1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چینی رہنما کا دورہء پاکستان، اندیشوں کے سائے

23 مئی 2013

چین اور پاکستان کے درمیان مثالی دوستانہ تعلقات قائم ہیں تاہم چینی وزیر اعظم لی کیچیانگ کے دورہء اسلام آباد پر اندیشوں کے سائے بھی لہرا رہے ہیں۔ دہشت گردی کے امکانی خطرات بیجنگ کے مفادات کے لیے خطرہ ہیں۔

تصویر: imago

پہاڑوں سے بلند اور سمندر سے گہرے‘، یہ ہیں وہ تشبیہات، جن کے ساتھ بیجنگ اور اسلام آباد میں دونوں ملکوں کے تعلقات کی خصوصی نوعیت کو بیان کیا جاتا ہے۔ 2011ء میں دونوں ملکوں نے اپنے سفارتی تعلقات کے قیام کے ساٹھ سال پورے ہونے کا جشن منایا تھا۔ اس طویل دوستی میں خاص طور پر قدر مشترک یہ ہے کہ بھارت اِن دونوں کا حریف ہے۔

نئے چینی وزیر اعظم کا پہلا دورہء پاکستان اِس جنوبی ایشیائی ملک میں عام انتخابات کے دو ہفتے بعد عمل میں آ رہا ہے۔ تاہم لندن کے تحقیقی ادارے چیتھم ہاؤس کے ایشیائی امور کی ماہر روشین کابراجی کے خیال میں بیجنگ یا اسلام آباد میں قیادت کی تبدیلی سے ان دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں کوئی نئی تبدیلی عمل میں نہیں آئے گی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’بنیادی طور پر یہ ایک ایسا اسٹریٹیجک تعلق ہے، جو دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے لیکن جس کے پیمانے زیادہ تر چین متعین کرتا ہے‘۔

پاکستان سے پہلے لی کیچیانگ نے بھارت کا سہ روزہ دورہ کیا تھاتصویر: Reuters

اسٹریٹیجک اتحاد

چین اور پاکستان کے باہمی تعلقات کا ایک مرکزی نکتہ قریبی فوجی اشتراک عمل ہے: چین پاکستان کو اسلحہ فراہم کرنے و الا سب سے بڑا ملک ہے۔ 2008ء اور 2012ء کے درمیانی عرصے میں چین نے اپنا 55 فیصد اسلحہ پاکستان کو برآمد کیا۔ پاکستان کے ایٹمی ڈھانچے کی تعمیر میں بھی چینی تعاون کا بڑا ہاتھ ہے۔

پاکستان کے ساتھ اتحاد چین کے لیے جغرافیائی سیاسی وجوہات کی بناء پر اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے ذریعے خاص طور پر جنوبی ایشیا میں بالا دستی کے حصول کی بھارتی کوششوں کے آگے بند باندھنا مقصود ہے۔ دوسری طرف پاکستان نے اب تک فوجی اور تکنیکی اعتبار سے چین سے بہت فائدہ اٹھایا ہے۔ اگرچہ پاکستان کا انحصار امریکا کی جانب سے ملنے والی اربوں ڈالر کی امداد پر ہے تاہم اسلام آباد حکومت اپنا با اعتماد ساتھی چین کو تصور کرتی ہے۔

پاکستانی سرزمین پر جاری امریکی ڈرون حملے اور خاص طور پر دو سال پہلے امریکی ایلیٹ یونٹ کے ذریعے القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کے باعث پاکستان اور امریکا کے باہمی تعلقات میں کافی زیادہ سرد مہری آ چکی ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ چین اور پاکستان اب ایک دوسرے کے زیادہ قریب آ گئے ہیں۔

گوادر بندرگاہ کے منصوبے کا غیر واضح مستقبل

گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان اور چین کے باہمی اقتصادی تعلقات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ چین پاکستان کا اہم ترین تجارتی ساتھی ہے۔ ساتھ ساتھ چینی حکومت اقتصادی ڈھانچے کی تعمیر و توسیع کے بڑے پاکستانی منصوبوں میں سرمایہ کاری بھی کر رہی ہے، جن میں بحران زدہ صوبے بلوچستان میں واقع گوادر بندرگاہ کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ اس سال فروری میں پاکستان نے اس بندرگاہ کا کنٹرول چینی اداروں کے حوالے کر دیا تھا۔

پاکستان گوادر بندرگاہ کا مکمل کنٹرول چینی کمپنیوں کے حوالے کر چکا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

عمان (اومان) کی خلیج کے انتہائی قریب واقع یہ بندرگاہ اسٹریٹیجک اعتبار سے بھی زبردست اہمیت کی حامل ہے۔ اگرچہ بیجنگ حکومت زور دے رہی ہے کہ یہ بندرگاہ محض تجارتی مقاصد کے لیے استعمال ہو گی تاہم امریکا اور بھارت کو خدشہ ہے کہ گوادر مستقبل میں چینی بحریہ کے ایک اڈے کے طور پر بھی استعمال ہو سکتا ہے اور یوں بحیرہء عرب میں فوجی طاقت ظاہر کرنے کے کام آ سکتا ہے۔

تاہم اس بندرگاہ کا کام محض سست رفتاری سے ہی آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ بلوچستان میں سلامتی کی خراب صورت حال ہے، وہاں قوم پرست بلوچ اپنی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد میں مصروف ہیں۔

انتہا پسندی خلل کا باعث

امریکی انسٹیٹیوٹ جرمن مارشل فنڈ سے وابستہ اینڈریو سمال نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو میں پاک چین تعلقات کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا:’’اگرچہ چین اور پاکستان کے درمیان اقتصادی تعلقات بڑھے ہیں لیکن نتائج توقعات سے کہیں کم رہے ہیں۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران بہت سے بڑے بڑے منصوبوں پر کام بہت آہستہ آہستہ ہی آگے بڑھ پایا ہے، جس کی وجہ سمال کے خیال میں پاکستان میں امن و امان کی نازُک صورتحال ہے۔ چینی امور کے ماہر سمال کے خیال میں پاکستان میں چینی کمپنیوں اور اُن کے ارکان کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

بیجنگ کا الزام ہے کہ پاکستان میں مسلمان دہشت گردوں کے کیمپوں میں سنکیانگ کے جنگجوؤں کو بھی تربیت دی جاتی ہےتصویر: AP

واشنگٹن کے بروکنگز انسٹیٹیوٹ سے وابستہ جنوبی ایشیائی امور کے ماہر اسٹیفن کوہن نے ڈوئچے ویلے سے باتیں کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستانی سرزمین سے کی جانے والی اسلام پسندانہ دہشت گردانہ سرگرمیاں بیجنگ حکومت کے لیے زبردست تشویش کا باعث ہیں۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ خود مختار چینی علاقے سنکیانگ میں مسلمان ایغور اقلیت اور ہان چینیوں کے درمیان تعلقات نسلی اور مذہبی تنازعات سے عبارت ہیں۔ بیجنگ کا الزام ہے کہ پاکستان میں مسلمان دہشت گردوں کے کیمپوں میں سنکیانگ کے جنگجوؤں کو بھی تربیت دی جاتی ہے۔ دہشت گردی پر قابو پانے کے سلسلے میں اسلام آباد حکومت کی صلاحیت سے متعلق شکوک و شبہات بھی پاک چین تعلقات پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔

پاک چین تعلقات اور افغانستان

چین کو پاکستان ہی نہیں بلکہ افغانستان میں بھی سرگرم عمل دہشت گرد گروپوں کے حوالے سے تشویش لاحق ہے۔ چین کو فکر ہے کہ 2014ء کے اواخر تک افغانستان سے نیٹو دستوں کے انخلاء کے بعد یہ ملک عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔ چنانچہ چینی امور کے ماہر سمال کے خیال میں پاک چین تعلقات میں افغانستان کے موضوع کو بھی مرکزی اہمیت حاصل ہے کیونکہ چین نہ صرف افغانستان میں سرمایہ کاری کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے بلکہ افغانستان میں دہشت گرد گروپوں کے زور پکڑ جانے سے چین کی سلامتی بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ واضح رہے کہ چین اور افغانستان کی سرحدیں ایک دوسرے سے ملتی ہیں۔ 80 کلومیٹر طویل اس سرحد کے ایک طرف تاجکستان اور دوسری طرف پاکستان ہے۔

A.Boc/aa/ai

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں