1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چینی امریکی قربت کے باوجود یورپ کی حیثیت اپنی جگہ

7 جون 2013

ایک محاورہ ہے کہ جب دو لوگ آپس میں دوست بن جاتے ہیں تو تیسرا بےوقوف ہو سکتا ہے۔ کیلیفورنیا میں چینی امریکی سربراہی ملاقات کو تجسس سے دیکھنے والے یورپ کی حالت بھی ایسی ہو سکتی ہے، جو دنیا میں اپنے مقام کی تلاش میں ہے۔

امریکی ریاست کیلیفورنیا میں صدر اوباما اور ان کے چینی ہم منصب کی ملاقات کو تقریبا دو برابر کے پارٹنرز کی ملاقات کا نام دیا جا سکتا ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ دونوں ہی ایک دوسرے کے حریف بھی ہیں۔ امریکا دنیا کی سب سے بڑی اور چین تیسری سب سے بڑی اقتصادی طاقت ہے۔ درمیان کی جگہ اپنے ستائیس رکن ملکوں کے ساتھ یورپی یونین کی ہے، جس کی مجموعی اقتصادی کارکردگی کے باعث یہ بلاک عالمی سطح پر دوسرے نمبر ہے۔

امریکی صدر اوباما اور چینی صدر شی جن پنگتصویر: Reuters

چین سمجھتا ہے کہ وہ ایک ایسے راستے پر گامزن ہے، جہاں سے ہوتے ہوئے وہ ایک ایسے نئے عالمی نظام کا حصہ بن سکتا ہے، جسے جی ٹو کا نام دیا جا سکتا ہے۔ دنیا کی دو سب سے بڑی اقتصادی طاقتوں پر مشتمل گروپ ٹو، یعنی امریکا اور چین۔

چینی دارالحکومت بیجنگ کی سِنگ ہُووا یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات یان شُوئے تَونگ کہتے ہیں کہ چینی امریکی تعلقات مستقبل میں دنیا کے اہم ترین اور سب سے زیادہ بااثر دوطرفہ روابط ہوں گے۔ لندن میں خارجہ تعلقات کی یورپی کونسل کے ایک فورم سے خطاب کرتے ہوئے یان شُوئے تَونگ نے ابھی حال ہی میں کہا کہ آنے والے برسوں میں کسی بھی دو فریقین کے مابین تعلقات اتنے اہم نہیں ہوں گے جتنے کہ واشنگٹن اور بیجنگ کے باہمی روابط۔

امریکی صدر اوباما کے سابقہ سکیورٹی مشیر ٹامس ڈَونیلن نے کچھ عرصہ قبل وائٹ ہاؤس میں ایک بریفنگ کے دوران صحافیوں کو بتایا تھا کہ امریکا اپنی خارجہ سیاست میں آئندہ ایشیا اور خاص کر چین پر خصوصی توجہ دے گا۔

اس پر ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا یورپی ملکوں کو اس پیش رفت پر تشویش کا اظہار کرنا چاہیے۔ آیا امریکا نے چین کے ساتھ قریبی تعاون کا اشارہ دے کر اپنے یورپ کے ساتھ اشتراک عمل کو نظر انداز کر دیا ہے۔ آج تک بحر اوقیانوس کے آر پار مثالی تعلقات کی بات ہوتی تھی تو کیا اب واشنگٹن کے لیے بحر اوقیانوس کے مقابلے میں بحرالکاہل اور چین زیادہ اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔

چینی صدر کی کیلیفورنیا آمد سے قبل ان کے حامی چینی پرچم اٹھائے ہوئےتصویر: picture-alliance/AP

جرمن ترقی پسندوں کی جماعت ایف ڈی پی سے تعلق رکھنے والے یورپی پارلیمان کے خارجہ تعلقات کے ماہر رکن آلیکسانڈر گراف لامبزڈورف کہتے ہیں کہ بین الاقوامی تعلقات کے اس منظر نامے میں یورپ کے لیے تشویش یا حسد کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نہ تو امریکا کے چین کے ساتھ روابط کا واشنگٹن کے یورپ کے ساتھ تعلقات سے موازنہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی یورپ کے واشنگٹن کے ساتھ رشتوں کا موازنہ برسلز کے بیجنگ سے تعلقات کے ساتھ۔

اس حوالے سے یورپی کمیشن کے صدر باروسو کا وہ بیان بھی اہم ہے، جو انہوں نے گزشتہ برس چینی یورپی سربراہی کانفرنس کے بعد دیا تھا۔ باروسو کے مطابق چین اور یورپی یونین کے باہمی تعلقات اس حقیقت کی ایک مثال ہیں کہ ایک کثیر القطبی دنیا میں دو بڑے پارٹنر مل کر کیسے کام کر سکتے ہیں۔ کیلیفورینا میں چینی امریکی سمٹ کے پس منظر میں یورپ کا اپنے حوالے سے بجا طور پر یہی ‌خیال ہے۔

B. Riegert, mm / T. Kohlmann, shs

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں