چین کا چانگ چہارم مشن چاند کے ’تاریک حصے‘ میں اتر گیا ہے۔ چاند کی یہ سطح انسانی آنکھ سے اوجھل رہی ہے اور اس سے قبل کوئی تحقیقاتی مشن چاند کی اس پرلی طرف نہیں اتارا گیا تھا۔
اشتہار
یہ روبوٹک مشن چاند کے اس حصے کی جیولوجی کا مطالعہ کرے گا، جس سے یہ معلوم ہو پائے گا کہ چاند کی تخلیق کیسے اور کن حالات میں ہوئی تھی۔
چینی نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی نے جمعرات کی صبح بتایا کہ چانگ چہارم مشن کامیابی سے چاند کی سطح پر اتارا جا چکا ہے۔ خلائی تحقیق کے شعبے میں یہ ایک بہت بڑی پیش رفت یوں ہے کہ چاند کا وہ حصہ جو زمین سے کبھی نہیں دیکھا جا سکا، اب پہلی مرتبہ کسی انسانی تحقیقاتی مشن کے مطالعے سے گزر رہا ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ زمین کی زبردست کشش کی وجہ سے چاند زمین کے ساتھ کچھ اس طرح بندھا ہوا ہے کہ اس کا ایک حصے زمین کی طرف ہے اور دوسرا پرلی طرف جسے زمین پر موجود ناظر براہ راست کبھی نہیں دیکھ سکتا۔
بتایا گیا ہے کہ یہ روبوٹک مشن عالمی وقت کے مطابق رات دو بج کر چھبیس منٹ پر چاند کی سطح پر اترا۔
چاند کی تاریک سطح ہے کیا؟
چاند زمین کے گرد گردش تو کر رہا ہے، مگر زمین کی زبردست قوت تجاذب سے اس طرح بندھا ہوا ہے کہ زمین پر بسنے والوں کی نگاہ اس کے صرف اس حصے پر پڑ سکتی ہے، جو زمین کی طرف ہے۔ جب کہ اس کا ایک حصے ہمیشہ سے انسانی آنکھ سے اوجھل رہا ہے۔ ماضی میں خلا سے اس حصے کی تصاویر لی گئی تھیں، تاہم سائنس دانوں کے لیے اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ تاریک حصہ اس حصے سے بالکل ہی مختلف ہے، جو زمین سے دیکھا جاتا ہے۔
چاند کے قصے
چودھویں کے چاند کے حوالے سے دنیا کی قریب ہر تہذیب میں مختلف طرز کے قصے کہانیاں موجود ہیں۔ چاند ہزاروں برسوں سے انسانوں کی ثقافت اور فن کو متاثر کرتا آیا ہے۔ دیکھیے تصاویر میں
تصویر: picture-alliance/Imaginechina/S. Yipeng
مجھے چاند پر لے چلو
27 جولائی کو ایک دوہرا کائناتی مظہر دیکھا گیا تھا، جہاں ایک طرف مریخ گزشتہ پندرہ برس میں زمین کے انتہائی قریبی مقام سے گزر رہا تھا، جب کہ ٹھیک اسی وقت چاند گرہن ’بلڈ مون‘ میں تھا۔ ایسے کم یاب مظاہر اربوں برسوں سے اس کائنات کا حصہ ہیں، مگر زمین والوں کو چاند سے زیادہ کسی نے متاثر نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/Imaginechina/S. Yipeng
مذہبی علامت اور ایسٹرولوجی
صدیوں تک انسان چاند کی پوجا کرتے رہے اور غیرمرئی قوتوں کے تصور کے ساتھ اپنی زندگیوں کو جہتیں دیتے تھے۔ کبھی کبھی وقت کو دنوں اور مہینوں کی بجائے چاند کے ذریعے سمجھا جاتا تھا۔ جرمن علاقے سیکسنی انہالٹ سے سن 1999 میں 37 سو سے 41 سو برس پرانا پیتل کا ایک ٹکڑا ملا تھا، جس پر آسمان کی تصویر، اُس وقت کی فلکیات اور روحانیت کے تصورات کا پتا دے رہی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مطلب کیا ہے؟
تصویری فنون میں چاند مختلف نوع کے موضوعات کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے، کبھی معصومیت اور کبھی خواتین کی جنسی رغبت۔ مگر دنیا بھر میں چاند کو رومانویت سے سب سے زیادہ جوڑا جاتا رہا ہے۔ فنکار چاند کو کسی جادوگر کی طرح پیش کرتے رہے ہیں۔ سن 1820 کا کیسپر ڈیوڈ فریڈرش کا یہ شاہ کار اس کا ثبوت ہے۔
تصویر: picture alliance/Heritage Images/Fine Art Images
شاعروں کا لازوال استعارہ
چاند ادب میں ایک غیرمعمولی کردار کا حامل رہا ہے۔ اسے شاعر مختلف استعارات میں استعمال کرتے رہے ہیں۔ گوئٹے کی نظم ’چاند کے لیے‘ اس مظہر کی عکاس ہے۔ اس نظم کا پہلا مصرع ہے، ’جھاڑی اور وادی تو بھری ہوئی ہے۔ اٹی ہوئی ہے اک شعاع سے اور میری روح کی بھاری زنجیریں ٹوٹ رہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Edelmann/Städel Museum/ARTOTHEK/The British Museum(Ausschnitt)
چاند کی ہُوک
چاند شاید الوؤں اور بھیڑیوں کو گیت گانے پر مجبور کرتا ہے، مگر انسان بھی اسے دیکھ کر ہُوک بھرتے رہے ہیں۔ ماتھیاس کلاؤڈیوس کا گیت ’دھیرے سے چاند ابھرا‘ یا ایلوِس پریسلے کا گیت ’نیلا‘ چاند اس کے اظہاریے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Images
خوف بھی، عشق بھی
مارک ٹوائن نے ایک بار کہا تھا، ’’ہر کوئی چاند ہے، جس کی ایک جہت سیاہ ہے، جو وہ کسی کو نہیں دکھاتا۔‘‘ قدیم وقتوں سے انسانوں کے بھیڑیوں میں تبدیل ہو جانے جیسے قصے سنائے جاتے رہے ہیں۔ 1941ء میں ’وولف مین‘‘ نامی فلم نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔
تصویر: picture alliance/United Archives/IFTN
صدی کا سب سے بڑا واقعہ
سن 1969 میں پہلی بار انسان چاند پر اترا تو لگتا یوں تھا کہ جیسے زمین کا یہ ذیلی سیارہ اپنے بہت سے موفوق الفطرت راز کھو دے گا۔ اچانک چاند کے قصے پڑھنے والا انسان اس سیارہ پر خود موجود تھا اور تصویریں کھینچ رہا تھا۔ سائنس نے اس سیارے کو فتح کر لیا تھا۔
تصویر: Getty Images/Nasa
نہ ختم ہونے والا جادو
انسان کے ہاتھوں فتح ہو جانے کے باوجود چاند کا سحر انسان ختم نہ کر سکا۔ آج بھی چاند دنیا بھر کے فنکاروں کو بالکل ویسے ہی متاثر کر رہا ہے، جیسا ماضی میں کرتا رہا۔
تصویر: www.moonmoonmoonmoon.com
8 تصاویر1 | 8
فرق کیا ہے؟
چاند کے اس حصے پر، جسے ہم زمین سے دیکھتے ہیں، ماضی میں شہابیوں اور خلائی چٹانوں کے گرنے اور ان کی وجہ سے چاند کے انتہائی گرم اندرونی حصے سے سطح پر پھوٹنے والے لاوے کے واضح نشانات دیکھے جا سکتے ہیں، تاہم چاند کے تاریک حصے کی تصاویر واضح کرتی ہیں کہ وہاں کبھی لاوا نہیں پھوٹا۔ سائنس دانوں کے لیے اہم سوال یہ رہا ہے کہ ایک ہی جیسے مادے سے بننے والے ایک ہی سیارے کے دو حصے ایک سے مظاہر پر دو مختلف رویوں کا اظہار کیسے کر سکتے ہیں۔
اس کی سائنسی توجیہ یہ دی جاتی رہی ہے کہ غالباﹰ چاند کے تاریک حصے کا قشتر یا سطح، موٹائی میں اس حصے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، جو زمین کی جانب ہے اور یہی وجہ ہے کہ چاند کے تاریک حصے پر گرنے والے شبہابیے اس کے اندر کے لاوے کو باہر لانے میں ناکام رہے ہیں۔ تاہم اس صورت میں بھی سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں کر ممکن ہے کہ ایک سیارے کے حصے کی سطح پتلی اور دوسرے حصے کی سطح اتنی موٹی ہو؟
’افق پہ کیسا یہ چاند نکلا‘
بدھ اورجمعرات کی درمیانی شب مغربی شمالی امریکا، ایشیا، مشرقِ وسطیٰ، روس اور آسٹریلیا میں غیرعمومی ’سپر بلڈ بلو مون‘ یا ’بڑا سرخ نیلا چاند‘ دکھائی دیا۔ گزشتہ 36 برسوں میں کائناتی مظاہر کا یہ واحد واقعہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/Imaginechina/C. Baolin
تین مظاہر یکجا
یہ مظہر اس لیے وقوع پذیر ہوا، کیوں کہ چاند کی مداروی گردش کے تین مظاہر ایک ساتھ رونما ہوئے، یعنی ایک ہی دن، زمین سے انتہائی قربت کی وجہ سے غیرعمومی طور پر بہت بڑا چاند دکھائی دیا، وہ نیلا بھی اور چاند گرہن کے ساتھ۔
تصویر: picture-alliance/Imaginechina/S. Yipeng
چشمے کی ضرورت نہیں
سورج گرہن کے مقابلے میں چاند گرہن کو بغیر کسی خصوصی چشمے یا انتظام کے براہ راست دیکھا جا سکتا ہے اور سائنس دانوں کے مطابق اس مظہر کے براہ راست مشاہدے سے انسانی آنکھ پر اس کے کوئی مضر اثرات مرتب نہیں ہوتے۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/D. Acostap
’سپر مون‘
زمین کے گرد گردش کرنے والا سیارہ چاند جب اپنی مداروی گردش کے اعتبار سے زمین سے کم ترین فاصلے پر ہو، تو اس وقت زمین سے مشاہدہ کرنے والوں کو وہ غیرعمومی طور پر بڑا دکھائی دیتا ہے اور اسے ’سپر مون‘ کہا جاتا ہے۔ اس وقت چاند عام دنوں کے مقابلے میں 14 فیصد بڑا اور 30 فیصد زیادہ روشن دکھائی دیتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/K. O'Connor
روشنی چاند کو چھوتی ہوئی
سرخ روشنی جو آپ اس وقت دیکھتے ہیں، دراصل وہ دھوپ ہے، جو زمینی کرہ ہوائی سے ترچھی ہو کر خلا میں سفر کرتی ہوئی چاند تک پہنچتی ہے۔ یعنی اس وقت فقط دنیا کے مختلف مقامات پر سورج کے طلوع اور غروب ہونے کی روشنی چاند کو چھو رہی ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/F. Reza
سرخ رنگ
چاند گرہن کے وقت چوں کہ زمین کا سایہ چاند پر پڑتا ہے، یعنی زمین سورج اور چاند کے عین درمیان آ کر چاند تک پہنچنے والی سورج کی روشنی میں حائل ہو جاتی ہے، اس لیے چاند کی بیرونی دائروی سطح اس موقع پر نارنجی یا سرخ رنگ کا دکھائی دیتے لگتا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Keogh
مذہبی حوالے
اس طرح کے واقعات کے مختلف مذاہب میں مختلف نظریات رائج ہیں۔ ایک ہندو اکتیس جنوری کی رات چاند کا نظارہ اور دعا کرتے ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/P. Verma
خوبصورت مناظر
ان تینوں مظاہر کے حامل چاند کا بہترین نظارہ ہوائی، الاسکا، کینڈا، آسٹریلیا اور ایشیا میں کیا گیا۔
تصویر: Reuters/P. Rebrov
مکمل چاند
بلو مون یا نیلا چاند زمین سے مشاہدے پر ایک ماہ میں دوسری مرتبہ مکمل چاند نظر آنے کو کو کہا جاتا ہے، یہ مظہر ہر دو سال اور آٹھ ماہ کے بعد وقوع پذیر ہوتا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
انڈونیشیا میں عبادت
اکتیس جنوری کی شب انڈونیشیا کے جزیرے جاوا میں ایک مسجد میں خصوصی تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس میں چاند گرہن اور سپر بلڈ مون کے نمودار ہونے پر خصوصی دعا کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/Gholib
دوبارہ ایسا کب ہو گا؟
اس طرح کا قدرتی مظہر اب اکتیس جنوری سن 2037 میں رونما ہو گا جبکہ اس سے قبل سپر بلو بلڈ مون تیس دسمبر سن انیس سو بیاسی میں رونما ہوا تھا۔ تب یورپ، افریقہ اور مغربی ایشیا میں لوگوں نے اس کا مظاہرہ کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. A. Thu
10 تصاویر1 | 10
چاند کی تخلیق کیسے ہوئی؟
زمین قریب ساڑھے چار ارب سال پہلے وجود میں آئی اور اس کے بعد چاند بھی پیدا ہوا۔ تاہم چاند کی پیدائش کی اصل وجوہات ایک طویل عرصے تک انسانی فکر کے لیے معمہ رہی ہیں۔ اس حوالے سے اہم یا قابل ذکر نظریہ یہ ہے کہ اربوں سال قبل جب زمین ایک پروٹوپلینٹ تھی، ایک اور چھوٹا سیارہ زمین ہی کے مدار میں موجود تھا، جس کے اس ابتدائی زمین سے ٹکرانے کی وجہ سے ایک تو زمین نے اپنے محور پر گردش شروع کر دی اور ساتھ ہی اس تصادم کی وجہ سے اڑتے مادے نے چاند تخلیق کیا۔ یہی وجہ ہے کہ چاند پر بھاری عناصر کی قلت ہے اور حجم میں خاصے بڑے ہونے کے باوجود اس کا آہنی مرکزہ نہایت قلیل ہے۔
تاہم اب سائنس دانوں کا ایک قیاس یہ ہے کہ ممکنہ طور پر ابتدائی زمین پر ثانوی سیارے کے تصادم کے وقت چاند بھی دو تخلیق ہوئے تھے، جو ایک ہی مدار میں زمین کے گرد گھوم رہے تھے اور ان میں سے چھوٹا چاند تعاقب کرتے کرتے بعد میں بڑے چاند میں ضم ہوا اور کم کمیت والے چاند نے چاند کے ایک حصے کو ڈھانپ لیا اور وہاں سطح دوسرے حصے کے مقابلے میں زیادہ موٹی ہو گئی۔