چینی ہیکرز نے امریکی کمپنیوں کو نشانہ بنایا، مائیکرو سافٹ
3 مارچ 2021
امریکی کمپنی مائیکرو سافٹ کا کہنا ہے کہ ہیکروں نے اس کے ای میل سافٹ ویئر سرور میں ایک بَگ کا فائد اٹھا یا تاہم اس سے نجی اکاؤنٹس کے بجائے ادارے متاثر ہوئے ہیں۔
اشتہار
امریکی کمپنی مائیکرو سافٹ نے منگل دو مارچ کو بتایا کہ چینی حمایت یافتہ ہیکرز کے ایک گروپ نے ان کی کمپنی کے ای میل سرور میں ایک نقص کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکا میں واقع اداروں کو نشانہ بنا یا۔
اطلاعات کے مطابق چین سے آپریٹ کرنے والے ہیکروں کے اس گروپ نے متعدی امراض کی تحقیق کے ادارے، قانونی اداروں، یونیورسٹیوں اور دیگر نجی اداروں جیسی متعدد امریکی کمپنیوں سے متعلق معلومات ہیک کرنے کی کوشش کی۔
مائیکرو سافٹ نے ہیکرزکے گروپ کو ''انتہائی ہنر مند اور نفیس'' قرار دیتے ہوئے اس گروپ کا نام ''ایچ اے ایف این آئی یو ایم'' (ہافنیم) بتا یا۔ کمپنی کا کہنا ہے اس نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اپنی سائیبر سکیورٹی بڑھا دی ہے۔
اشتہار
ہیکنگ کیسے ہوئی؟
مائیکرو سافٹ کا کہنا تھا کہ ''ایچ اے ایف این آئی یو ایم'' (ہافنیم) نے رسائی کے لیے بڑی چالاکی سے اس کے ایکسچینج سرور میں دھوکہ دہی سے کام کیا۔
کمپنی کے مطابق چونکہ بیشتر ادارے عموما ًکام کی ای میل اور کیلنڈر سروسز کے لیے ایکسچینج سرور سافٹ ویئر کا استعمال کرتی ہیں۔ اس لیے، ہیکنگ سے ذاتی ای میل اکاؤنٹس یا مائیکروسافٹ کی کلاؤڈ پر مبنی خدمات متاثر نہیں ہوتی ہیں۔
موبائل فون اور ہماری صحت کا آپس میں کوئی تعلق ہے یا نہیں؟
03:49
ہیکرز نے اپنے آپ کو کسی کی نگاہ میں آنے سے بچانے کے لیے مبینہ طور پر امریکا میں لیز پر رکھے ورچوئل نجی سرور کا استعمال کیا۔مائیکرو سافٹ کے مطابق اس گروپ نے کسی ایسے شخص کی نقل کرنے کی کوشش کی جس کو ٹارگٹ سرور تک رسائی حاصل تھی اور مختلف اداروں کے نیٹ ورک سے معلومات ہیک کرنے کے لیے انہیں فاصلے سے ہی کنٹرول کیا۔
تاہم کمپنی نے ہیکنگ سے متاثر ہونے والے اداروں کے نام یا پھر ایسی تفصیلات نہیں بتائیں کہ اس سے کتنی کمپنیاں متاثر ہوئی ہیں۔
سائیبر سکیورٹی نے ہیکنگ کا پتہ لگایا
مائیکروسافٹ کا کہنا ہے کہ سائیبر سکیورٹی کے لیے معروف ورجینیا کی کمپنی 'ولوکسٹی' نے اس سائیبر حملے کہ پتہ لگانے میں ان کی کافی مدد کی۔
ٹیکنالوجی کے عہد کے لیے تیار، کون سا ملک کہاں کھڑا ہے؟
ٹیکنالوجی کی دنیا کی تیز رفتار ترقی ناممکن کو ممکن بنانے کی جانب گامزن ہے۔ امکانات کی اس عالمگیر دنیا میں جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہوئے بغیر ترقی کرنا ناممکن ہو گا۔ دیکھیے کون سا ملک کہاں کھڑا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
آسٹریلیا، سنگاپور، سویڈن – سب سے آگے
دی اکانومسٹ کے تحقیقی ادارے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق آئندہ پانچ برسوں کے لیے یہ تینوں ممالک ایک جتنے نمبر حاصل کر کے مشترکہ طور پر پہلے نمبر پر ہیں۔ سن 2013 تا 2017 کے انڈیکس میں فن لینڈ پہلے، سویڈن دوسرے اور آسٹریلیا تیسرے نمبر پر تھا۔
تصویر: Reuters/A. Cser
جرمنی، امریکا، فن لینڈ، فرانس، جاپان اور ہالینڈ – چوتھے نمبر پر
یہ چھ ممالک یکساں پوائنٹس کے ساتھ چوتھے نمبر ہیں جب کہ امریکا پہلی مرتبہ ٹاپ ٹین ممالک کی فہرست میں شامل ہو پایا ہے۔ گزشتہ انڈیکس میں جرمنی تیسرے اور جاپان آٹھویں نمبر پر تھا۔ ان سبھی ممالک کو 9.44 پوائنٹس دیے گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Schwarz
آسٹریا، سمیت پانچ ممالک مشترکہ طور پر دسویں نمبر پر
گزشتہ انڈیکس میں آسٹریا جرمنی کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھا تاہم دی اکانومسٹ کی پیش گوئی کے مطابق اگلے پانچ برسوں میں وہ اس ضمن میں تیز رفتار ترقی نہیں کر پائے گا۔ آسٹریا کے ساتھ اس پوزیشن پر بیلجیم، ہانگ کانگ، جنوبی کوریا اور تائیوان جیسے ممالک ہیں۔
تصویر: Reuters
کینیڈا، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ، ایسٹونیا، نیوزی لینڈ
8.87 پوائنٹس کے ساتھ یہ ممالک بھی مشترکہ طور پر پندرھویں نمبر پر ہیں
تصویر: ZDF
برطانیہ اور اسرائیل بائیسویں نمبر پر
اسرائیل نے ٹیکنالوجی کے شعبے میں تحقیق کے لیے خطیر رقم خرچ کی ہے۔ 8.6 پوائنٹس کے ساتھ برطانیہ اور اسرائیل اس انڈیکس میں بیسویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Reuters
متحدہ عرب امارات کا تئیسواں نمبر
مشرق وسطیٰ کے ممالک میں سب سے بہتر درجہ بندی یو اے ای کی ہے جو سپین اور آئرلینڈ جیسے ممالک کے ہمراہ تئیسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: Imago/Xinhua
قطر بھی کچھ ہی پیچھے
گزشتہ انڈیکس میں قطر کو 7.5 پوائنٹس دیے گئے تھے اور اگلے پانچ برسوں میں بھی اس کے پوائنٹس میں اضافہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے باوجود اٹلی، ملائیشیا اور تین دیگر ممالک کے ساتھ قطر ستائیسویں نمبر پر ہے۔
تصویر: picture alliance/robertharding/F. Fell
روس اور چین بھی ساتھ ساتھ
چین اور روس کو 7.18 پوائنٹس دیے گئے ہیں اور ٹیکنالوجی کے عہد کی تیاری میں یہ دونوں عالمی طاقتیں سلووینیہ اور ارجنٹائن جیسے ممالک کے ساتھ 32ویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/G. Baker
مشرقی یورپی ممالک ایک ساتھ
ہنگری، بلغاریہ، سلوواکیہ اور یوکرائن جیسے ممالک کی ٹیکنالوجی کے عہد کے لیے تیاری بھی ایک ہی جیسی دکھائی دیتی ہے۔ اس بین الاقوامی درجہ بندی میں یہ ممالک انتالیسویں نمبر پر ہیں۔
تصویر: Imago
بھارت، سعودی عرب اور ترکی بھی قریب قریب
گزشتہ انڈیکس میں بھارت کے 5.5 پوائنٹس تھے تاہم ٹیکنالوجی اختیار کرنے میں تیزی سے ترقی کر کے وہ اب 6.34 پوائنٹس کے ساتھ جنوبی افریقہ سمیت چار دیگر ممالک کے ساتھ 42 ویں نمبر پر ہے۔ سعودی عرب 47 ویں جب کہ ترکی 49 ویں نمبر پر ہے۔
تصویر: AP
پاکستان، بنگلہ دیش – تقریباﹰ آخر میں
بیاسی ممالک کی اس درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر 77واں ہے جب کہ بنگلہ دیش پاکستان سے بھی دو درجے پیچھے ہے۔ گزشتہ انڈیکس میں پاکستان کے 2.40 پوائنٹس تھے جب کہ موجودہ انڈیکس میں اس کے 2.68 پوائنٹس ہیں۔ موبائل فون انٹرنیٹ کے حوالے سے بھی پاکستان سے بھی پیچھے صرف دو ہی ممالک ہیں۔ انگولا 1.56 پوائنٹس کے ساتھ سب سے آخر میں ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
11 تصاویر1 | 11
اس کمپنی کے سربراہ اسٹیون اڈائر نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ وہ گزشتہ جنوری سے ہی ایسی مشتبہ سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا، ''اس وقت جتنی خراب صورت حال ہے، میرے خیال سے اس سے بہت زیادہ برا حال ہونے والا ہے۔
ہیکرز امریکا کو مسلسل نشانہ بنا رہے ہیں
گزشتہ کئی برسوں کے دوران ہیکنگ کی ایسے متعدد واقعات کے بعد امریکا نے اپنی سائیبر سکیورٹی کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔
گزشتہ برس صدر ٹرمپ نے کئی حکومتی اداروں کو نشانہ بنانے کے لیے چین پر ہیکنگ کا الزام عائد کیا تھا جبکہ ان کی انتظامیہ کے ایک اعلی عہدیدار نے اس کے لیے روس کومورد الزام ٹھہرایا تھا۔
سن 2013 میں امریکی سائیبر سکیورٹی کمپنیوں نے ایک برس کے دوران تقریباً 150 ایسے ہیکنگ حملوں کا پتہ لگایا تھا اور اس کا الزام چینی فوج پر عائد کیا تھا۔ تاہم چین ایسی کسی بھی سرگرمی میں ملوث ہونے یا ایسے تمام الزامات سے ہمیشہ انکار کرتا رہا ہے۔