چینی خلائی راکٹ ’لانگ مارچ‘ کے ٹکڑے بحر ہند میں گر گئے
9 مئی 2021
چینی خلائی راکٹ ’لانگ مارچ فائیو بی‘ کے ٹکڑے زمینی کرہ ہوائی میں داخلے کے بعد جزائر مالدیپ سے مغرب کی طرف بحر ہند میں جا گرے۔ ماہرین نے تنبیہ کی تھی کہ اس خلائی راکٹ کا بے قابو ملبہ کسی رہائشی علاقے میں بھی گر سکتا تھا۔
اشتہار
بیجنگ سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق اس خلائی راکٹ کے ٹکڑے بحر ہند میں گرنے کی چینی خلائی ادارے کے ماہرین نے بھی تصدیق کر دی ہے۔ 'لانگ مارچ فائیو بی‘ نامی یہ راکٹ آج تک خلا میں بھیجا جانے والا سب سے بڑا چینی راکٹ تھا، جو اپریل کے اواخر میں اٹھارہ ٹن وزنی ماڈیول 'تیان ہے‘ کو لے کر خلائی سفر پر روانہ ہوا تھا۔
چین کے سرکاری نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی نے بتایا کہ خلا سے انتہائی تیز رفتاری سے زمین کے کرہ ہوائی میں داخلے کے وقت اس راکٹ کے زیادہ تر حصے جل گئے تھے۔
خلائی راکٹ کا ملبہ کسی رہائشی علاقے میں گرنے کے خدشات
زمین کے کرہ ہوائی میں داخلے کے بعد اس راکٹ کے بچے کھچے حصے آج اتوار نو مئی کے روز بحر ہند میں مالدیپ کے مجموعہ جزائر سے مغرب کی طرف کھلے سمندر میں گرے۔ اس طرح کئی دنوں سے جاری یہ قیاس آرائیاں اور خدشات بھی ختم ہو گئے کہ اس خلائی راکٹ کا ملبہ زمین پر کسی ملک کے رہائشی علاقے میں بھی گر سکتا تھا۔
خلائی سیاحت: اسپیس شپ ٹو ’ورجن گیلکٹک‘ کا اندرونی منظر
انگریز موجد رچرڈ برینسن نے خلائی جہاز ’ورجن گیلکٹک‘ کا اندرونی منظر دنیا کے لیے پیش کر دیا ہے۔ یہ خلائی جہاز مسافروں کو لے کر زمین کے مدار میں جائے گا۔ اس سیاحت کے لیے فی مسافر ڈھائی لاکھ ڈالر تک کرایہ ادا کرے گا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Virgin Galactic
وسیع خلا کا ایک مختصر نظارہ
ممتاز انگریز موجد اور کاروباری شخصیت سَر رچرڈ برینسن خلائی سیاحت کے لیے متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ خلائی جہاز ’ورجن گیلکٹک‘ استعمال کریں گے۔ اب تک چھ سو امیر افراد نے بکنگ کروا رکھی ہے۔ ایک مسافر اس سیاحت کے لیے ڈھائی لاکھ ڈالر تک کرایہ ادا کرے گا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Drew
خلا میں تیرنا
ورجن گیلکٹک کی ہر پرواز پر صرف چھ مسافروں کی گنجائش ہے۔ یہ تمام مسافر مکمل خلائی لباس پہن کر اپنی سیٹ پر بیٹھیں گے۔ ایک مرتبہ جب جہاز مدار میں پہنچ جائے گا تب وہ پوری طرح الٹا ہو جائے گا تا کہ تمام مسفر خلا سے زمین کا نظارہ کر سکیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Virgin Galactic
انفرادی ضروریات کی حامل سیٹ
خلائی جہاز پر سیاحوں کی سیٹیں ہر وقت کشش ثقل قوت کو برقرار رکھنے کی حامل ہوں گی۔ ان سیٹوں پر بیٹھے خلائی سیاح لائیو فلائیٹ ڈیٹا کے ساتھ بھی منسلک رکھے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Virgin Galactic
واضح منظر
خلائی جہاز ورجن گیلکٹک میں بارہ کھڑکیاں ہیں۔ یہ کھڑکیاں تمام سیٹوں کو ایک طرح سے گھیرے ہوئے ہیں تا کہ تمام خلائی مسافر باہر کا مسلسل بھرپور نظارہ کرتے رہیں۔ اس خلائی سفر میں مسافروں کے مزاج کا بھی بہتر انداز میں خیال رکھنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Virgin Galactic
آدھا جہاز، آدھا راکٹ
ورجن گیلکٹک یا اسپیس شپ ٹُو ایک خصوصی جیٹ کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ یہ عمودی رخ پر سُپر سانک رفتار کے ساتھ اپنا سفر اختیار کرے گا۔ پائلٹ راکٹ چلانے کا بٹن دبائے گا تو اس کے ساتھ خلائی جہاز بھی حرکت میں آ جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Virgin Galactic
ہمیشہ رہنے والا نقش
اس خاص خلائی جہاز ورجن گیلکٹک میں سولہ کیمرے نصب ہوں گے۔ یہ کیمرے ہر مسافر کے تمام سفر کی کیفیات کو مسلسل ریکارڈ کرتے رہیں گے۔ اس میں ایک بڑا شیشہ بھی نصب کیا گیا ہے تا کہ جب خلائی مسافر خلا میں تیرنا شروع کریں تو وہ خود کو بھی دیکھ سکیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Virgin Galactic
ایک انتہائی مہنگا سفر
ورجن گیلکٹک کے تمام تر پرزے امریکی ریاست کیلیفورنیا کے ایک مقام موجاو میں قائم ایک فیکٹری میں جوڑ کر اسے خلائی جہاز کی شکل دیتے ہیں۔ تمام مسافروں کو سفر اختیار کرنے سے قبل خصوصی تربیت بھی دی جائے گی۔ بظاہر یہ ایک انتہائی منفرد اور بہت ہی مہنگا سفر ہو گا۔
چین کے سرکاری میڈیا نے ملکی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ 'لانگ مارچ فائیو بی‘ کا ملبہ بیجنگ کے مقامی وقت کے مطابق اتوار کی صبح دس بج کر چوبیس منٹ پر اور عالمی وقت کے مطابق صبح دو بج کر چوبیس منٹ پر زمین کے کرہ ہوائی میں داخل ہوا، جس کے بعد وہ سیدھا بحر ہند میں جا گرا۔
امریکا کی طرف سے تنقید
اس خلائی راکٹ کے ملبے کے بارے میں چینی حکام کے موقف سے متعلق امریکی خلائی ماہرین نے تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیجنگ نے اس سلسلے میں بہت شفافیت سے کام نہیں لیا۔ امریکی خلائی کمان کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس چینی راکٹ کا ملبہ جزیرہ نما عرب کے اوپر زمین کے کرہ ہوائی میں داخل ہوا، جس کے بعد وہ سمندر میں گر گیا۔
یو ایس اسپیس کمانڈ نے ایک بیان میں کہا، ''یہ ملبہ سمندر میں عین کس جگہ پر پانی میں گرا اور کتنے وسیع رقبے پر، اس بارے میں یو ایس اسپیس کمانڈ کوئی تفصیلات جاری نہیں کرے گی۔‘‘
ان سائیٹ کے مریخ پر اترنے کے لمحات
ناسا کے خلائی جہاز ان سائیٹ نے چار سو بیاسی ملین کلومیٹر (تین سو ملین میل) کا سفر طے کیا ہے۔ یہ روبوٹ کنٹرول خلائی جہاز مسلسل چھ ماہ تک سفر کرنے کے بعد مریخ کی سطح پر اترنے میں کامیاب ہوا ہے۔
ان سائیٹ خلائی مشن تقریباً ایک بلین امریکی ڈالر کا بین الاقوامی پراجیکٹ ہے۔ اس میں جرمن ساختہ مکینکل دھاتی چادر بھی استعمال کی گئی ہے، جو مریخ کی حدت برداشت کرنے کے قابل ہے۔ فرانس کے ایک سائنسی آلات بنانے والے ادارے کا خصوصی آلہ بھی نصب ہے، جو مریخ کی سطح پر آنے والے زلزلوں کی کیفیات کو ریکارڈ کرے گا۔ اس کے اترنے پر کنٹرول روم کے سائنسدانوں نے انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/NASA/B. Ingalls
پہلی تصویر
تین ٹانگوں والا ان سائٹ مریخ کے حصے’الیسیم پلانیشیا‘ کے مغربی سمت میں اترا ہے۔ اس نے لینڈنگ کے بعد ابتدائی پانچ منٹوں میں پہلی تصویر کنٹرول ٹاور کو روانہ کی تھی۔ تین سو ساٹھ کلوگرام وزن کا یہ خلائی ریسرچ جہاز اگلے دو برسوں تک معلوماتی تصاویر زمین کی جانب روانہ کرتا رہے گا۔
تصویر: picture alliance/Zuma/NASA/JPL
ان سائنٹ مریخ کے اوپر
ان سائیٹ خلائی ریسرچ دو چھوٹے سیٹلائٹس کی مدد سے مریخ کی سطح تک پہنچنے میں کامیاب ہوا ہے۔ ان سیٹلائٹس کے توسط سے ان سائیٹ کی پرواز کے بارے میں معلومات مسلسل زمین تک پہنچتی رہی ہیں۔ اس خلائی مشن نے مریخ پر اترنے کے تقریباً ساڑھے چار منٹ بعد ہی پہلی تصویر زمین کے لیے روانہ کر دی تھی۔ اڑان سے لینڈنگ تک اِسے چھ ماہ عرصہ لگا۔ ناسا کے مریخ کے لیے روانہ کردہ خلائی مشن کی کامیابی کا تناسب چالیس فیصد ہے۔
ان سائیٹ مریخ کی سطح پر بارہ ہزار تین سو کلومیٹر کی رفتار سے پرواز کرتا ہوا اپنی منزل پر پہنچا۔ اترے وقت اس کو بریکوں کے علاوہ پیراشوٹس کی مدد بھی حاصل تھی۔ ان سائیٹ پراجیکٹ کے سربراہ سائنسدان بروس بینرٹ کا کہنا ہے کہ مریخ کی جانب سفر سے کہیں زیادہ مشکل امر لینڈنگ ہوتا ہے۔ سن 1976 کے بعد مریخ پر لینڈنگ کی یہ نویں کامیاب کوشش ہے۔
مریخ کی سطح پر ان سائیٹ نامی خلائی تحقیقی جہاز ایک ہی مقام پر ساکن رہتے ہوئے اگلے دو برس تک اپنا مشن جاری رکھے گا۔ اس مشن میں مریخ کی اندرونی سطح کا مطالعہ بھی شامل ہے۔ سرخ سیارے کے زلزلوں کی کیفیت کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ یہ ریسرچ مشن مریخ پر زندگی کے ممکنہ آثار بارے کوئی معلومات جمع نہیں کرے گا۔
امریکی خلائی ادارے ناسا کے ایڈمنسٹریٹر بل نیلسن نے ایک بیان میں کہا ہے، ''یہ بات واضح ہے کہ چین خلائی ملبے سے متعلق ذمے داری کے مظہر معیارات پر پورا اترنے میں ناکام رہا ہے۔‘‘
چینی خلائی اسٹیشن کا رہائشی حصہ
'لانگ مارچ فائیو بی‘ گزشتہ ماہ کے اواخر میں جس اسپیس ماڈیول کو لے کر اپنے مشن پر روانہ ہوا تھا، اس کا وزن اٹھارہ ٹن تھا۔ 'تیان ہے‘ نامی یہ ماڈیول اس چینی خلائی اسٹیشن کا مرکزی حصہ ہو گا، جو بیجنگ خلا میں قائم کرنا چاہتا ہے۔
تیان ہے مستقبل میں چینی خلائی اسٹیشن کے رہائشی حصے کے طور پر استعمال کیا جائے گا اور اس میں تین رکنی عملے کے لیے قیام کی گنجائش ہو گی۔
چین خلا میں اپنے اس مستقل اسٹیشن کو اگلے برس مکمل کر لینا چاہتا ہے۔ اس خلائی اسٹیشن کی تکمیل تک بیجنگ مختلف مراحل میں ابھی اپنے مزید دس مشن خلا میں بھیجے گا۔
م م / ب ج (روئٹرز، اے ایف پی)
تین لاکھ نئی کہکشائیں دریافت
سائنسدانوں نے لاکھوں ایسی نئی کہکشائیں دریافت کر لی ہیں، جو اب تک انسانی نظر سے اوجھل تھیں۔ سائنسدانوں کے مطابق اس پیشرفت سے بلیک ہول اور کہکشاؤں کے جھرمٹ کے تخلیق ہونے کے بارے میں مزید معلومات مل سکیں گی۔
تصویر: LOFAR/Maya Horton
ٹمٹماتی ہوئی سرخ کہکشائیں
یہ تصویر HETDEX ریجن میں گردش کرتی متعدد کہکشاؤں کی نشاندھی کرتی ہے۔ اٹھارہ ممالک سے تعلق رکھنے والے دو سو سے زائد سائنسدانوں نے ان کہکشاؤں کو دریافت کیا ہے۔ ماہرین فلکیات نے ریڈیو ٹیلی اسکوپ نیٹ ورک LOFAR کے ذریعے ان کی نئی نقشہ بندی کی۔
تصویر: LOFAR/Judith Croston
چمکدار پر
ریڈیو ٹیلی اسکوپ کے ذریعے سے حاصل کردہ یہ امیج B3 0157+406 نامی خلائی ریجن کی میگنیٹک فیلڈ میں بڑے پیمانے پر ایک ہنگامی سرگرمی دکھا رہا ہے۔ ایسے لوگ جو فلکیات کے بارے میں زیادہ علم نہیں رکھتے، انہیں اس تصویر میں دو بڑے پر دکھائی دیں گے۔
تصویر: LOFAR/Maya Horton
پیچ دار کہکشاں
اس تصویر میں M106 نامی کہکشاں کی روشن دم دیکھی جا سکتی ہے۔ محققین کو یقین ہے کہ آتش فشانی کرتا یہ حصہ دراصل اس کہکشاں کے وسط میں واقع ایک بہت بڑے بلیک ہول کا ثبوت ہے۔ ہیمبرگ یونیورسٹی سے وابستہ ماہر اجرام سماوی مارکوس بروگن کے مطابق LOFAR کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ بلیک ہول کے کہکشاؤں پر کیا اثرات پڑتے ہیں۔
تصویر: LOFAR/Cyril Tasse
گرداب نما کہکشاں
یہ تصویر M51 نامی کہکشاں کی ہے۔ اسے سائنسدان گرداب نما کہکشاں بھی کہتے ہیں، اس کا یہ نام اس تصویر سے ظاہر بھی ہوتا ہے۔ یہ زمین سے پندرہ اور 35 ملین نوری سال دور واقع ہے۔ اس کے وسط میں بھی ایک بہت بڑا بلیک ہول واقع ہے۔
تصویر: LOFAR/Sean Mooney
سرخ آنکھ کے مانند
کہکشاؤں کے اس جتھے کو CIZA J2242.8+5301 سے جانا جاتا ہے۔ سائنسدان اس کے شمالی حصے کو ’ساسیج‘ بھی کہتے ہیں۔ ماہر اجرام فلکیات کو یقین ہے کہ اس جتھے سے ملنے والی معلومات ظاہر کر سکیں گی کہ کہکشاؤں کے جتھے کس طرح ترتیب پاتے ہیں۔
تصویر: LOFAR/Duy Hoang
خلا میں دھماکے
اس تصویر میں IC 342 نامی پیچ دار کہکشاں میں ہونے والے سپر نووا دھماکوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ منظر دیکھنے میں شاندار معلوم ہوتا ہے۔ فرانسیسی سائنسدان سیرل تاشے دریافت ہونے والی اس نئی کہکشاں کو کائنات کا ایک نیا درز قرار دیتے ہیں۔
تصویر: LOFAR/Maya Horton
جھلملاتے ستارے
ٹیلی اسکوپ LOFAR سے حاصل کردہ یہ امیج رات کا منظر پیش کر رہا ہے۔ کبھی کبھار سائنسدانوں کو اس طرح کے دیدہ زیب منظر کو عکس بند کرنے میں بہت زیادہ مہارت دکھانا پرٹی ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنسدانوں کی یہ کوشش ناکام نہیں ہوئی۔
تصویر: LOFAR/Cyril Tasse
ط
کہکشاؤں کا جتھہ Abell 1314 زمین سے چار سو ساٹھ ملین نوری سال دور واقع ہے۔ LOFAR کے ماہرین کو اس جتھے کی اور نئی دریافت کی جانے والی تین لاکھ کہکشاؤں کی جامع اور مکمل تحقیق کی خاطر بڑے پیمانے پر ڈیٹا اسٹور کرنا ہو گا۔ بیلے فیلڈ یونیورسٹی سے وابستہ ماہر فلکیات ڈومینیک شوارٹس کا کہنا ہے کہ اس مقصد کی خاطر دس ملین ڈی وی ڈیز پر اسٹور کیے جانے والے مواد کا تجزیہ کرنا ہو گا۔