کووڈ انیس سے متعلقہ پابندیوں میں نرمی کے بعد امید کی جا رہی ہے کہ چینی سیاح دوبارہ یورپ کا رخ کریں گے لیکن سیاحتی مقامات پر کی جانے والی رہائشی و دیگر تفریحی سہولیات کی بکنگ کی تعداد اس حوالے سے حوصلہ افزا نہیں ہے۔
اشتہار
چین میں کووڈ انیس سے متعلقہ پابندیوں میں نرمی کے بعد اب یہ امید کی جا رہی ہے چینی سیاح دوبارہ یورپ کا رخ کریں گے، حالانکہ ان متوقع مہمانوں کی جانب سے یورپی سیاحتی مقامات پر کی جانے والی بکنگز کی تعداد اس حوالے سے کچھ خاص حوصلہ افزا نہیں ہے۔
کورونا وائرس کے بعد عائد کی گئی پابندیاں تین سال تک چینی باشندوں کے سفر کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بنی رہیں اور ان میں کمی کے بعد سے بالآخر چینی سیاح اب وطن واپسی پر تین ہفتے قرنطینہ میں گزارنے کے پابند نہیں ہیں۔ لیکن سیاحت کے لحاظ سے اس حوصلہ افزا پیش رفت کے نتائج ابھی تک یورپ میں نہیں دیکھے جا سکے ہیں۔
اس کی ایک مثال جرمنی کے علاقے باویریا میں واقع تاریخی نیوشوانسٹائن قلعے پر چینی زبان مینڈیرن میں دیے جانے والے گائیڈڈ ٹور کی کم تعداد میں بکنگ ہے۔ باویریا کے محکمہ برائے محلات کے مطابق ابھی تک چند ایک سیاحی گروپوں نے ہی یہ ٹور بک کرائے ہیں جبکہ ماضی میں اکثر چینی سیاح نیوشوانسٹائن لازماﹰ دیکھنے آتے تھے اور کووڈ انیس کی وبا سے پہلے اس قلعے پر 20 فیصد گائڈڈ ٹور مینڈیرن میں دیے جاتے تھے۔
یورپی شہروں میں سیاحت کی بحالی
دو سال تک کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے پابندیوں اور بین الاقوامی سفر میں کمی کے بعد اب سیاح یورپ کے بڑے شہروں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ کاروباری مالکان کو راحت ملی ہے لیکن مقامی لوگ سیاحت کی واپسی سے خوفزدہ ہیں۔
تصویر: Grgo Jelavic/PIXSELL/picture alliance
پیرس
فرانسیسی دارالحکومت کئی دہائیوں سے سیاحوں کے لیے ایک مقناطیسی کشش رکھتا ہے اور جب آپ یہاں کی خوبصورت سڑکوں سے لے کر جدید ترین ریستورانوں تک ہر چیز پر غور کرتے ہیں تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں۔2019ء میں پیرس یورپ کا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا شہر تھا۔ پیرس شہر کا سیاحتی شعبہ دو سال کی مندی کے بعد تیزی سے بحال ہو رہا ہے۔ صرف جون اور اگست کے درمیان 10 ملین مہمانوں نے اس شہر کا وزٹ کیا۔
تصویر: ROBIN UTRECHT/picture alliance
لندن
وزٹ بریٹن نے پیش گوئی کی ہے کہ اس سال تقریباً 27 ملین لوگ برطانیہ کا دورہ کر سکتے ہیں، جو کہ سن 2019 کے اعداد و شمار کا تقریباً 65 فیصد ہے۔ لندن کو بلاشبہ ان مہمانوں کا خاطر خواہ حصہ ملے گا۔تاریخ سے بھرپور برطانوی دارالحکومت لاتعداد جدید عجائب گھر، ایک آفاقی مزاج اور بہت کچھ پیش کرتا ہے۔ سن 2019 میں لندن یورپ کا دوسرا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا شہر تھا۔
تصویر: Dominic Lipinski/empics/picture alliance
برلن
2022ء کے پہلے سات مہینوں میں تقریباً 55 لاکھ سیاحوں نے برلن کا سفر کیا جو سن 2019 کے مقابلے میں 30 فیصد کم ہے۔ تاہم ان سیاحوں نے برلن میں زیادہ دیر قیام کیا اور ٹرین کے ذریعے زیادہ سفر کیا۔ یہ زیادہ پائیدار سفر کی طرف ایک چھوٹا قدم ہے، جو کہ وبائی امراض کے دوران یورپ کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں ایک اہم موضوع تھا ۔
تصویر: S. Ziese/picture alliance/blickwinkel
پراگ
تقریباً تیرہ لاکھ کی آبادی والا چیک دارالحکومت ایک مشہور سیاحتی مقام تھا اور اب بھی ہے۔ پھر بھی یہاں سیاحت کی صنعت سے وابستہ افراد افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ سیاحوں کی تعداد ابھی تک کورونا کی عالمی وبا سے پہلے کی سطح پر واپس نہیں آئی ہے۔ مشرقی اور وسطی یورپی شہروں میں بھی یہی صورتحال ہے۔ یوکرین میں جنگ کی وجہ سے ٹور آپریٹرز مشرقی یورپ جانے سے گریز کر رہے ہیں۔
تصویر: Jussi Nukari/Lehtikuva/dpa/picture alliance
وینس
کورونا وبا سے قبل اوور ٹورازم وینس کے لیے ایک مسئلہ تھا، اور اب یہ مسئلہ ایک بار پھر توجہ کا مرکز ہے کیونکہ سیاحوں نے سینٹ مارکس باسیلیکا کے سامنے لمبی لائنیں لگا رکھی ہیں۔ اگرچہ 2019 ٴ میں یہاں لوگوں کی تعداد زیادہ نہیں لیکن مقامی لوگوں کے لیے سیاح پہلے ہی بہت زیادہ ہیں۔ جنوری 2023ء سے یومیہ کے سفر پر آنے والے سیاحوں کو اس شہر کا دورہ کرنے اور داخلہ فیس ادا کرنے کے لیے پہلے سے بکنگ کروانا ہوگی۔
تصویر: Andrea Merola/IMAGO
بارسلونا
سیاحوں میں پسندیدہ، ہسپانوی بحیرہ روم کے ساحل پر واقع کاتالان شہر نے اس موسم گرما میں سیاحوں کی تعداد میں واپسی دیکھی ہے تاہم اوور ٹورازم کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے شہر کے حکام نے ٹور گائیڈز پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ انہیں میگا فونز کا استعمال ترک کرنا ہوگا اور چھوٹے ٹور چلانا ہوں گے جو شہر کے وسط میں پیدل چلنے والوں کی راہ میں رکاوٹ نہ بنیں۔
تصویر: Michael Weber/imageBROKER/picture alliance
لزبن
اس موسم گرما میں خشک سالی اور پانی کی قلت نے بھی سیاحوں کو پرتگال کے ساحلوں بشمول الگارو کے ساتھ ساتھ ملکی دارالحکومت لزبن کی طرف آنے سے نہیں روکا۔ بحر اوقیانوس پر واقع یہ شہر بیرون ملک سے آنے والے سیاحوں میں بہت مقبول ہے۔ اکتوبر 2022ء میں یورپ کے سب سے پرکشش سٹی بریک ڈسٹینیشن کے لیے ورلڈ ٹریول ایوارڈ جیتنے کے بعد لزبن کے مزید مداح بھی یہاں کا رخ کر سکتے ہیں۔
تصویر: Frank Hoermann/SVEN SIMON/picture alliance
ایتھنز
بھرپور تاریخ، متحرک ثقافت اور یہاں تک کہ ایک ساحلی پٹی کے ساتھ، ایتھنز کے پاس سیاحوں کو پیش کرنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ کورونا عالمی وبا کی وجہ سے تعطل کے بعد، اس موسم گرما میں یونانی سیاحت کی صنعت میں کام کرنے والوں کی ریکارڈ آمدنی ہوئی ہے۔ یونانی حکومت اسی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس موسم خزاں اور سرما میں ملک بھر کے دیگر غیر معروف مقامات پر مہمانوں کو راغب کرنے کے لیے سرمایہ کاری کر رہی ہے۔
كورونا عالمی وبا کی وجہ سے سیاحت کے شعبے میں مندی نے کروشیا کو شدید مالی دھچکا پہنچایا۔ تاہم اس سال سیاحوں کی بڑی تعداد میں یہاں واپسی ہوئی۔ کروشیا کے قومی بنک کی پیش گوئی کے مطابق سن 2022 میں سیاحت کی آمدنی تقریباً 11 بلین امریکی ڈالر ہو گی۔ یہ رقم 2019ء میں سیاحت کی آمدنی سے تقریباً ایک بلین یورو زیادہ ہے۔ کروشیا کا خوبصورت شہر ڈوبروونک (تصویر میں) سیاحوں کے لیےایک مقبول منزل بنی ہوا ہے۔
تصویر: Grgo Jelavic/PIXSELL/picture alliance
9 تصاویر1 | 9
اس حوالے سے جرمنی کے چائنا آؤٹ باؤنڈ ٹورازم ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے مینجنگ ڈائریکٹر وولف گینگ آرلٹ کہتے ہیں کووڈ انیس سے متعلقہ پابندیوں میں نرمی کے باوجود چینی سیاحوں کی بڑی تعداد میں یورپ آمد کے امکانات فی الحال کم ہیں۔ ان کے مطابق اس صورتحال میں ایسٹر کے تہوار تک کوئی تبدیلی متوقع نہیں کیونکہ چینی مسافروں کو اب بھی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
آرلٹ نے اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ چین میں کووڈ انیس کے کیسز کی تعدادابھی بھی بہت زیادہ ہے۔
اس صورتحال کے پیش نظر جنوری کے اوائل میں یورپی یونین کے رکن ممالک نے کووڈ انیس کے ٹیسٹ کو چین سے آنے والی فلائٹس کے تمام مسافروں کے لیے لازمی بنانے پر اتفاق کیا تھا۔ اس کے علاوہ چین میں جرمن حکام فی الحال صرف ان لوگوں کو ویزا دے رہے ہیں جن کے پاس سفر کرنے کی کوئی ٹھوس وجہ ہو اور سیاحت کو ایسا جواز تصور نہیں کیا جاتا۔
جہاں ان اقدامات میں نرمی چینی سیاحوں کی یورپ کے سفر کے لیے حوصلہ افزا ثابت ہو سکتی ہے وہیں آرلٹ نے ایئر لائنز کے بتدریج چین سے یورپ آنے والی فلائٹس کے تعداد بڑھانے پر بھی زور دیا ہے۔
چین، ایک بڑی سیاحتی منڈی
اس وقت چین میں 10 مقبول ترین سیاحتی مقامات میں صرف ایک یورپی ملک اٹلی شمار ہوتا ہے، جہاں سن 2019ء میں چھٹیاں گزارنے آنے والے چینی باشندوں کی تعداد 3.2 ملین سے کچھ کم تھی۔ دیگر یورپی ممالک بشمول فرانس، جرمنی، آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ چین میں 20 مقبول ترین سیاحتی مقامات میں شمار ہوتے ہیں جبکہ ایشائی ممالک کی مقبولیت ان کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔
اشتہار
کورونا کے سبب یورپ اورایشیا کا سنگم ’ترکی‘ سیاحوں سے محروم رہا
لیکن یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ یورپ کا سفر کرنے والی چینی سیاحوں کی تعداد دنیا کے دوسرے خطے سے آنے والے مسافروں کے مقابلے میں عموماﹰکم ہی رہی ہے۔ اس کے باوجود اسپین میں سیاحت کی تشہیر کے ذمے دار حکومتی ادارے توریسپانا کے ایک ترجمان کا کہنا ہے ان کی چینی سیاحوں کی آمد سے وابستہ امیدیں بہت زیادہ ہیں اور ایسا اس لیے ہے کہ چینی سیاح عموماﹰ شاہ خرچ ہوتے ہیں۔
وولف گینگ آرلٹ اس حوالے سے کہتے ہیں کہ چینی سیاح کسی بھی ملک صرف چھٹیاں گزارنے نہیں جاتے، "بلکہ وہ محدود وقت میں زیادہ سے زیادہ چیزیں دیکھنا اور تجربہ کرنا چاہتے ہیں اور یہ سیاحتی مقامات کو اور زیادہ لوگوں کے لیے پر کشش بنانے کا ایک نہایت ہی اچھا موقع ہے۔‘‘
اس وقت چینی باشندے دنیا میں سیاحت کی سب سے بری مارکیٹ ہیں اور اسی لیے جرمن نیشنل ٹرسٹ بورڈ سمیت سیاحت سے متعلقہ کئی ادارے چینی سیاحوں کی آمد میں ممکنہ اضافے کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں۔
آرلٹ کے مطابق سن 2019ء میں 170 ملین افراد نے چین سے بین الاقوامی سفر کیا اور رواں سال وہاں سے 110 ملین افراد کا بین الاقوامی سفر متوقع ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سن 2030 تک یہ تعداد 228 ملین تک بڑھ سکتی ہے۔
جوناس مارٹینی ( م ا، ش ر)