1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیات

پاکستان میں چینی سرمایہ کاری: تاجر اور صنعت کار منقسم

عبدالستار، اسلام آباد
3 فروری 2017

پاکستان میں چینی سرمایہ کاری اوراس کے ممکنہ طور پر مقامی صنعت پر منفی اثرات کے حوالے سے اب ملک میں بحث شروع ہوگئی ہے۔کچھ سرمایہ کار اس کے حق میں ہیں جبکہ کئی دیگر کو اس پر تحفظات ہیں۔

Pakistan Hafen Gwadar
تصویر: picture-alliance/dpa

اس مسئلے پر بات چیت کرتے ہوئے فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سابق صدر مزمل سلطان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’حکومت یہ نہیں بتا رہی کہ چینی سرمایہ کار کِن شعبوں میں آرہے ہیں اور اس سے مقامی صنعت کو کیا نقصانا ت ہو سکتے ہیں۔ چینیوں کو یہاں کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔ ان کےلیے ویزے کی شرائط انتہائی نرم ہیں۔ وہ یہاں پر زمینیں بھی خرید رہے ہیں جب کہ پاکستانی سرمایہ کاروں کو چینی ویزے کے حصول میں کئی دشواریوں کا سامنا ہے۔ بعض اوقات مہینوں ان کی درخواستیں پڑی رہتی ہیں۔ ویزے کی درخواست کے ساتھ کئی طرح کے کاغذات کا بھی مطالبہ کیا جاتا ہے اور ویزے جاری بھی بہت محدود وقت کے لیے کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ان کے آنے سے ٹیکسٹائل اور فینسی مصنوعات سمیت کئی دیگر شعبے متاثر ہوں گے۔ صرف ٹیکسٹائل سے ہی چالیس لاکھ افراد کا روزگار پنجاب میں وابستہ ہے جب کہ لاکھوں لوگ کراچی اور ملک کے دوسرے حصوں میں بھی اس شعبے سے وابستہ ہیں۔ چین پہلے ہی چلڈرن گارمنٹس میں سستی مصنوعات مارکیٹ میں ڈمپ کر رہا ہے، جس سے مقامی صنعت کو شدید نقصان کا سامنا ہے۔ قوی امکان ہے چینی سرمایہ کاری ٹیکسٹائل کے شعبے کو بہت بری طرح متاثر کرے گی، جس سے لاکھوں افراد کا روزگار بھی متاثر ہوگا۔‘‘


ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’جس طرح کی سہولیات چینی سرمایہ کاروں کو دی جارہی ہیں، اگر ایسی ہی سہولیا ت مقامی صنعت کاروں اور تاجروں کو دی جائیں تو ملکی معیشت بہت بہتر ہو سکتی ہے۔ یہاں تو صورتِ حال یہ ہے کہ ایف بی آرصنعت کاروں کے اربوں روپے ری بیٹ کی مدد میں روکے ہوئے ہیں۔ ایک سرمایہ کار اگر دس کروڑ کماتا ہے تو چار کروڑ ایف بی آر روک لیتا ہے۔ اس کے علاوہ ایران و افغانستان سے ہونے والی اسمگلنگ سے بھی مقامی صنعت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ حکومت اسے کیوں نہیں روکتی تاکہ مقامی صنعت ترقی کر سکے۔‘‘

اگر ہمیں سہولیات دی جائیں تو ہم تیرہ بلین ڈالرز کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کو چھتیس بلین ڈالرز تک لے کر جا سکتے ہیں، جس سے تیئس لاکھ افراد کو روزگار مل سکتا ہے، اشرف رضوانتصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan


اسی چیمبر کے ایک اور سابق صدر اشرف رضوان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ٹیکسٹائل ملکی صنعت میں ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتی ہے لیکن حکومت کو خود پتہ نہیں کہ چینی سرمایہ کاری کس طرح اس صنعت کو متاثر کرے گی۔ ہمیں خدشہ ہے کہ وہ نہ صرف مقامی صنعتوں کو خریدیں گے، جیسا کہ انہوں نے ڈاؤلینس فریج کے ساتھ کیا، بلکہ یہ ان صنعتوں میں بھی پیسہ لگائیں گے، جو مقامی معیشت میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ٹیکسٹائل، الیکٹریکل اپلائنسس اور کئی دوسرے شعبے چینی سرمایہ کاری سے متاثر ہوسکتے ہیں۔‘‘


ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’حکومت چینی سرمایہ کاروں کو نوازنے کے لیے تو تیار ہے لیکن جب ہم نے بیمار صنعتوں کو پھر سے چلانے کی بات کی تو ہمیں کوئی بیل آؤٹ پیکج نہیں دیا گیا۔ صرف سو بلین روپے سے ان صنعتوں کو دوبارہ سے فعال کیا جا سکتا ہے اور اگر ہمیں سہولیات دی جائیں تو ہم تیرہ بلین ڈالرز کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کو چھتیس بلین ڈالرز تک لے کر جا سکتے ہیں، جس سے تیئس لاکھ افراد کو روزگار مل سکتا ہے۔ ویت نام ایک چھوٹا سا ملک ہے اور اس کی ٹیکسٹائل کی برآمدت ایک سو پچیس بلین ڈالرز ہے۔ بنگلہ دیش کی اٹھائیس بلین ڈالرز ہے۔ تو ہماری برآمدت بھی اوپر جا سکتی ہیں۔‘‘
لیکن سارے ہی صنعت کار و تاجر اس سرمایہ کاری میں نقصانات نہیں دیکھ رہے۔ کئی سرمایہ کار اس کو پاکستان کے لیے بہت مفید سمجھتے ہیں۔ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سابق سینیئرنائب صدر الماس حیدر نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’مجھے چینی سرکاری میں کوئی نقصان نظر نہیں آتا۔ وہ ٹیکنالوجی اور اسکل لے کر آئیں گے، جس سے مسابقت بڑھے گی اور ملکی صنعت میں بہتری آئے گی۔ اس کے علاوہ لوگوں کو بھی سستی مصنوعات میسر آئیں گی۔‘‘

چینیوں کو یہاں کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔ ان کےلیے ویزے کی شرائط انتہائی نرم ہیں۔ وہ یہاں پر زمینیں بھی خرید رہے ہیں جب کہ پاکستانی سرمایہ کاروں کو چینی ویزے کے حصول میں کئی دشواریوں کا سامنا ہے، مزمل سلطانتصویر: DW


کراچی کے معروف صنعت کار احمد چنائے بھی الماس حیدر کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’چینی سرمایہ کاری سے سیمنٹ، سریا، کیمیکل اور کنزیومر گُڈز کے شعبوں میں بنی ہوئی کارٹیل ٹوٹیں گی۔ اب دیکھیں کہ کچھ لوگ دودھ ستر روپے میں لے کر مارکیٹ میں ایک سو بیس روپے کا بیچ رہے ہیں۔ ایک کلو مرغی کو نوے روپے میں لے کر پراسیسنگ کے بعد اسے تین سو پچاس میں بیچا جارہا ہے۔ دوائیوں میں جو چیز بھارت میں پچیس پیسے کی ہے، یہاں وہ چار روپے کی ملتی ہے۔ سیمنٹ اور اسٹیل میں اتنا منافع ہے کہ شائد ہی دنیا کے دوسرے ممالک میں اتنا ہو۔ لیکن اس کے باوجود کئی مصنوعات کا معیار انتہائی نا مناسب ہے کیونکہ ان کا احتساب کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ دبئی سے آپ پیناڈول خریدیں اور اس کا موازنہ یہاں کی گولی سے کریں تو فوراﹰ معیار کا پتہ چل جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ اس سے متاثر کون ہوتا ہے۔ یقیناًعوام، جن کو مہنگی اور غیر معیاری اشیاء دی جاتی ہیں۔ چینی سرمایہ کاری سے تمام شعبوں میں مقابلے کا رجحان پیدا ہوگا، جس سے معیار بھی اچھا ہوگا، کارٹیل بھی ٹوٹیں گی اور چیزیں بھی سستی ہوں گی۔‘‘

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں