1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'چینی فوج نے متفقہ اصولوں کو نظر انداز کیا ہے' :بھارت

صلاح الدین زین
26 جون 2020

بھارت نے چین پر سخت الزامات عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے سرحدکے حوالے سے باہمی متفقہ اصولوں کی پاسداری نہیں کی، دوسری طرف چین نے بھارت کو ایسے اقدام سے گریز کرنے پر زور دیا جس سے حالات کے مزید خراب ہونے کا خدشہ ہو۔

Konflikt China Indien | Ganderbal-Grenze
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press/I. Abbas

 بھارت نے چین کے ساتھ سرحدی تنازعہ کے حوالے سے پہلی بار سخت الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے کہا ہے کہ لائن آف ایکچول کنٹرول (ایل اے سی) کے پار بھارتی فوج نے صورتحال کو یکطرفہ طور پر کبھی بھی تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی لیکن اس بار ''چینی فوج نے سرحد سے متعلق باہمی طور پر تمام متفقہ اصولوں کو مکمل طور پر نظر انداز کیا ہے۔''

سرحد پر بھارت کے مختلف علاقوں میں مبینہ چینی فوج کی دراندازی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر ایل اے سی پر ''موجودہ صورت یونہی جاری رہی تو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو فروغ دینے کے لیے ماحول مزید خراب ہوتا جائیگا۔''

بدھ 24 جون کو بھارت اور چین کے سفارت کاروں نے بات چیت کے بعد سرحد پر کشیدگی کم کرنے پر اتفاق کیا تھا، جس کے ایک روز بعد بھارت کی جانب سے یہ بیان جاری کیا گیا۔ وزارت خارجہ کا کہنا تھا، ''اس معاملے کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ مئی کے اوائل سے ہی چین نے ایل اے سی کے آس پاس بڑی تعداد میں فوج اور اسلحہ جمع کرنا شروع کر دیا تھا۔''

تصویر: DW/S. Ghosh

 سیٹلائٹ سے لی جانے والی تصاویر کے حوالے سے بھارتی میڈیا میں یہ خبریں تفصیل سے شائع ہوئی ہیں کہ مشرقی لداخ کی وادی گلوان میں چینی فوج کے خیمے نصب ہیں اور کچھ تعمیراتی کام بھی جاری ہے۔ گلوان وادی میں ہی 15 اور 16 جون کی رات کو بھارت اور چینی فوجیوں کے درمیان جھڑپ ہوئی تھی جس میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔

بھارت اور چین دونوں ہی گلوان وادی پر اپنا اپنا دعوی کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے ایک سوال کے جواب میں بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سری واستوا کا کہنا تھا، ''گلوان وادی کے علاقے میں دونوں جانب سے بھاری تعداد میں فوجیں تعینات ہیں جبکہ سفارتی اور فوجی سطح پر فریقین ایک دوسرے سے رابطے میں بھی ہیں۔''

انوراگ سری واستوا کا کہنا تھا کہ یہ صورتحال بھارت اور چین کے درمیان سن 1993 میں ہونے والے معاہدے کے بالکل برعکس ہے۔ ''ظاہر ہے کہ چین کی سرگرمیوں کے مد نظر بھارت کو بھی اپنی جانب سے فوج تعینات کرنی پڑی اور اس کے نتیجے میں کشیدگی میں اضافہ ہوا جو اب تک سب کچھ ظاہر ہو چکا ہے۔'' ان کا کہنا تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں فوجیوں کے آمنے سامنے ہونے سے صورتحال مزید کشیدہ اور خراب ہوئی ہے۔

بھارتی وزارت خارجہ کے بیان سے پہلے نئی دہلی میں چینی سفارت کار سن وی ڈونگ کا ایک انٹر ویو شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے ایل اے سی کے تمام واقعات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کشیدگی کے لیے بھارت کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔ یہ انٹرویو  ایک بھارتی خبر رساں ایجنسی لیا تھا جو سفارت خانے کی ویب سائٹ پر شائع کیا گیا ہے۔

چینی سفیرکا کہنا ہے کہ چین موجودہ کشیدگی اور تنازعہ کے حل کے لیے بھارت کے ساتھ مناسب طریقے سے کام کرنے کے لیے تیار ہے اور دونوں ملک اپنے اختلافات کو بہتر طور پر حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ا ن کا کہنا تھا، بھارت اور چین کے درمیان سرحد پر صورت حال مجموعی طور پر مستحکم اور کنٹرول کے لائق ہے۔

انہوں نے کہا کہ نئی دہلی کو کسی بھی ایسے اقدام سے گریز کرنا چاہیے جس سے مشرقی لداخ میں صورت حال مزید پیچیدہ ہونے کا خدشہ ہو۔ ان کا کہنا تھا، ''ہم امید کرتے ہیں کہ بھارتی فریق چینی فریق سے درمیان میں ملاقات کرے گا، کسی بھی ایسی کارروائی سے گریز کرے گا جس سے صورت حال کے مزید پیچیدہ ہونے کا خطرہ ہو اور ایسے اقدامات کرے گا جس سے سرحدی علاقوں میں استحکام کو برقرار رکھنے میں مدد ملے گی۔''

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق  ایل اے سی پر کئی ان مقامات پر چینی فوج موجود ہے جس پر بھارت اپنا دعوی کرتا ہے اور وادی گلوان ان میں سے ایک ہے۔ لیکن بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ بھارت کی سرزمین پر نہ تو کوئی داخل ہوا اور نہ ہی اس کی کوئی ایک انچ زمین کسی کے قبضے میں ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں