چینی صدر شی جن پنگ نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ٹیلی فون پرایران کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے حالیہ معاہدے سمیت متعدد موضوعات پر بات چیت کی۔
اشتہار
چینی صدر شی جن پنگ ہی نےایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی میں مدد فراہم کی تھی۔ چینی ثالثی میں دونوں علاقائی حریف ممالک کے درمیان ایک تاریخی معاہدہ طے پایا تھا، جس کے تحت ایران اور سعودی عرب نہ صرف ایک دوسرے کے ہاں اپنے اپنے سفارت خانے کھولنے والے ہیں بلکہ حالیہ چند دنوں میں دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطحی رابطے بھی ہوئے ہیں۔
اس معاہدے کو مشرق وسطیٰ میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔
شہزادہ محمد بن سلمان جو اس وقت سعودی عرب کے وزیراعظم بھی ہیں، نے ہمسایہ ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کے لیے چینی کوششوں کا خیرمقدم کیا۔ دونوں رہنماؤں نے اس بات چیت میں اسٹریٹیجک تعلقات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے انہیں مزید مضبوط بنانے پر اتفاق کیا۔ یہ بات اہم ہے کہ چین خلیجی ممالک کا ایک اہم تجارتی پارٹنر ہے۔
شی نے کہا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے مفادات سے جڑے معاملات پر اشتراک عمل کے مضبوط عزم پر قائم ہیں۔ سعودی میڈیا کے مطابق شی نے خطے میں امن، استحکام اور ترقی کے لیے مزید حصہ ملانے پر بھی رضامندی ظاہر کی۔
یہ بات اہم ہے کہ رواں ہفتے سعودی عرب نے چین میں کئی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں اضافے کا اعلان کیا تھا۔ دسمبر میں شی جن پنگ کے دورہ سعودی عرب کے بعد سے اب تک سعودی عرب چین کے ساتھ دو بڑے اقتصادی معاہدے کر چکا ہے۔
سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستیں خطے میں سیکورٹی کی ضمانت دینے والے امریکہ کی جانب سے قدرے پیچھے ہٹنے پر تشویش کا شکار رہی ہیں۔ اس صورت حال میں خلیجی ممالک قومی سلامتی اور اقتصادی شعبے میں دیگر پارٹنر ملکوں کی تلاش میں ہیں۔
دوسری جانب سعودی عرب اور ایران کے وزرائے خارجہ نے ماہ رمضان میں ملاقات کا اعلان کیا ہے۔ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان حالیہ چند روز میں دو مرتبہ ٹیلی فونک رابطہ بھی ہو چکا ہے۔
مجموعی قومی پیداوار کا زیادہ حصہ عسکری اخراجات پر صرف کرنے والے ممالک
عالمی امن پر تحقیق کرنے والے ادارے سپری کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس دنیا بھر میں عسکری اخراجات میں اضافہ ہوا۔ سب سے زیادہ اضافہ کرنے والے ممالک میں بھارت، چین، امریکا، روس اور سعودی عرب شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Talbot
عمان
مجموعی قومی پیداوار کا سب سے بڑا حصہ عسکری معاملات پر خرچ کرنے کے اعتبار سے خلیجی ریاست عمان سرفہرست ہے۔ عمان نے گزشتہ برس 6.7 بلین امریکی ڈالر فوج پر خرچ کیے جو اس کی جی ڈی پی کا 8.8 فیصد بنتا ہے۔ مجموعی خرچے کے حوالے سے عمان دنیا میں 31ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سعودی عرب
سپری کے رپورٹ کے مطابق سعودی عرب اپنی مجموعی قومی پیداوار کا آٹھ فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے۔ سن 2019 میں سعودی عرب نے ملکی فوج اور دفاعی ساز و سامان پر 61.9 بلین امریکی ڈالر صرف کیے اور اس حوالے سے بھی وہ دنیا بھر میں پانچواں بڑا ملک ہے۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
الجزائر
شمالی افریقی ملک الجزائر نے گزشتہ برس 10.30 بلین ڈالر فوج اور اسلحے پر خرچ کیے جو اس ملک کی جی ڈی پی کا چھ فیصد بنتا ہے۔ عسکری اخراجات کے حوالے سے الجزائر دنیا کا 23واں بڑا ملک بھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
کویت
تیسرے نمبر پر کویت ہے جہاں عسکری اخراجات مجموعی قومی پیداوار کا 5.6 بنتے ہیں۔ کویت نے گزشتہ برس 7.7 بلین امریکی ڈالر اس ضمن میں خرچ کیے اور اس حوالے سے وہ دنیا میں میں 26ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZumaPress/U.S. Marines
اسرائیل
اسرائیل کے گزشتہ برس کے عسکری اخراجات 20.5 بلین امریکی ڈالر کے مساوی تھے اور زیادہ رقم خرچ کرنے والے ممالک کی فہرست میں اسرائیل کا 15واں نمبر ہے۔ تاہم جی ڈی پی یا مجموعی قومی پیداوار کا 5.3 فیصد فوج پر خرچ کر کے جی ڈی پی کے اعتبار سے اسرائیل پانچویں نمبر پر ہے۔
تصویر: AFP/H. Bader
آرمینیا
ترکی کے پڑوسی ملک آرمینیا کے عسکری اخراجات اس ملک کے جی ڈی پی کا 4.9 فیصد بنتے ہیں۔ تاہم اس ملک کا مجموعی عسکری خرچہ صرف 673 ملین ڈالر بنتا ہے۔
تصویر: Imago/Itar-Tass
اردن
اردن اپنی مجموعی قومی پیداوار کا 4.9 فیصد فوج اور عسکری ساز و سامان پر خرچ کر کے اس فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ اردن کے دفاع پر کیے جانے والے اخراجات گزشتہ برس دو بلین امریکی ڈالر رہے اور مجموعی رقم خرچ کرنے کی فہرست میں اردن کا نمبر 57واں بنتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Pix
لبنان
لبنان نے گزشتہ برس 2.5 بلین امریکی ڈالر عسکری اخراجات کیے جو اس ملک کے جی ڈی پی کے 4.20 فیصد کے برابر ہیں۔
تصویر: AP
آذربائیجان
آذربائیجان نے بھی 1.8 بلین ڈالر کے عسکری اخراجات کیے لیکن جی ڈی پی کم ہونے کے سبب یہ اخراجات مجموعی قومی پیداوار کے چار فیصد کے مساوی رہے۔
تصویر: REUTERS
پاکستان
سپری کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے گزشتہ برس اپنی مجموعی قومی پیداوار کا چار فیصد فوج اور عسکری معاملات پر خرچ کیا۔ سن 2019 کے دوران پاکستان نے 10.26 بلین امریکی ڈالر اس مد میں خرچ کیے یوں فوجی اخراجات کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا 24واں بڑا ملک ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
روس
روس کے فوجی اخراجات 65 بلین امریکی ڈالر رہے اور مجموعی خرچے کے اعتبار سے وہ دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ تاہم یہ اخراجات روسی جی ڈی پی کے 3.9 فیصد کے مساوی ہیں اور اس اعتبار سے وہ گیارہویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Pitalev
بھارت
بھارت عسکری اخراجات کے اعتبار سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ گزشتہ برس بھارت کا فوجی خرچہ 71 بلین امریکی ڈالر کے برابر رہا تھا جو اس ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا 2.40 فیصد بنتا ہے۔ اس حوالے وہ دنیا میں 33ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Reuters/S. Andrade
چین
چین دنیا میں فوجی اخراجات کے اعتبار سے دوسرا بڑا ملک ہے اور گزشتہ برس بیجنگ حکومت نے اس ضمن میں 261 بلین ڈالر خرچ کیے۔ یہ رقم چین کی جی ڈی پی کا 1.90 فیصد بنتی ہے اور اس فہرست میں وہ دنیا میں 50ویں نمبر پر ہے۔
دنیا میں فوج پر سب سے زیادہ خرچہ امریکا کرتا ہے اور گزشتہ برس کے دوران بھی امریکا نے 732 بلین ڈالر اس مد میں خرچ کیے۔ سن 2018 میں امریکی عسکری اخراجات 682 بلین ڈالر رہے تھے۔ تاہم گزشتہ برس اخراجات میں اضافے کے باوجود یہ رقم امریکی مجموعی قومی پیداوار کا 3.40 فیصد بنتی ہے۔ اس حوالے سے امریکا دنیا میں 14ویں نمبر پر ہے۔
سن دو ہزار سولہ میں تہران میں سعودی سفارت خانے پر مشتعل افراد کے حملے کے بعد سعودی عرب نے تہران میں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا تھا جب کہ ریاض سے ایرانی سفیر کو بے دخل کر دیا گیا۔ اس دوران دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر رہی۔ سعودی عرب نے اپنی ایک اہم آئل ریفائنری پر میزائل اور ڈرون حملے کی ذمہ داری ایران پر عائد کی تھی جب کہ ریاض حکومت خلیجی سمندروں میں تیل کے جہازوں پر حملے کا الزام بھی تہران حکومت پر دھرتی رہی ہے۔ ایران تاہم ان تمام الزامات کو رد کرتا رہا ہے۔