عام انتخابات کے جزوی، غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق کئی بڑے سیاسی برج، جو نئی قومی اسمبلی میں اپنی رکنیت کی امیدیں لگائے بیٹھے تھے، اپنی ناکامی کے ساتھ اب ’ہیں‘ سے ’تھے‘ ہو گئے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
شاہد خاقان عباسی
پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے دو انتخابی حلقوں این اے 53 اور این اے 57 سے امیدوار تھے۔ انہیں ایک حلقے سے قریب 48 ہزار ووٹوں اور دوسرے سے تقریباﹰ چھ ہزار ووٹوں کے فرق سے شکست ہوئی۔ اسلام آباد سے انہیں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ہرایا۔
تصویر: Reuters/D. Jorgic
مولانا فضل الرحمٰن
جمعیت علمائے اسلام (ایف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، تصویر میں دائیں، صوبے خیبر پختونخوا سے قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے امیدوار تھے۔ وہ ان دونوں حلقوں سے متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے نامزد کردہ رہنما تھے۔ وہ دونوں ہی حلقوں سے کافی واضح فرق کے ساتھ تحریک انصاف کے امیدواروں سے ہار گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سراج الحق
پاکستان کی ایک مذہبی سیاسی پارٹی، جماعت اسلامی کے امیر اور متحدہ مجلس عمل کے نامزد کردہ امیدوار سراج الحق صوبے خیبر پختونخوا میں حلقہ این اے سات (لوئر دیر) سے الیکشن میں حصہ لے رہے تھے۔ ان کی ناکامی بہت بڑی اور انتہائی غیر متوقع تھی۔ سراج الحق کو پی ٹی آئی کے امیدوار محمد بشیر خان نے 62 ہزار سے زائد ووٹ لے کر قریب 17 ہزار ووٹوں سے ہرایا۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Tabassum
خواجہ سعد رفیق
پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک مرکزی رہنما اور ریلوے کے سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق کا لاہور میں حلقہ این اے 131 میں انتہائی کانٹے دار مقابلہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے تھا۔ سعد رفیق کو 83 ہزار 633 ووٹ ملے جبکہ فاتح امیدوار عمران خان کو 84 ہزار 313 رائے دہندگان کی حمایت حاصل ہوئی۔ اس کے برعکس سعد رفیق لاہور سے پنجاب اسمبلی کی ایک نشست پر کامیاب ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/EPA/T. Mughal
چوہدری نثار علی خان
ماضی میں برس ہا برس تک مسلم لیگ ن کی طرف سے انتخابات میں حصہ لینے والے سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ایک آزاد امیدوار کے طور پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ایک ایک حلقے سے امیدوار تھے۔ وہ دونوں حلقوں سے پی ٹی آئی کے ہاتھوں ہارے۔ یہ 1985ء سے لے کر آج تک پہلا موقع ہے کہ چوہدری نثار راولپنڈی سے اپنی پارلیمانی نشست جیتنے میں ناکام رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Mughal
عابد شیر علی
مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے امیدوار اور پانی اور بجلی کے سابق وفاقی وزیر عابد شیر علی، تصویر میں بائیں، فیصل آباد میں قومی اسمبلی کے ایک حلقے سے بہت تھوڑے فرق (1200 ووٹوں) سے ہارے۔ عابد شیر علی فیصل آباد میں جس انتخابی حلقے سے ہارے، وہ مسلم لیگ ن کا ایک بڑا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔
تصویر: Imago/ZUMA Press
مصطفےٰ کمال
ماضی میں ایم کیو ایم کی طرف سے کراچی کے میئر کے عہدے پر فائز رہنے والے مصطفےٰ کمال، جو اس وقت پاکستان سرزمین پارٹی کے رہنما ہیں، کراچی سے دو حلقوں سے قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے امیدوار تھے۔ انہیں ان دونوں ہی حلقوں میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
تصویر: DW/U. Fatima
غلام احمد بلور
عوامی نیشنل پارٹی کے سرکردہ رہنما اور طویل عرصے سے ملکی سیاست میں اہم انفرادی اور پارٹی کردار ادا کرنے والے غلام احمد بلور انتخابی حلقہ این اے 31 سے الیکشن لڑ رہے تھے۔ انہیں بھی پاکستان تحریک انصاف کے ایک امیدوار نے ہرایا۔ ان کے شوکت علی نامی حریف امیدوار کو 88 ہزار ووٹوں کی صورت میں مقامی رائے دہندگان کی متاثر کن حمایت حاصل ہوئی۔
تصویر: Reuters
فاروق ستار
کراچی کے سابق میئر اور ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما فاروق ستار، وسط میں، نے کراچی سے قومی اسمبلی کی دو نشستوں سے الیکشن میں حصہ لیا۔ این اے 245 میں وہ پی ٹی آئی کے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین سے واضح فرق سے شکست کھا گئے۔ این اے 247 میں فاروق ستار کا مقابلہ پی ٹی آئی کے ڈاکٹر عارف علوی سے تھا۔ اس حلقے کے جزوی، غیر حتمی نتائج کے مطابق عارف علوی کو بھی ووٹوں کی تعداد کے لحاظ سے فاروق ستار پر برتری حاصل ہے۔
تصویر: DW/U. Fatima
9 تصاویر1 | 9
سینیٹر عثمان کاکڑ کا کہنا ہے کہ انتظامی معاملات میں مداخلت کی وجہ سے عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد بہت بڑھ گئی۔ کئی ناقدین کے خیال میں عثمان کاکڑ کی اس بات میں حقیقت کا عکس موجود ہے۔
مثال کے طور پر حالیہ ہفتوں میں کچھ اراکین پارلیمان کو بتایا گیا کہ صرف سپریم کورٹ اور اعلیٰ عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد تین لاکھ کے قریب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کل بروز بدھ چیف جسٹس ثاقب نثار نے یہ کہا کہ پاکستان کا عدالتی نظام دنیا کا بہترین عدالتی نظام ہے، تو اس پر کئی حلقوں کو حیرت بھی ہوئی اور انہوں نے اس پر سخت تنقید بھی کی۔
متعدد ناقدین نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ صرف سپریم کورٹ میں ہی چالیس ہزار کے قریب مقدمات زیر التوا ہیں۔ ایسے مقدمات کی تعداد دوہزار تیرہ میں بیس ہزار چار سو اسی تھی ، جو پندرہ اگست دوہزار اٹھارہ تک تقریباﹰ دگنی ہو کر چالیس ہزار پانچ سو چالیس ہوگئی تھی۔
انسانی حقوق کے کارکنان بھی چیف جسٹس ثاقب نثار سے نالاں ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ عدالت عظمیٰ کے سربراہ نے مبینہ طور پر طاقت ور قوتوں کے اشارے پر انسانی حقوق سے متعلق اہم مسائل نظر انداز کیے۔ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کام کرنے والے ماما قدیر بلوچ نے دعویٰ کیا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں لاپتہ افراد کے حوالے سے ’کچھ بھی نہیں کیا گیا‘۔
کپتان سے وزیر اعظم تک
پاکستان کی قومی اسمبلی کے اراکین نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو ملک کا نیا وزیراعظم منتخب کر لیا ہے۔
تصویر: Getty Images
بطور وزیراعظم حلف
ہفتہ یعنی اٹھارہ اگست کو تقریب حلف برداری میں عمران خان بطور وزیر اعظم حلف اٹھائیں گے۔
تصویر: picture alliance/dpa/MAXPPP/Kyodo
کرکٹر
عمران خان پانچ اکتوبر 1952ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ بچپن سے ہی کرکٹ میں دلچسپی تھی اور ان کا شمار پاکستان کرکٹ ٹیم کےکامیاب ترین کپتانوں میں ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Dinodia Photo Library
سیاست میں قدم
عمران خان نے تبدیلی اور حکومتی بدعنوانی کے خاتمے کے نعرے کے ساتھ ایرپل 1996ء میں پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی۔ ایک کرکٹ لیجنڈ ہونے کے باوجود انہیں ابتدا میں سیاسی میدان میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K.M. Chaudary
نوجوانوں کا ’ہیرو‘
پاکستان میں ’دو پارٹیوں کی سیاست‘ کے خاتمے کے لیے جب عمران خان نے سیاسی میدان میں قد م رکھا تو نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے انہیں خوش آمدید کہا۔
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images
حادثہ
2013ء کے انتخابات گیارہ مئی کو منقعد ہوئے تھے۔ تاہم عمران خان سات مئی کو اس وقت ایک لفٹر سے گر کر زخمی ہو گئے تھے، جب انہیں لاہور میں ہونے والے ایک جلسے سے خطاب کے لیے اسٹیج پر لے جایا جا رہا تھا۔
تصویر: Getty Images
’امید‘
کہا جاتا ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت اپنے عروج پر تھی تاہم عمران خان کی جماعت 27 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی تھی۔ مسلم لیگ نون کی حکومت قائم ہوئی اور عمران خان نے حکمران جماعت پر الیکشن میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
’میں اسپورٹس مین ہوں‘
2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف اپنی توقعات کے مطابق ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی تھی۔ اس موقع پر جب بھی عمران خان سے پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے سوال کیا جاتا تو وہ اکثر کہتے تھےکہ انہوں نے زندگی بھر کرکٹ کھیلی ہے۔ وہ ایک اسپورٹس مین ہیں اور شکست سے گھبراتے نہیں ہیں۔
تصویر: Reuters
جلسے جلوس
عمران خان نے حالیہ انتخابات سے قبل ملک بھر میں جلسے کیے۔ مبصرین کی رائے تحریک انصاف کے ان جلسوں نے حامیوں کو متحرک کرنے اہم کردار ادا کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عمران خان وزیر اعظم منتخب
عمران خان کی جماعت نے 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں اکثریتی ووٹ حاصل کیے تھے۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف اتنے ووٹ حاصل نہیں کر پائی تھی کہ وہ سیاسی جماعتوں سے اتحاد کے بغیر حکومت قائم کر سکے۔ وزیر اعظم کے عہدے کے لیے عمران خان کا مقابلہ پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما شہباز شریف سے تھا۔ عمران خان کو 176جبکہ شہباز شریف کو 96 ووٹ ملے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
9 تصاویر1 | 9
انہوں نے کہا، ’’سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دور میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے عدالت نے کئی بار مقدمات کی سماعت کی تھی اور یہاں تک کہا تھا کہ ایف سی اور ایجنسیاں اغواء کے ان واقعات میں ملوث ہیں۔ لیکن چیف جسٹس ثاقب نثار نے لاپتہ افراد کے لواحقین کی شکایات سننے کے بجائے یہ کہا کہ لاپتہ افراد افغانستان یا کہیں اور چلے گئے ہیں۔ انہوں نے اپنے دور میں ایک بار بھی لاپتہ افراد کے حوالے سے کسی مقدمے کی سماعت نہیں کی۔ انہوں نے ہمیں بہت مایوس کیا ہے۔‘‘
قوم پرست رہنماؤں کے خیال میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے معاملے میں بیانات دے کر قوم کو ایک متفقہ مسئلے پر تقسیم کرنے کی کوشش کی جب کہ چھوٹے صوبوں سے کئی ناقدین یہ الزامات بھی لگاتے ہیں کہ انہوں نے ’اٹھارہویں ترمیم کو متنازعہ بنانے‘ کی کوشش بھی کی۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرف سے ڈیم کے لیے چندہ جمع کرنے کی مہم پر بھی اس وقت شدید تنقید کی گئی جب میڈیا نے یہ بتایا کہ ڈیم کے لیے تیرہ ارب روپے کے مفت اشتہار دیے گئے جب کہ چندہ صرف نو ارب روپے جمع ہوا۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی طرف سے ازخود نوٹس لیے جانے کے واقعات پر بار کو تو اعتراضات تھے لیکن آج جمعرات سترہ جنوری کو جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بھی کہہ دیا ہے کہ ازخود نوٹس لینے کے حوالے سے شرائط و معیارات طے کیے جائیں گے۔
نواز شریف: تین مرتبہ پاکستان کا ’ادھورا وزیراعظم‘
پچیس دسمبر 1949 کو پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔ نواز شریف تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے، لیکن تینوں مرتبہ اپنے عہدے کی مدت مکمل نہ کر سکے۔
تصویر: Reuters
سیاست کا آغاز
لاھور کے ایک کاروباری گھرانے میں پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز سن ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔
تصویر: AP
پنجاب کا اقتدار
جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف سن 1985 میں پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔
تصویر: AP
وفاقی سطح پر سیاست کا آغاز
سن 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں اقتدار میں آئی اور بینظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ اس وقت نواز شریف پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تاہم اسی دور میں وہ ملک کی وفاقی سیاست میں داخل ہوئے اور دو برس بعد اگلے ملکی انتخابات میں وہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار بنے۔
تصویر: AP
پہلی وزارت عظمیٰ
پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ کے طور پر میاں محمد نواز شریف سن 1990 میں پہلی مرتبہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ان کے دور اقتدار میں ان کا خاندانی کاروبار بھی پھیلنا شروع ہوا جس کے باعث ان کے خلاف مبینہ کرپشن کے شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
تصویر: AP
وزارت عظمیٰ سے معزولی
سن 1993 میں اس وقت کے وفاقی صدر غلام اسحاق خان نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے معزول کر دیا۔ نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ کا رخ کیا۔ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے نواز شریف کی حکومت بحال کر دی تاہم ملک کی طاقتور فوج کے دباؤ کے باعث نواز شریف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: AP
دوسری بار وزیر اعظم
میاں محمد نواز شریف کی سیاسی جماعت سن 1997 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی جس کے بعد وہ دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔
تصویر: AP
فوجی بغاوت اور پھر سے اقتدار کا خاتمہ
نواز شریف دوسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ حکومت اور ملکی فوج کے مابین تعلقات کشیدگی کا شکار رہے اور فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کے اعلان کے بعد فوج نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔
تصویر: AP
جلا وطنی اور پھر وطن واپسی
جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیک کرنے اور دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم بعد ازاں انہیں جلاوطن کر دیا گیا۔ جلاوطنی کے دور ہی میں نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے ’میثاق جمہوریت‘ پر دستخط کیے۔ سن 2007 میں سعودی شاہی خاندان کے تعاون سے نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔
تصویر: AP
تیسری مرتبہ وزیر اعظم
سن 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون ایک مرتبہ پھر عام انتخابات میں کامیاب ہوئی اور نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں مسلسل پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پھر ’ادھوری وزارت عظمیٰ‘
نواز شریف تیسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں ناکام ہوئے۔ سن 2016 میں پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا اور آخرکار اٹھائی جولائی سن 2017 کو ملکی عدالت عظمیٰ نے انہیں نااہل قرار دے دیا۔