چینی کمپنی علی بابا کا ایغور پہچان کا متنازعہ سوفٹ وئیر
17 دسمبر 2020
ایک رپورٹ کے مطابق چینی کمپنی علی بابا نے اپنے صارفین کو چہرے سے پہچان لینے والے سوفٹ وئیر تک رسائی دی ہے، جس کی مدد سے چین میں بسنے والے ایغور مسلمانوں کو پہنچانا جا سکتا ہے۔
اشتہار
اس رپورٹ کے مطابق متعدد دیگر چینی کمپنیوں کے بعد اب علی بابا بھی مسلمانوں اقلیت کے ساتھ روا رکھے جانے والے متنازعہ برتاؤ کا حصہ بن گئی ہے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق علی بابا کی ویب سائٹ پر کلاؤڈ کمپیوٹنگ کاروبار میں دکھایا گیا کہ کس طرح صارفین ایک سوفٹ وئیر کو استعمال کر کے ایغور مسلمانوں اور دیگر نسلی اقلیتوں کو تصاویر اور ویڈیوز میں چہرے کے نقوش سے پہچان سکتے ہیں۔
امریکا میں قائم ویب سائٹس کی نگرانی و تحقیق کے ادارے آئی پی وی ایم کے مطابق بعد میں یہ حوالے علی بابا کی ویب سائٹس سے مٹا دیے گئے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس رپورٹ کے حوالے سے علی بابا سے رابطہ کیا گیا، تاہم اس کمپنی نے اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق علی بابا نے صارفین کے لیے یہ فنکشن فقط آزمائشی بنیادوں پر متعارف کروایا۔
گزشتہ ہفتے آئی پی وی ایم نے بتایا تھا کہ ہواوے کمپنی چہرے سے پہچان لینے والے ایک سوفٹ ویئر کی تیاری میں مصروف رہی ہے، جو ایغوروں کو پہچان کر خودکار طریقے سے پولیس کو اطلاع کر دیتا ہے۔ ہواوے نے تاہم ان الزامات کو رد کیا تھا۔
اس کے دو روز بعد ہی بارسلونا کے مشہور فٹ بالر انٹونی گریزمن نے کہا تھا کہ اس انکشاف کے بعد انہوں نے ہواوے کی توصیفی توثیق کی ایک ڈیل ختم کی ہے۔
چین میں ایغوروں کا دیس سکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل
چین کا کہنا ہے کہ اُسے اپنے مغربی علاقے سنکیانگ میں مسلمان انتہا پسندی کے ایک سنگین خطرے کا سامنا ہے۔ بیجنگ حکومت کا الزام ہے کہ ایغور مسلم اقلیت ہان چینی اکثریت کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
مغربی چینی علاقے سنکیانگ میں حفاظتی انتظامات سخت تر
چین کی قدیم شاہراہِ ریشم پر واقع شہر کاشغر میں دن میں تین بار الارم بجتا ہے اور دکاندار حکومت کی طرف سے دیے گئے لکڑی کے ڈنڈے تھامے فوراً اپنی دکانوں سے باہر نکل آتے ہیں۔ پولیس کی نگرانی میں منظم کی جانے والی ان انسدادِ دہشت گردی مشقوں کے دوران یہ دکاندار چاقو لہرانے والے فرضی حملہ آوروں کے خلاف لڑتے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
’وَن بیلٹ، وَن روڈ پروگرام‘
ایغور نسل کا ایک شہری صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کو جانے والے راستے پر جا رہا ہے۔ کاشغر نامی شہر کو، جو پہلے ایک تاریخی تجارتی چوکی ہوا کرتا تھا، صدر شی جن پنگ کے ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ نامی اُس اقتصادی پروگرام میں بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے، جس کے ذریعے وہ چین کو ایشیا، مشرقِ وُسطیٰ اور اُس سے بھی آگے واقع خطّوں کے ساتھ جوڑ دینا چاہتے ہیں۔
چین کو ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ میں خلل کا اندیشہ
خود مختار علاقے سنکیانگ ایغور میں ایک شخص اپنی بھیڑیں چرا رہا ہے۔ چین کے بدترین خدشات میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی بہت بڑے پیمانے کا حملہ بیجنگ میں اُس ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ کو نشانہ بنا سکتا ہے، جس میں کئی عالمی رہنماؤں کی شرکت متوقع ہے۔ علاقائی صدر مقام اُرمچی میں 2009ء میں ہونے والے نسلی ہنگاموں کے بعد سے سنکیانگ خونریز پُر تشدد واقعات کا مرکز بنا ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
چین میں نسلی اقلیت
ایک خاتون صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کے قریب ایک قبر پر دعا مانگ رہی ہے۔ ایغور ترک زبان بولنے والی اقلیت ہے، جس کے زیادہ تر ارکان سنی مسلمان ہیں۔ ایغوروں کا شمار چین میں سرکاری طور پر تسلیم شُدہ پچپن اقلیتوں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ ایغور مجموعی طور پر ایک قدرے معتدل اسلام پر عمل پیرا ہیں لیکن کچھ ایغور جا کر مشرقِ وُسطیٰ میں مسلمان ملیشیاؤں میں شامل ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
کمیونسٹ پارٹی کا دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا عزم
چینی میڈیا کے مطابق کسی دہشت گردانہ حملے کا خطرہ بہت زیادہ ہے اور اسی لیے کمیونسٹ پارٹی نے بھی مسلمان انتہا پسندوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ مثلاً چینی حکام نے مسلمان کمیونٹی کے رسم و رواج پر کئی طرح کی پابندیاں لگا دی ہیں۔ ریاستی پراپیگنڈے کو ’رَد کرنا‘ غیر قانونی قرار دیا گیا حالانکہ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ حکام اس ضابطے کو نافذ کیسے کریں گے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب
بہت سے مقامی باشندوں کے خیال میں انسدادِ دہشت گردی کی مشقیں ایک ظالمانہ سکیورٹی آپریشن کا حصہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ چند مہینوں سے سنکیانگ کے ایغور علاقوں میں یہ آپریشن تیز تر کر دیا گیا ہے اور اس کا مقصد سکیورٹی سے زیادہ بڑے پیمانے پر نگرانی کرنا ہے۔ کاشغر میں ایک دکاندار نے بتایا:’’ہماری کوئی نجی زندگی نہیں رہ گئی۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ کیا کرنے والے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/T. Peter
مسلمانوں کی مخصوص روایات پر پابندی
مردوں پر لگائی گئی سب سے نمایاں پابندی یہ ہے کہ وہ اپنی ’داڑھیاں غیر معمولی طور پر نہ بڑھائیں‘۔ خواتین پر نقاب پہننے کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ خاص طور پر ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں جیسے عوامی مقامات میں برقعہ کرنے والی خواتین کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے اور فوراً پولیس کو مطلع کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سکیورٹی عملے کے چوکس ارکان
حکام نے ایسے لوگوں کے لیے انعام کا اعلان کر رکھا ہے، جو لمبی داڑھیوں والے نوجوانوں یا ایسی مذہبی روایات کی پاسداری کی اطلاع دیں گے، جس میں انتہا پسندی کا پہلو نکل سکتا ہو۔ اس طرح مخبری کا ایک باقاعدہ نظام تشکیل دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار گروپ ایسے احکامات کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
معیشت یا سلامتی؟
حکومت سنکیانگ میں جبر کی پالیسیاں اختیار کرنے کے الزامات کو مسترد کرتی ہے اور اُن بھاری رقوم کا ذکر کرتی ہے، جو معدنی وسائل سے مالا مال اس خطّے کی اقتصادی ترقی کے لیے خرچ کی جا رہی ہیں۔ چین کی نسلی پالیسیوں کے ایک ماہر جیمز لائی بولڈ کے مطابق سنکیانگ میں سکیورٹی کے اقدامات لوگوں اور خیالات کے بہاؤ کو روکیں گے اور یوں ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ پروگرام کے خلاف جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
9 تصاویر1 | 9
چین کو سینکیانگ میں ایغور مسلمانوں کے ساتھ برتاؤ پر شدید عالمی تنقید کا سامنا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق قریب ایک ملین ایغور اور دیگر برادریوں سے تعلق رکھنے والے افراد، جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے، مختلف حراستی مراکز میں موجود ہیں۔ چین ان مراکز کو 'تربیت نو کے مراکز‘ قرار دیتا ہے۔ ابتدا میں بیجنگ حکومت نے ان کیمپوں کی موجودگی سے انکار کیا تھا، تاہم اب چینی حکومت انہیں 'ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز‘ کہتی ہے۔ چینی حکومت کا موقف ہے کہ ان مراکز کے ذریعے دہشت گردی کے خاتمے کے علاوہ ایغور مسلمانوں کو ملازمت کے لیے ہنرمند بنایا جاتا ہے۔