1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایغوروں پر ظلم: امریکا کا چینی حکام کو ویزا دینے سے انکار

9 اکتوبر 2019

سنکیانگ صوبے کی صورتحال کے حوالے سے امریکا چین پر مسلسل دباؤ بڑھا رہا ہے۔ اسی تناظر میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے چینی سرکاری اہلکاروں پر سفری پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔

China Xinjiang Uiguren
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eisele

امریکا نے سنکیانگ صوبے میں ایغور مسلم اقلیت کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تناظر میں چینی سرکاری اہلکاروں پر سفری پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ ویزا پابندیاں پیر کو ملکی محکمہ تجارت کی جانب سے اٹھائیس چینی سرکاری اور تجارتی اداروں کو بلیک لسٹ قرار دینے کی ایک کڑی ہے۔

تصویر: Reuters/T. Peter

امریکی حکومت نے بتایا ہے کہ چینی اداروں کو بلیک لسٹ قرار دینے کا واشنگٹن اور بیجنگ کے مابین ہونے والے ان مذاکرات سےکوئی تعلق نہیں، جو اسی ہفتے شروع ہونے والے ہیں۔ ان دونوں ممالک کے مابین طویل عرصے سے تجارتی جنگ جاری ہے اور فریقین تجارتی مسائل کو حل کرنے کی خاطر کئی مرتبہ مذاکرات بھی کر چکے ہیں۔ تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ اس امریکی اقدام کے بعد تازہ مذاکراتی عمل کے نتیجہ خیز ہونے کے امکانات کم ہی ہیں۔

اس موقع پر ان چینی سرکاری افسراں کے نام نہیں بتائے گئے، جن پر یہ پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ تاہم امریکی حکام کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ سنکیانگ پارٹی کے شین کوانگاؤ پر بھی پابندیاں عائد کرنے کا سوچ رہی تھی۔ کوانگاؤ چینی کمیونسٹ پارٹی کے با اثر ترین پولٹ بیورو کے ایک رکن بھی ہیں۔

چینی رد عمل

ان پابندیوں کے بعد امریکا میں چینی سفارت خانے نے اپنے اوّلین رد عمل میں کہا کہ امریکی اقدام 'بین الاقوامی تعلقات کو چلانے کے بنیادی اصولوں‘ کی شدید خلاف ورزی ہے اور ساتھ ہی واشنگٹن پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کا محض بہانہ بنا کر بیجنگ کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کر رہا ہے۔

چینی سفارت خانے نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ''سنکیانگ میں انسانی حقوق کے وہ مسائل نہیں ہیں، جن کا امریکا دعویٰ کر رہا ہے۔ سنکیانگ میں انسداد دہشت گردی اور شدت پسندی کے خاتمے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کا مقصد وہاں پنپنے والی انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔‘‘ اس موقع پر امریکا سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی غلطی کو درست کرتے ہوئے چین کے داخلی معاملات میں دخل اندازی سے باز رہے۔‘‘

ع ا/ اف ا

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں