1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چینی مافیا دھوکا دہی کے مراکز کیسے چلاتا ہے؟

30 جنوری 2024

کے کے پارک میں جو ملازمین فریب پر مبنی کام کرنے سے انکار کرتے ہیں انہیں تشدد، فاقہ کشی اور یہاں تک کہ قتل و غارت کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈی ڈبلیو نے ایشیا کے سب سے خطرناک 'سکیم کمپاؤنڈ' کے بارے میں تحقیقات کی ہے۔

میانمار کے کے پارک
تھائی میانمار کی سرحد پر واقع ایک کمپاؤنڈ کے کے پارک میں ہزاروں لوگوں کو اسمگل کیا گیا ہے جو دنیا بھر کے لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔تصویر: Stefan Czimmek/DW

ایرون کو جب ایک ٹک کمپنی نے تھائی لینڈ  میں ایک ڈریم جاب کی پیشکش کی تو اسے اپنی قسمت پر یقین نہیں آرہا تھا۔ اس کے لیے بھاری تنخواہ کے ساتھ ساتھ افریقہ کے جنوبی خطے سے نکلنے کا یہ بہترین موقع تھا۔ ایرون کہتے ہیں، "میں بیرون ملک کام کرنا چاہتا تھا اور ایک دن مجھ سے رابطہ کیا گیا، بنکاک پہنچنے سے پہلے تک مجھے لگا کہ سب کچھ قانونی طریقے سے ہو رہا ہے۔"

ایرون کا ایئرپورٹ پر گرم جوشی سے استقبال کیا گیا اور اسے مشرقی افریقہ کے دو نوجوانوں کے ساتھ گاڑی میں بٹھا دیا گیا۔ ایرون کے بقول، "ہمیں ایئرپورٹ سے کچھ ہی فاصلے پر واقع ہوٹل میں جانا تھا لیکن وہ ہمیں کسی دوسرے مقام پر لے کر جا رہے تھے۔" گاڑی میں آٹھ گھنٹے کے سفر کے بعد انہیں تھائی لینڈ کے سرحدی شہر مے سوت سے دریائے موئی کے ذریعے میانمار کے جنگ زدہ حصے میں اسمگل کر دیا گیا۔

ٹریفکنگ کا بحران

ایرون اور اس کے ساتھیوں کو 'کے کے پارک' نامی جیل نما کمپاؤنڈ میں اسمگل کیا گیا جہاں، امریکہ، یورپ اور چین میں  لوگوں کو دھوکا دینے  کے لیے ہزاروں افراد کو جرائم کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق میانمار میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد کو ایسے 'سکیم سینٹرز' میں کام کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

ڈی ڈبلیو نے تحقیقات کے دوران کمپاؤنڈ سے بچ جانے والے کچھ متاثرہ افراد سے بات چیت کی۔ انہوں نے وہاں وسیع پیمانے پر نگرانی، تشدد اور یہاں تک کہ ہفتہ وار قتل کے واقعات کے بارے میں بتایا۔

ڈی ڈبلیو نے سیٹلائٹ کی تصاویر حاصل کیں جو کے کے پارک کی ترقی کو ظاہر کرتی ہیں۔ بائیں طرف کی تصویر 18 فروری 2020 کو لی گئی تھی، دائیں طرف کی تصویر 17 جنوری 2024 کو لی گئی تھی۔تصویر: Maxar Technologies provided by European Space Imaging

مغربی افریقہ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان لوکاس نے کہا، "ہم دن میں 17 گھنٹے کام کرتے تھے، بغیر کسی شکایت، چھٹیوں، اور آرام کے۔" ان کے بقول، "اور اگر ہم یہ کہتے کہ ہم وہاں سے جانا چاہتے ہیں، تو وہ ہمیں کہتے تھے کہ ہمیں بیچ دیا جائے گا - یا مار دیا جائے گا۔"

لیکن اس وحشیانہ کارروائی کے پیچھے کون ہے؟

مقامی سہولت کار

ڈی ڈبلیو نے کمپاؤنڈ کے اندر سے لی گئی خصوصی تصاویر کا جائزہ لیا اور ایسے کئی زندہ بچ جانے والے افراد سے گفتگو کی جنہیں وہاں رکھا گیا تھا۔ ان سب نے گارڈز کی یونیفارم پر لگے بیجز کو پہچان لیا جو کہ سرکاری بارڈر گارڈ فورس کا نشان ہیں۔ یہ سابق باغیوں کا ایک گروپ ہے جس نے ایک دہائی قبل اپنے علاقوں پر آزاد حکومت کے بدلے میانمار کے جنتا سے لڑائی بند کر دی تھی۔ ان کے سپاہی کے کے پارک میں موجود ہیں۔ لیکن کئی ذرائع کے مطابق آپریشن کے مالکان چینی ہیں۔

کرپٹو کے سراغ

ڈی ڈبلیو نے دھوکا دہی کا شکار ہونے والے متعدد متاثرین کی مدد سے پیسوں کی منتقلی کی چھان بین کی تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ ادائیگیاں کیسے کی گئیں۔ منی ٹریل کے ذریعے ہم کریپٹو کرنسی والیٹس  تک پہنچے جو 'کے کے پارک' کی طرف سے متاثرین کے فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ وہاں سے، فنڈز کو دوسرے والیٹس میں منتقل کیا گیا، جو ڈیجیٹل اکاؤنٹس کی طرح کام کرتے ہیں اور کریپٹو کرنسیوں کو اسٹور کرتے ہیں۔

ان میں سے ایک والیٹ تھائی لینڈ میں مقیم ایک چینی تاجر وانگ یی چینگ نے کھولا تھا۔ اس نے کے کے پارک کے زیر استعمال والیٹ سے دسیوں ملین ڈالر مالیت کی کریپٹو کرنسی وصول کی تھی۔

وان کوک کوئی، جسے بروکن ٹوتھ بھی کہا جاتا ہے، نے منظم جرائم میں ملوث ہونے کی وجہ سے مکاؤ میں ایک دہائی سے زیادہ عرصہ جیل میں گزارا۔تصویر: AFP/dpa/picture-alliance

وانگ چین کے بیرون ملک مقیم کاروباری افراد کے ایک وسیع نیٹ ورک کا حصہ ہیں، جو کہ ایک چینی مافیا باس  سے جڑا ہے۔ جب وانگ KK کے زیر انتظام والیٹ سے براہ راست منتقلی حاصل کر رہے تھے، اس وقت وہ تھائی-ایشیا اکنامک ایکسچینج ایسوسی ایشن کے نائب صدر کے عہدے پر فائض تھے۔ یہ تنظیم بنکاک میں چینی اور تھائی تعلقات کو فروغ دیتی ہے۔

تھائی-ایشیا تنظیم اور اوورسیز ہانگ مین کلچر ایکسچینج سینٹر ایک ہی عمارت میں واقع ہیں، جس پر سن 2023 میں پولیس نے غیر قانونی طور پر کام کرنے اور چینی منظم جرائم کے محاذ کے طور پر کام کرنے کی وجہ سے چھاپہ مارا تھا۔

کرائم باس

یہ تنظیمیں وان کووک کوئی عرف 'بروکِن ٹوتھ' سے قریبی تعلق رکھتی ہیں، جس نے سن 2018 میں 'ورلڈ ہانگ مین ہسٹری اینڈ کلچر ایسوسی ایشن' کا آغاز کیا تھا۔ اس تنظیم پر امریکہ نے منظم جرائم میں ملوث ہونے کی وجہ سے پابندی عائد کر رکھی ہے۔

لیکن وان کی 'ہانگ مین' تنظیم بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI)  کو بھی فروغ دیتی ہے، جو کہ ایک ٹریلین ڈالر کی مالیت کا انفرااسٹرکچر منصوبہ ہے۔ اس کا مقصد چین کو عالمی معیشت میں مزید ضم کرنا ہے۔ اسے نیو سلک روڈ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

یو ایس انسٹی ٹیوٹ فار پیس میں منظم جرائم کے ایک سرکردہ ماہر جیسن ٹاور نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وان کووک کوئی کے مطابق وہ کافی پہلے کارٹیلز کے لیے لڑتا تھا، اور اب وہ چینی کمیونسٹ پارٹی کے لیے لڑتا ہے۔"

چینی مجرمانہ تنظیموں نے کے کے پارک سے منسلک کارروائیوں کے لیے بنکاک کو ایک مرکز کے طور پر استعمال کیا ہے۔تصویر: Stefan Czimmek

جس علاقے میں کے کے پارک بنایا گیا تھا وہ چین کی سرمایہ کاری کے لیے اہم علاقہ ہے۔ بی آر ای منصوبے کے تحت چینی حکومت نے کے کے پارک کے آس پاس کے ترقیاتی منصوبوں کو سراہا بھی تھا، اور پھر بڑے پیمانے پر دھوکا دہی کے الزامات کے بعد خود کو ان سے الگ کر لیا تھا۔

چین کی سرکاری بات چیت میں کے کے پارک کا بظاہر ذکر نہیں ہے اور نہ ہی بیجنگ حکومت نے یہاں دیگر ترقیاتی منصوبوں کی طرح سنگِ بنیاد کے موقع پر تقریبات منعقد کی تھیں۔ اس کے بجائے، کے کے پارک کو دھوکا دہی کے مقصد سے ہی بنایا گیا تھا۔

وسیع تر نیٹ ورک

کے کے پارک کی دھوکا دہی کی کارروائیاں کاروباری اداروں اور تنظیموں کے ایک پیچیدہ نیٹ ورک کی جانب اشارہ کرتی ہیں جنہیں جرائم پیشہ افراد اپنے جرائم اور لاکھوں کے دھوکا دہی والے اثاثوں کو جائز بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں — اور یہ نیٹ ورک جنوب مشرقی ایشیا سے افریقہ، یورپ اور شمالی امریکہ تک پھیلتا جا رہا ہے۔

جیسن ٹاور کا کہنا ہے، "ہم واقعی دیکھ رہے ہیں کہ یہ مجرمانہ نیٹ ورک  زیادہ سے زیادہ طاقتور، بااثر، اور دنیا کے مختلف ممالک میں شمولیت اختیار کر رہے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کوششیں ابھی ان سے کافی دور ہیں۔"

نوٹ: ڈی ڈبلیو کی دستاویزی فلم 'Scam Factory: Behind Asia's Cyber Slavery' میں کے کے پارک کے بارے میں مزید معلومات حاصل کریں۔ ایرون، لوکاس اور لورا کے نام سکیورٹی مقاصد کے لیے تبدیل کیے گئے تھے۔

لوئس سینڈرس، جولیا بائر، جولیٹ پنیدا، یوچین لی /ع آ / ک م

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں