چینی صوبہ سنکیانگ: ایغور باشندوں کے حراستی مراکز، نئی فوٹیج
22 نومبر 2021
چینی صوبے سنکیانگ میں ایغور مسلم اقلیتی باشندوں کے لیے بنائے گئے حراستی مراکز سے متعلق ایک یوٹیوب ویڈیو کی صورت میں نئے حقائق سامنے آئے ہیں۔ ماہرین نے اس ویڈیو کو ایغور اقلیت کے خلاف کریک ڈاؤن کا نیا ثبوت قرار دیا ہے۔
اشتہار
اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد کئی ماہرین نے کہا ہے کہ چینی صوبے سنکیانگ میں ایغور مسلم اقلیت کے خلاف کریک ڈاؤن کی خبریں بالکل بےبنیاد تو کبھی نہیں تھیں۔ مزید یہ کہ یہ فوٹیج ایک طرف اگر چینی حکام کے ایغور باشندوں پر کریک ڈاؤن کا ایک نیا ثبوت ہے تو دوسری طرف اس فوٹیج کو جاری کرنے والے چینی ویڈیو بلاگر کی اپنی سلامتی بھی اب خطرے میں ہے۔
یہ یوٹیوب ویڈیو تقریباﹰ بیس منٹ دورانیے کی ہے اور اس میں سنکیانگ میں ایغور آبادی کے خود مختار علاقے میں قائم ایک درجن سے زائد ریاستی حراستی کیمپوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
ویڈیو بنائی کس نے؟
یہ یوٹیوب ویڈیو ایک ایسے چینی باشندے نے بنائی ہے، جس کا نام گوآن گوآن ہے۔ اس نے آن لائن امریکی نیوز پورٹل بزفیڈ نیوز پر اس چینی صوبے میں ایغور آبادی کے لیے قائم کردہ حراستی مراکز کے بارے میں بہت سے رپورٹیں پڑھی تھیں۔ اس کے بعد گوآن گوآن نے سنکیانگ تک کا سفر کیا اور اس دوران یہ ویڈیو بنائی، جو بعد ازاں یوٹیوب پر جاری کر دی گئی۔
بزفیڈ نیوز کے لیے سیٹلائٹ تصاویر کی مدد سے سنکیانگ میں ایسے کیمپوں کے نقشے تیار کرنے والی ایلیسن کِلنگ کے مطابق یہ فوٹیج انہی حقائق کی تصدیق کرتی ہے، جن کے بارے میں بہت سے غیر ملکی ماہرین کو یقین ہے کہ وہ سنکیانگ میں چینی حکام کی طرف سے ایغور مسلم اقلیت کے ساتھ زیادتیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔
ایلیسن کِلنگ نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں کہا، '' جب آپ سیٹلائٹ تصاویر کی مدد سے حقائق کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، تو آپ دیگر ذرائع سے ملنے والی ان معلومات پر بھی انحصار کرتے ہیں، جو مثال کے طور پر اب اس فوٹیج سے بھی ملتی ہیں۔‘‘
بزفید نیوز کی ایلیسن کِلنگ نے کہا، ''گوآن گوآن کی ویڈیو اس امر کی تصدیق میں بہت مددگار ثابت ہوئی ہے کہ سنکیانگ میں ایغور اقلیت کے لیے جیلوں کی طرح کے ایسے کئی حراستی مراکز قائم ہیں۔‘‘
'ریاستی پروپیگنڈا کی نفی‘
امریکا میں اٹلانٹک کونسل کے اسٹریٹیجک لِٹیگیشن پروجیکٹ کے ایک سینیئر فیلو ریحان اسد بھی ہیں۔ وہ خود بھی ایغور نسلی اقلیت سے تعلق رکھتے ہیں اور انسانی حقوق کے کارکن ہونے کے علاوہ ایک وکیل بھی ہیں۔ ریحان اسد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ نئی ویڈیو سنکیانگ میں جاری کریک ڈاؤن کو دستاویزی طور پر ریکارڈ کرنے کے عمل ہی کا حصہ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس ویڈیو سے چینی ریاست کے اس پروپیگنڈا کی نفی بھی ہوتی ہے، جس کے مطابق ایغور باشندے تو بس بہت خوش ہیں۔‘‘
چین میں ایغوروں کا دیس سکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل
چین کا کہنا ہے کہ اُسے اپنے مغربی علاقے سنکیانگ میں مسلمان انتہا پسندی کے ایک سنگین خطرے کا سامنا ہے۔ بیجنگ حکومت کا الزام ہے کہ ایغور مسلم اقلیت ہان چینی اکثریت کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
مغربی چینی علاقے سنکیانگ میں حفاظتی انتظامات سخت تر
چین کی قدیم شاہراہِ ریشم پر واقع شہر کاشغر میں دن میں تین بار الارم بجتا ہے اور دکاندار حکومت کی طرف سے دیے گئے لکڑی کے ڈنڈے تھامے فوراً اپنی دکانوں سے باہر نکل آتے ہیں۔ پولیس کی نگرانی میں منظم کی جانے والی ان انسدادِ دہشت گردی مشقوں کے دوران یہ دکاندار چاقو لہرانے والے فرضی حملہ آوروں کے خلاف لڑتے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
’وَن بیلٹ، وَن روڈ پروگرام‘
ایغور نسل کا ایک شہری صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کو جانے والے راستے پر جا رہا ہے۔ کاشغر نامی شہر کو، جو پہلے ایک تاریخی تجارتی چوکی ہوا کرتا تھا، صدر شی جن پنگ کے ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ نامی اُس اقتصادی پروگرام میں بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے، جس کے ذریعے وہ چین کو ایشیا، مشرقِ وُسطیٰ اور اُس سے بھی آگے واقع خطّوں کے ساتھ جوڑ دینا چاہتے ہیں۔
چین کو ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ میں خلل کا اندیشہ
خود مختار علاقے سنکیانگ ایغور میں ایک شخص اپنی بھیڑیں چرا رہا ہے۔ چین کے بدترین خدشات میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی بہت بڑے پیمانے کا حملہ بیجنگ میں اُس ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ کو نشانہ بنا سکتا ہے، جس میں کئی عالمی رہنماؤں کی شرکت متوقع ہے۔ علاقائی صدر مقام اُرمچی میں 2009ء میں ہونے والے نسلی ہنگاموں کے بعد سے سنکیانگ خونریز پُر تشدد واقعات کا مرکز بنا ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
چین میں نسلی اقلیت
ایک خاتون صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کے قریب ایک قبر پر دعا مانگ رہی ہے۔ ایغور ترک زبان بولنے والی اقلیت ہے، جس کے زیادہ تر ارکان سنی مسلمان ہیں۔ ایغوروں کا شمار چین میں سرکاری طور پر تسلیم شُدہ پچپن اقلیتوں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ ایغور مجموعی طور پر ایک قدرے معتدل اسلام پر عمل پیرا ہیں لیکن کچھ ایغور جا کر مشرقِ وُسطیٰ میں مسلمان ملیشیاؤں میں شامل ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
کمیونسٹ پارٹی کا دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا عزم
چینی میڈیا کے مطابق کسی دہشت گردانہ حملے کا خطرہ بہت زیادہ ہے اور اسی لیے کمیونسٹ پارٹی نے بھی مسلمان انتہا پسندوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ مثلاً چینی حکام نے مسلمان کمیونٹی کے رسم و رواج پر کئی طرح کی پابندیاں لگا دی ہیں۔ ریاستی پراپیگنڈے کو ’رَد کرنا‘ غیر قانونی قرار دیا گیا حالانکہ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ حکام اس ضابطے کو نافذ کیسے کریں گے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب
بہت سے مقامی باشندوں کے خیال میں انسدادِ دہشت گردی کی مشقیں ایک ظالمانہ سکیورٹی آپریشن کا حصہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ چند مہینوں سے سنکیانگ کے ایغور علاقوں میں یہ آپریشن تیز تر کر دیا گیا ہے اور اس کا مقصد سکیورٹی سے زیادہ بڑے پیمانے پر نگرانی کرنا ہے۔ کاشغر میں ایک دکاندار نے بتایا:’’ہماری کوئی نجی زندگی نہیں رہ گئی۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ کیا کرنے والے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/T. Peter
مسلمانوں کی مخصوص روایات پر پابندی
مردوں پر لگائی گئی سب سے نمایاں پابندی یہ ہے کہ وہ اپنی ’داڑھیاں غیر معمولی طور پر نہ بڑھائیں‘۔ خواتین پر نقاب پہننے کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ خاص طور پر ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں جیسے عوامی مقامات میں برقعہ کرنے والی خواتین کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے اور فوراً پولیس کو مطلع کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سکیورٹی عملے کے چوکس ارکان
حکام نے ایسے لوگوں کے لیے انعام کا اعلان کر رکھا ہے، جو لمبی داڑھیوں والے نوجوانوں یا ایسی مذہبی روایات کی پاسداری کی اطلاع دیں گے، جس میں انتہا پسندی کا پہلو نکل سکتا ہو۔ اس طرح مخبری کا ایک باقاعدہ نظام تشکیل دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار گروپ ایسے احکامات کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
معیشت یا سلامتی؟
حکومت سنکیانگ میں جبر کی پالیسیاں اختیار کرنے کے الزامات کو مسترد کرتی ہے اور اُن بھاری رقوم کا ذکر کرتی ہے، جو معدنی وسائل سے مالا مال اس خطّے کی اقتصادی ترقی کے لیے خرچ کی جا رہی ہیں۔ چین کی نسلی پالیسیوں کے ایک ماہر جیمز لائی بولڈ کے مطابق سنکیانگ میں سکیورٹی کے اقدامات لوگوں اور خیالات کے بہاؤ کو روکیں گے اور یوں ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ پروگرام کے خلاف جاتے ہیں۔
ریحان اسد نے امید ظاہر کی کہ اس ویڈیو کو بنانے والے گوآن گوآن کی طرح چین میں اور بھی بہت سے شہری اسی طرح ایغور باشندوں کے خلاف زیادتیوں کی مذمت کرتے ہوئے اس موضوع پر اپنی آواز بلند کریں گے۔‘‘
کئی حراستی کیمپوں کی ریکارڈنگ
اپنی اس ویڈیو میں گوآن گوآن خود بھی یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ انہوں نے 2019ء میں ایک بائیسکل پر سنکیانگ کا دورہ کیا اور کئی نظر بندی کیمپوں کی ویڈیوز بنائیں۔ گوآن گوآن نے سنکیانگ میں قیام کے دوران اس چینی صوبے میں آٹھ مختلف شہروں میں قائم 18 حراستی مراکز کے بارے میں معلومات ریکارڈ کیں۔
گوآن گوآن نے اپنی یہ ویڈیو یوٹیوب پر گزشتہ ماہ اکتوبر میں ریلیز کی۔ اگر ان کی ٹویٹس کی تفصیلات کو مد نظر رکھا جائے، تو یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے شاید 2020ء میں بھی سنکیانگ کا دورہ کیا اور وہاں ان کمیپوں کی مزید فوٹیج تیار کی۔
چین میں ایغور مسلم کمیونٹی کے علاوہ شمال مغربی چین میں خُوذُو مسلم اقلیت بھی آباد ہے۔ ان کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے۔ یہ زیادہ تر ننگ شا، گانسُو اور چنگ ہائی علاقوں میں آباد ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
خوذو مسلمانوں کا شہر لِنشیا، چھوٹا مکہ
ہُوئی یا خُوذُو مسلمان اکثریتی شہر لِنشیا کو ’چھوٹا مکہ‘ کے نام سے چین میں شہرت حاصل ہے۔ اس شہر میں چھوٹی بڑی 80 مساجد واقع ہے۔ یہ شہر دریائے ڈاشیا کے کنارے پر آباد ہے۔ ایغور مسلم دانشور خُوذُو مسلم کمیونٹی کو چین کی ہان نسل کے مسلمان قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا میں عورتیں سر پر سکارف پہنتی ہیں
خوذو مسلم خواتین خاصی متحرک اور فعال تصور کی جاتی ہیں۔ بڑی عمر کی عورتوں میں سفید اسکارف پہننا عام طور پر دیکھا گیا ہے۔ ان کا اسکارف چینی انداز کا ہوتا ہے۔ اب کئی نوجوان لڑکیوں میں ایسے جدید پہناوے پسند کیے جاتے ہیں، جن سے برہنگی ظاہر نہ ہو۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا: سبز گنبدوں والا شہر
گانسو صوبے کا شہر لِنشیا ڈھائی لاکھ سے زائد آبادی کا شہر ہے۔ اس کی اکثریتی آبادی چینی زبان بولنے والے خُوذُو مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس شہر کی مساجد ہر جمعے کے دن نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
نوجوان لڑکیوں کے لیے قرآنی تعلیم کا سلسلہ
خُوذُو مسلمان کمیونٹی اپنی مساجد میں خاص طور پر مذہبی کتاب قرآن کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان مساجد میں نوعمر لڑکیوں کو بھی قرآن پڑھایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Wong
خوذو مسلمان
چین میں دس بڑے نسلی گروپوں میں خوذو یا ہوئی مسلمان بھی شمار ہوتے ہیں۔ یہ زیادہ تر چین کے اقتصادی طور پر کمزو علاقے میں آباد ہیں۔ اس علاقے میں تعلیم بھی اتنی عام نہیں جتنی بقیہ چینی شہروں میں ہے۔ یہ ایغور نسل کے مسلمان نہیں تصور کیے جاتے۔ تصویر میں ایک قصبےوُوہژونگ کی مسجد میں شام کی نماز ادا کی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Weiken
خواتین میں دینی شعار کا شوق
نوجوان لڑکیاں مختلف رنگوں کے اسکارف پہنتی ہیں۔ مساجد میں پہنچ پر قرآن کی تلاوت کرنا بھی خُوذُو یا ہُوئی خواتین کو پسند ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Reynolds
چینی صدر کا خُوذُو مسلمانوں کی مسجد کا دورہ
چین کے صدر شی جن پنگ نے سن 2016 میں نِنگ شا کے علاقے یِن چوان کی ایک مسجد کا دورہ کیا تھا۔ مسجد میں پہنچ کر انہوں نے مقامی ہُوئی مسلمانوں سے ملاقات کے ساتھ ساتھ اُن کے عمومی مسائل پر گفتگو کی۔ چینی صدر تین دن تک نِنگ شا میں مقیم رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press/J. Peng
نِنگ شا کا نیم خود مختار علاقہ
چین کے شمال مغرب میں واقع ننگ شا کے نیم خود مختار علاقے کا فضائی منظر۔ یہ علاقہ پہاڑوں میں گھِرا ہوا ہے اور چین کے پسماندہ علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس علاقے کی زمینیں بنجر ہیں اور قحط سالی بھی چلتی رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شرح بیروزگاری بھی معمول سے زیادہ رہی ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں بیجنگ حکومت نے اس علاقے پر توجہ مرکوز کی ہے اور اب واضح معاشی تبدیلیاں ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں۔
تصویر: picture alliance/Xinhua News Agency
8 تصاویر1 | 8
چین کا شاید سب سے بڑا حراستی مرکز
اس سال جولائی میں امریکی نیوز ایجنسی اے پی کے ایک نامہ نگار نے بھی سنکیانگ کا دورہ کیا تھا اور اس دوران ارمچی کے ایک حراستی مرکز کی کچھ تفصیلات بھی منظر عام پر آئی تھیں۔ اس کے علاوہ سنکیانگ کے شہر دابان چینگ میں ایک ایسے کیمپ کا ذکر بھی کیا گیا تھا، جسے پورے چین اور غالباﹰ دنیا کا سب سے بڑا حراستی کمپلیکس قرار دیا گیا تھا۔ اس کمپلیکس میں دس ہزار تک افراد کو رکھنے کی گنجائش تھی اور یہ 220 ایکٹر سے بھی زیادہ رقبے پر پھیلا ہوا تھا۔
اشتہار
ویڈیو بلاگر کی اپنی زندگی خطرے میں
یوٹیوب پر جاری کردہ اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس میں گوآن گوآن نے اپنا چہرہ دکھانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ لیکن یہی بات خود ان کی اپنی زندگی کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے، جس پر انسانی حقوق کی کئی تنظیموں نے تشویش بھی ظاہر کی ہے۔
گوآن گوآن نے جمعہ 19 نومبر کو اپنے یوٹیوب چینل پر ایک اور ویڈیو پوسٹ کی، جس میں وہ کہتے ہیں، ''میں اتنی طاقت تو نہیں رکھتا کہ خود چینی حکومت کو براہ راست چیلنج کر سکوں۔ لیکن میں وہ سب کچھ تو کر رہا ہوں، جو میرے بس میں ہے۔‘‘
م م / ع ا (ولیم یینگ، تائی پے)
چین: ایغور مسلمان بچوں کی شرح پیدائش کم کرنے کی جبری کوشش