1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چینی دباؤ کے بعد آسٹریلوی صحافیوں کی بیجنگ سے واپسی

8 ستمبر 2020

چینی حکومت کو مطلوب دو آسٹریلوی صحافی اپنے وطن واپس پہنچ گئے ہیں، جن سے چینی حکام 'نیشنل سکیورٹی کے کیس' کے تعلق سے پوچھ گچھ کرنا چاہتے تھے۔

China I Australische Botschaft in Peking
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Wong

آسٹریلیا کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے وہ دو صحافی، جن سے چینی حکام ایک کیس کے سلسلے میں پوچھ گچھ کرنا چاہتے تھے، آسٹریلیا واپس آگئے ہیں۔ ان دونوں صحافیوں نے چین میں آسٹریلیائی سفارت خانوں میں چند دنوں سے پناہ لے رکھی تھی۔ 'آسٹریلین براڈ کاسٹنگ کارپوریشن' (اے بی سی) کا کہنا ہے کہ چین میں آسٹریلیا کی جانب سے یہ دونوں آخری ایکریڈیٹیڈ صحافی تھے۔

چین میں کچھ روز قبل ایک آسٹریلوی صحافی چینگ لی کو گرفتار گیا گیا تھا، جو چین کے سرکاری براڈکاسٹر سی جی ٹی این کے ساتھ کام کرتے تھے۔ اسی وجہ سے گزشتہ ہفتے آسٹریلیا نے بیجنگ میں اے بی سی کے نامہ نگار بل برسٹل کو چین سے فوری طور پر نکل جانے کو کہا تھا۔ لیکن ان کے نکلنے سے ایک دن قبل ہی چینی پولیس ان کی تلاش میں ان کی رہائش گاہ پر پہنچ گئی تھی۔

چینی پولیس نے ان سے کہا تھا کہ جب تک وہ نیشنل سکیورٹی کے ایک کیس کے سلسلے میں پولیس حکام سے بات چیت نہیں کر لیتے اس وقت تک ان کے سفر پر پابندی عائد رہے گی۔ اسی رات کو 'آسٹریلیئن فائنانشیئل ریویو' (اے ایف آر) کے لیے کام کرنے والے  برسٹل کے ساتھی صحافی مائیکل ا سمتھ کو بھی پولیس کی جانب سے ایسا ہی پیغام ملا۔ ان دونوں صحافیوں سے چینگ لی کے بارے میں پوچھاگیا تھا جو اب بھی کسی مقدمے کے بغیر چینی حکام کی حراست میں ہیں۔

اس کے بعد چین میں آسٹریلوی سفیروں نے چینی حکام سے ان کی واپسی کے بارے میں بات چیت کی اور چینی حکام کو ان صحافیوں سے سفارتکاروں کی موجودگی میں پوچھ گچھ کی اجازت دی گئی۔ واپسی سے پہلے دونوں آسٹریلوی صحافیوں نے آسٹریلیا کے سفارتخانوں میں اپنا وقت گزارا۔

  

آسٹریلیا کے وزیر خارجہ میرس پائن نے ایک بیان میں کہا، ''بیجنگ میں ہمارے سفارتخانے اور شنگھائی میں قونصلیٹ جنرل نے ان صحافیوں کی خیریت اور ان کی واپسی کو یقین بنانے کے لیے چینی حکام سے بات چیت کی۔'' دونوں میڈیا اداروں نے صحافیوں پر دباؤ ڈالنے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان پہلے سے کشیدہ حالات کو مزید نقصان پہنچا ہے۔

یہ واقعہ دو صحافیوں کو نشانہ بناتا ہے، جو اپنی معمول کی اطلاع دہندگی کے فرائض انجام دے رہے ہیں، یہ دونوں افسوسناک اور پریشان کن ہیں اور یہ آسٹریلیائی اور چین کے مابین باہمی تعاون پر مبنی تعلقات کے مفاد میں نہیں ہے۔

  اے ایف آر کے ایڈیٹر ان چیف مائیکل اسٹشبری اور مدیر پال بیئلی نے ایک مشترکہ بیان میں اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا، ''دو صحافیوں کو نشانہ بنانے کا یہ واقعہ، جو معمول کے مطابق معلومات اوراطلاعات رسانی کے اپنے فرائض انجام دے رہے تھے، افسوسناک اور پریشان کن بھی ہے، اور یہ آسٹریلیا اور چین کے مابین باہمی تعاون پر مبنی تعلقات کے مفاد میں بھی نہیں ہے۔''

گزشتہ تقریبا دو برس سے آسٹریلیا اور چین کے درمیان رشتے تلخی کا شکار ہیں۔ آسٹریلیا کا الزام ہے کہ بیجنگ آسٹریلیا کے سیاسی حلقوں سمیت سیاسی اور معاشی امور جیسے اندرونی امور پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔

ص ز/ ج ا (اے پی، روئٹرز)

چین سے جرمنی تک سفر کرنے والی مال بردار ریل گاڑیاں

01:29

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں