چین اسلامی اقدار میں ’ترامیم‘ سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟
9 جنوری 2019
چینی حکومت ایک ایسے پلان پر کام کر رہی ہے، جس کے تحت اسلامی اقدار کو چینی سیاسی ترجیحات کے تحت مسلمانوں میں عام کرنا ہے۔ اس سلسلے میں مختلف صوبوں کی مسلم تنظیموں کو ببیجنگ میں منعقدہ ایک سمینار میں مدعو کیا گیا تھا۔
اشتہار
اس مجوزہ چینی منصوبے کی تفصیلات بیجنگ حکومت کی نگرانی میں شائع ہونے والے انگریزی اخبار گلوبل ٹائمز میں شائع ہوئی ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق آٹھ چینی صوبوں میں آباد مسلمانوں کی مذہبی تنظیموں کے نمائندوں کو دارالحکومت بیجنگ میں منعقد کیے گئے ایک سمینار میں مدعو کیا گیا۔ شرکاء پر واضح کیا گیا کہ حکومت اسلامی اقدار کو ’چینی خطوط‘ پر آگے بڑھانا چاہتی ہے۔ اس سمینار میں مسلم تنظیموں کے نمائندوں پر یہ بھی واضح کیا گیا کہ بیجنگ حکومت مسلمانوں کے بنیادی سیاسی موقف کو اس انداز میں آگے لے جانا چاہتی ہے، جس سے کمیونسٹ پارٹی اُن کی قیادت کر سکے۔
امریکا کی اوکلاہاما یونیورسٹی کے چینی امور کے ماہر ڈیوڈ اسٹروپ کا اِس نئی پیش رفت پر کہنا ہے کہ چینی حکومت اسلامی گروپوں کے گرد گھیرا تنگ کرنا چاہتی ہے اور مختلف مقامات پر سے غیر ملکی آثار کو ہٹانے کے اقدامات کرنا چاہتی ہے۔ ڈیوڈ اسٹروپ کا مزید کہنا ہے کہ اس سے مراد عربی رسم الخط کے نشانات بھی ہیں، جو عموماً مساجد کا حصہ ہوتے ہیں۔ اسٹروپ کا خیال ہے کہ چینی حکومت مسلمانوں کے عقیدے پر بھی کنٹرول کی کوشش میں ہے اور اس سلسلے کو روکنے کے لیے بین الاقوامی دباؤ کو بڑھانا ضروری ہو گیا ہے۔
یہ چینی حکومتی پلان اُن پولیس چھاپوں کے چند روز بعد سامنے آیا ہے، جو تین غیر رجسٹرڈ مساجد پر مارے گئے تھے۔ یہ مساجد جنوب مغربی صوبے یُننان میں واقع تھیں۔ پولیس کے چھاپوں کے دوران مسلمانوں اور پولیس کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں درجنوں زخمی بھی ہوئے اور کم از کم چالیس افراد کو حراست میں بھی لیا گیا۔
کئی اور ناقدین کا بھی خیال ہے کہ اسلام کو چینی رنگ دینا بھی مسلمانوں پر وسیع کریک ڈاؤن کا سلسلہ ہے اور خاص طور پر اس کا نشانہ سنکیانگ کا علاقہ ہے۔ ایسا رپورٹ کیا گیا ہے کہ سنکیانگ میں دس لاکھ مسلمانوں کو مختلف کیمپوں میں نظربند کر کے رکھا گیا ہے۔ ان اقدامات نے چین کے بقیہ مختلف صوبوں میں آباد مسلمانوں میں بھی تشویش پیدا کر دی ہے اور یہ خوف لاحق ہے کہ بیجنگ حکومت چینی اقدار میں رنگا ہوا اسلام اُن پر مسلط کرنا چاہتی ہے۔
امریکا ہی کی فراسٹ برگ اسٹیٹ یونیورسٹی سے منسلک تاریخ کی پروفیسر ہے یُون ما کا خیال ہے کہ نئے چینی اقدامات اِس حکومت کی اجانب دشمنی پر مبنی ہیں اور چینی اقدار میں رنگے اسلام کی بنیاد کمیونسٹ پارٹی لادینیت پر رکھنا چاہتی ہے۔ ما کا یہ بھی کہنا ہے کہ بیجنگ حکومت عرب اثرات کو بھی خطرناک خیال کرتی ہے اور چینی مسلمانوں کی زندگیوں میں سے عرب اثرات کو مٹانے کی خواہش رکھتی ہے۔
چین کی ہوئی یا خُوذُو مسلم اقلیت
چین میں ایغور مسلم کمیونٹی کے علاوہ شمال مغربی چین میں خُوذُو مسلم اقلیت بھی آباد ہے۔ ان کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے۔ یہ زیادہ تر ننگ شا، گانسُو اور چنگ ہائی علاقوں میں آباد ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
خوذو مسلمانوں کا شہر لِنشیا، چھوٹا مکہ
ہُوئی یا خُوذُو مسلمان اکثریتی شہر لِنشیا کو ’چھوٹا مکہ‘ کے نام سے چین میں شہرت حاصل ہے۔ اس شہر میں چھوٹی بڑی 80 مساجد واقع ہے۔ یہ شہر دریائے ڈاشیا کے کنارے پر آباد ہے۔ ایغور مسلم دانشور خُوذُو مسلم کمیونٹی کو چین کی ہان نسل کے مسلمان قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا میں عورتیں سر پر سکارف پہنتی ہیں
خوذو مسلم خواتین خاصی متحرک اور فعال تصور کی جاتی ہیں۔ بڑی عمر کی عورتوں میں سفید اسکارف پہننا عام طور پر دیکھا گیا ہے۔ ان کا اسکارف چینی انداز کا ہوتا ہے۔ اب کئی نوجوان لڑکیوں میں ایسے جدید پہناوے پسند کیے جاتے ہیں، جن سے برہنگی ظاہر نہ ہو۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا: سبز گنبدوں والا شہر
گانسو صوبے کا شہر لِنشیا ڈھائی لاکھ سے زائد آبادی کا شہر ہے۔ اس کی اکثریتی آبادی چینی زبان بولنے والے خُوذُو مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس شہر کی مساجد ہر جمعے کے دن نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
نوجوان لڑکیوں کے لیے قرآنی تعلیم کا سلسلہ
خُوذُو مسلمان کمیونٹی اپنی مساجد میں خاص طور پر مذہبی کتاب قرآن کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان مساجد میں نوعمر لڑکیوں کو بھی قرآن پڑھایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Wong
خوذو مسلمان
چین میں دس بڑے نسلی گروپوں میں خوذو یا ہوئی مسلمان بھی شمار ہوتے ہیں۔ یہ زیادہ تر چین کے اقتصادی طور پر کمزو علاقے میں آباد ہیں۔ اس علاقے میں تعلیم بھی اتنی عام نہیں جتنی بقیہ چینی شہروں میں ہے۔ یہ ایغور نسل کے مسلمان نہیں تصور کیے جاتے۔ تصویر میں ایک قصبےوُوہژونگ کی مسجد میں شام کی نماز ادا کی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Weiken
خواتین میں دینی شعار کا شوق
نوجوان لڑکیاں مختلف رنگوں کے اسکارف پہنتی ہیں۔ مساجد میں پہنچ پر قرآن کی تلاوت کرنا بھی خُوذُو یا ہُوئی خواتین کو پسند ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Reynolds
چینی صدر کا خُوذُو مسلمانوں کی مسجد کا دورہ
چین کے صدر شی جن پنگ نے سن 2016 میں نِنگ شا کے علاقے یِن چوان کی ایک مسجد کا دورہ کیا تھا۔ مسجد میں پہنچ کر انہوں نے مقامی ہُوئی مسلمانوں سے ملاقات کے ساتھ ساتھ اُن کے عمومی مسائل پر گفتگو کی۔ چینی صدر تین دن تک نِنگ شا میں مقیم رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press/J. Peng
نِنگ شا کا نیم خود مختار علاقہ
چین کے شمال مغرب میں واقع ننگ شا کے نیم خود مختار علاقے کا فضائی منظر۔ یہ علاقہ پہاڑوں میں گھِرا ہوا ہے اور چین کے پسماندہ علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس علاقے کی زمینیں بنجر ہیں اور قحط سالی بھی چلتی رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شرح بیروزگاری بھی معمول سے زیادہ رہی ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں بیجنگ حکومت نے اس علاقے پر توجہ مرکوز کی ہے اور اب واضح معاشی تبدیلیاں ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں۔