چینی صدر بھارت میں
17 ستمبر 2014 چینی صدر شی جن پنگ کے بھارت کے تین روزہ دورہ کے دوران دونوں ممالک باہمی تجارت وسرمایہ کاری پرخصوصی توجہ دیں گے اور سرحدی تنازع کو حل کرنے نیزنیوکلیائی تعاون کے حوالے سے بھی بات چیت کریں گے۔ دونوں ملکوں کے مابین تقریباً ایک درجن معاہدوں پر دستخط ہونے کی امید ہے۔
چینی صدر کی آمد سے قبل وزیر اعظم نریندر مودی نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہر کوئی یہ مانتا ہے کہ اکیسویں صدی ایشیا کی صدی ہے اس لیے بھارت اورچین کے درمیان ترقیاتی شراکت ضروری ہے۔ دوسری طرف چینی صدر نے کہا کہ بھارت اور چین کی ترقی کے بغیر اس صدی کو ایشیا کی صدی بنانا ممکن نہیں ہے اس لیے دنیا کی ان دو اہم طاقتوں کو عالمی پارٹنر بننے کی ضرورت ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان سید اکبرالدین نے چینی صدر کے دورے کو دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں سنگ میل قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں رہنماوں کے درمیان تمام اہم علاقائی اورعالمی امور پر بات چیت ہوگی۔ دونوں ممالک صنعتی پارک کے قیام، بنیادی ڈھانچے ، توانائی اور ریلوے کے شعبوں میں تعاون کے معاہدوں پر دستخط کرسکتے ہیں۔ صنعت و تجارت کی مرکزی وزیر نرملا سیتا رمن نے کہا کہ اس دورے کے دوران صنعت و تجارت اور سرمایہ کاری پر خاص طورپربات ہوگی۔ ’’ہم چین میں وسیع مارکیٹ میں رسائی کی بات کریں گے ، ہم انہیں بھارت میں آکر مینوفیکچرنگ کرنے اور پھر اسے یہاں مارکیٹ میں فروخت کرنے کے لیےے مدعو کریں گے۔ چین کو اس وقت ایک بڑے بازار کی ضرورت ہے جواسے بھارت میں مل سکتا ہے۔‘‘ امید ہے کہ چینی صدر اس دوران بھارت میں اگلے پانچ برسوں کے لیے 100بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کاوعدہ کریں گے۔
یہ پہلا موقع ہے جب چینی رہنما بھارت کے دورے کے ساتھ پاکستان کا دورہ نہیں کررہے ہیں۔ صدر شی جن پنگ نے پاکستان کے داخلی سیاسی حالات کی بناء پر اپنا دورہ منسوخ کردیا تھا ۔ تاہم یہاں بین الاقوامی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے چین اور پاکستان کی دوستی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ بھارت کے سابق خارجہ سکریٹری کنول سبل کا کہنا ہے کہ ’’چین بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ اپنے اسٹریٹیجک تعلقات میں کمی نہیں کرے گا۔ اگر ہم امریکا کو پاکستان کے ساتھ تعلقات ختم کرنے پر آمادہ نہیں کرسکے ہیں تو چین سے اس کی توقع کیسے رکھ سکتے ہیں۔‘‘
خیال رہے کہ 1962 ء کی جنگ کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات خوشگوار نہیں رہے ہیں۔ تعلقات میں کشیدگی کا سلسلہ 1959ء میں اس وقت شروع ہوا جب بھارت نے تبتیوں کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کواپنے یہاں سیاسی پناہ اورجلاوطن حکومت بنانے کی اجازت دی ۔ چین اب بھی بھارت کے 3500کلومیٹر سرحدی علاقہ پراپنا دعوی کرتا ہے۔وہ شمال مشرقی صوبہ اروناچل پردیش کو اپنا علاقہ قرار دیتا ہے اور بار بار واضح کرچکا ہے کہ سرحدی معاملات پر کوئی مصالحت نہیں کرے گا۔ باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کی تمام تر کوششوں کے باوجود فریقین میں اعتماد کا فقدان رہا ہے۔
دو روز قبل ویت نام کو بھارت کی طرف سے دفاعی سودوں کیلیے 100ملین ڈالر کے ایکسپورٹ کریڈٹ دینے اور جنوبی چین کے سمندروں میں تیل اورگیس کی تلاش میں ویت نام کے ساتھ شراکت کے اعلان پر چین نے ناراضگی ظاہرکی تھی۔ جاپان کے ساتھ بھار ت کی بڑھتی ہوئی قربت کو بھی چین پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتا ہے۔ اعددو شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2000 ء سے2014 ء کے درمیان دونوں ملکوں نے صرف 400 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔
بہر حال دونوں ملکوں کے درمیان متعدد اختلافات کے باوجود وزیر اعظم نریندر مودی چینی صدر کے اس دورے سے کافی پرامید ہیں۔ انہوں نے پروٹوکول کو درکنار کرتے ہوئے چینی صدر کا اپنے آبائی ریاست گجرات کے شہر احمد آباد میں خیرمقدم کیا۔ دریں اثنا چینی صدر شی جن پنگ کا کل جمعرات کو یہاں قومی دارالحکومت میں ایوان صدارت میں روایتی خیرمقدم کیا جائے گا۔ وہ صدر پرنب مکھرجی ، نائب صدر حامد انصاری ، وزیر خارجہ سشما سوراج اوردیگر رہنماوں سے بھی ملاقات کریں گے۔