سنکیانگ میں مسلم خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی، امریکا فکرمند
4 فروری 2021
امریکا نے چین میں ’تربیتی کیمپوں‘ میں ایغور اور دیگر مسلم عورتوں کے ساتھ منظم جنسی زیادتی اور جنسی استحصال کی خبروں پر ’انتہائی تشویش‘ کا اظہار کیا ہے۔
اشتہار
امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ چین کے سنکیانگ صوبے میں 'تربیتی کیمپوں‘میں نسلی ایغور اور دیگر مسلم اقلیتو ں کے خلاف ہونے والی زیادتیوں کے سنگین مضمرات ہوں گے۔ اس نے ایغور اور دیگر مسلم خواتین کے ساتھ منظم انداز میں جنسی زیادتی اور جنسی استحصال کی خبروں پر 'انتہائی تشویش‘کا اظہار کیا ہے۔
ایک برطانوی نشریاتی ادارے نے بدھ کے روز اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ چین میں ایغور افراد کے لیے بنائے گئے 'تربیتی کیمپوں‘میں خواتین کے ساتھ منظم انداز میں ریپ کیا جاتا ہے، انھیں جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے اور ان پر تشدد کیا جاتا ہے۔
متعدد سابق قیدیوں اور ایک گارڈ نے نشریاتی ادارے کو بتایا کہ خود ان کے ساتھ اس طرح کا ہولناک تجربہ ہوچکا ہے یا وہ ایسے منظم ریپ، اجتماعی جنسی زیادتی اور اذیت رسانی کے شاہد رہے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ایک ترجمان نے ان خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ”ہمیں ان خبروں پر انتہائی تشویش ہے۔ یہ سنکیانگ میں ایغور اور دیگر مسلم اقلیتوں کے لیے بنائے گئے 'تربیتی کیمپوں‘ میں خواتین کے ساتھ منظم ریپ اور جنسی استحصال کے براہ راست ثبوت ہیں۔"
امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان نے سنکیانگ میں چین پر 'انسانیت کے خلا ف جرائم اور نسل کشی‘ کے امریکی الزامات کا اعادہ کیا اور کہا ”ان مظالم نے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور ان کے یقینا سنگین مضمرات ہوں گے۔"
امریکی عہدیدار کا کہنا تھا کہ چین کو سنکیانگ میں ایغور اقلیتوں پر ہونے والی دیگر زیادتیوں کے علاوہ جنسی زیادتی کے ان الزامات کی بین الاقوامی مشاہدین کے ذریعہ فوری اور آزادانہ تفتیش کی اجازت دینی چاہیے۔
امریکی عہدیدار نے 'مضمرات‘ کے حوالے سے کوئی وضاحت نہیں کہ تاہم کہا کہ امریکا اپنے دیگر حلیفوں کے ساتھ ان زیادتیوں کی مذمت کرے گا اور ''اس کے لیے قصور وار افراد کا احتساب کرنے نیز مستقبل میں اس طرح کے استحصال کو روکنے کے لیے تمام مناسب ذرائع پر غور کرے گا۔"
چین: ایغور مسلمان بچوں کی شرح پیدائش کم کرنے کی جبری کوشش
02:50
سابق صدر ڈونلد ٹرمپ کی انتظامیہ نے سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث چینی عہدیداروں اور کمپنیوں کے خلاف پابندیاں عائد کردی تھیں۔ نئے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے ذمہ داری سنبھالنے کے بعد کہا تھا کہ وہ سنکیانگ اور دیگر معاملات کے حوالے سے سخت موقف برقرار رکھے گی۔
چین سنکیانگ میں کسی بھی طرح کی زیادتی کے الزامات کی تردید کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہاں تعمیر کردہ عمارتوں میں ایغور مسلمانوں کو ووکیشنل ٹریننگ دی جاتی ہے تاکہ انہیں اسلامی انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی سے باہر نکلنے میں مدد مل سکے۔
چینی وزارت خارجہ کی ترجمان وانگ وین بین نے برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے 'اسے حقائق سے بالا تر‘ قرار دیا اور الزام لگایا کہ جن لوگوں سے اس سلسلے میں انٹرویو کیا گیا وہ متعدد مرتبہ جھوٹی اطلاع فراہم کرنے میں مدد گار پائے گئے ہیں۔
گزشتہ برس ایک جرمن محقق نے چین پر الزام لگایا تھا کہ سنکیانگ میں مسلم عورتوں کو زبردستی بانجھ بنایا جا رہا ہے، انہیں حمل ساقط کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے اور ڈرا دھمکا کر فیملی پلاننگ کرائی جاتی ہے۔
ج ا / ص ز (روئٹرز)
چین میں ایغوروں کا دیس سکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل
چین کا کہنا ہے کہ اُسے اپنے مغربی علاقے سنکیانگ میں مسلمان انتہا پسندی کے ایک سنگین خطرے کا سامنا ہے۔ بیجنگ حکومت کا الزام ہے کہ ایغور مسلم اقلیت ہان چینی اکثریت کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
مغربی چینی علاقے سنکیانگ میں حفاظتی انتظامات سخت تر
چین کی قدیم شاہراہِ ریشم پر واقع شہر کاشغر میں دن میں تین بار الارم بجتا ہے اور دکاندار حکومت کی طرف سے دیے گئے لکڑی کے ڈنڈے تھامے فوراً اپنی دکانوں سے باہر نکل آتے ہیں۔ پولیس کی نگرانی میں منظم کی جانے والی ان انسدادِ دہشت گردی مشقوں کے دوران یہ دکاندار چاقو لہرانے والے فرضی حملہ آوروں کے خلاف لڑتے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
’وَن بیلٹ، وَن روڈ پروگرام‘
ایغور نسل کا ایک شہری صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کو جانے والے راستے پر جا رہا ہے۔ کاشغر نامی شہر کو، جو پہلے ایک تاریخی تجارتی چوکی ہوا کرتا تھا، صدر شی جن پنگ کے ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ نامی اُس اقتصادی پروگرام میں بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے، جس کے ذریعے وہ چین کو ایشیا، مشرقِ وُسطیٰ اور اُس سے بھی آگے واقع خطّوں کے ساتھ جوڑ دینا چاہتے ہیں۔
چین کو ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ میں خلل کا اندیشہ
خود مختار علاقے سنکیانگ ایغور میں ایک شخص اپنی بھیڑیں چرا رہا ہے۔ چین کے بدترین خدشات میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی بہت بڑے پیمانے کا حملہ بیجنگ میں اُس ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ کو نشانہ بنا سکتا ہے، جس میں کئی عالمی رہنماؤں کی شرکت متوقع ہے۔ علاقائی صدر مقام اُرمچی میں 2009ء میں ہونے والے نسلی ہنگاموں کے بعد سے سنکیانگ خونریز پُر تشدد واقعات کا مرکز بنا ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
چین میں نسلی اقلیت
ایک خاتون صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کے قریب ایک قبر پر دعا مانگ رہی ہے۔ ایغور ترک زبان بولنے والی اقلیت ہے، جس کے زیادہ تر ارکان سنی مسلمان ہیں۔ ایغوروں کا شمار چین میں سرکاری طور پر تسلیم شُدہ پچپن اقلیتوں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ ایغور مجموعی طور پر ایک قدرے معتدل اسلام پر عمل پیرا ہیں لیکن کچھ ایغور جا کر مشرقِ وُسطیٰ میں مسلمان ملیشیاؤں میں شامل ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
کمیونسٹ پارٹی کا دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا عزم
چینی میڈیا کے مطابق کسی دہشت گردانہ حملے کا خطرہ بہت زیادہ ہے اور اسی لیے کمیونسٹ پارٹی نے بھی مسلمان انتہا پسندوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ مثلاً چینی حکام نے مسلمان کمیونٹی کے رسم و رواج پر کئی طرح کی پابندیاں لگا دی ہیں۔ ریاستی پراپیگنڈے کو ’رَد کرنا‘ غیر قانونی قرار دیا گیا حالانکہ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ حکام اس ضابطے کو نافذ کیسے کریں گے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب
بہت سے مقامی باشندوں کے خیال میں انسدادِ دہشت گردی کی مشقیں ایک ظالمانہ سکیورٹی آپریشن کا حصہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ چند مہینوں سے سنکیانگ کے ایغور علاقوں میں یہ آپریشن تیز تر کر دیا گیا ہے اور اس کا مقصد سکیورٹی سے زیادہ بڑے پیمانے پر نگرانی کرنا ہے۔ کاشغر میں ایک دکاندار نے بتایا:’’ہماری کوئی نجی زندگی نہیں رہ گئی۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ کیا کرنے والے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/T. Peter
مسلمانوں کی مخصوص روایات پر پابندی
مردوں پر لگائی گئی سب سے نمایاں پابندی یہ ہے کہ وہ اپنی ’داڑھیاں غیر معمولی طور پر نہ بڑھائیں‘۔ خواتین پر نقاب پہننے کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ خاص طور پر ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں جیسے عوامی مقامات میں برقعہ کرنے والی خواتین کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے اور فوراً پولیس کو مطلع کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سکیورٹی عملے کے چوکس ارکان
حکام نے ایسے لوگوں کے لیے انعام کا اعلان کر رکھا ہے، جو لمبی داڑھیوں والے نوجوانوں یا ایسی مذہبی روایات کی پاسداری کی اطلاع دیں گے، جس میں انتہا پسندی کا پہلو نکل سکتا ہو۔ اس طرح مخبری کا ایک باقاعدہ نظام تشکیل دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار گروپ ایسے احکامات کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
معیشت یا سلامتی؟
حکومت سنکیانگ میں جبر کی پالیسیاں اختیار کرنے کے الزامات کو مسترد کرتی ہے اور اُن بھاری رقوم کا ذکر کرتی ہے، جو معدنی وسائل سے مالا مال اس خطّے کی اقتصادی ترقی کے لیے خرچ کی جا رہی ہیں۔ چین کی نسلی پالیسیوں کے ایک ماہر جیمز لائی بولڈ کے مطابق سنکیانگ میں سکیورٹی کے اقدامات لوگوں اور خیالات کے بہاؤ کو روکیں گے اور یوں ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ پروگرام کے خلاف جاتے ہیں۔