یورپی یونین نے چین سے انسانی حقوق کا احترام کرنے اور اپنے مارکیٹ کھولنے پر زوردیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ یورپی یونین اور چین کے مابین تعلقات کے لیے بنیادی شرائط ہیں۔
اشتہار
یورپی یونین کے رہنماوں نے پیر کے روز ای یو۔ چین ورچوول سمٹ میں بیجنگ سے کہا کہ وہ اپنے مارکیٹ کھولے اور انسانی حقوق کا احترام کرے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ایک ورچوول پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ”پچھلے 15برسوں میں چین اقتصادی لحاظ سے بہت طاقت ور بن چکا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ سب کے لیے یکساں مواقع فراہم کرنے کا مطالبہ آج پہلے سے کہیں زیادہ انصاف پر مبنی ہے۔"
ابتدا میں یہ توقع تھی کہ یہ سمٹ یورپی یونین اور چین کے درمیان تعلقات میں ایک اہم پیش رفت کا موجب ہوگا۔ تاہم کورونا وائرس کی وبا سمیت متعدد رکاوٹوں کی وجہ سے دونوں طرف سے حکام کو مجبوراً یہ سمٹ آن لائن منعقد کرنا پڑا۔
سنکیانگ سے تبت تک
یورپی افسران نے چین پر سنکیانگ تک رسائی دینے کے لیے زور دیا۔ جہاں چینی حکام نے مبینہ طور پر دس لاکھ ایغور مسلمانوں کو ان کے مذہبی عقائد کی وجہ سے حراستی مراکز میں رکھا ہوا ہے۔ بیجنگ کا کہنا ہے کہ یہ کیمپ انتہا پسندی پر قابو پانے کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔
یورپی کونسل کے صدر چارلس مائیکل کا کہنا تھا ”ہم نے سنکیانگ اور تبت میں اقلیتوں کے تئیں چین کے سلوک کے حوالے سے اپنی تشویش کا اعادہ کیا۔ ہم نے چین سے سنکیانگ میں آزاد مشاہدین بھیجنے کے لیے کہا اور سویڈش شہری گوئی منہائی اور دو کنیڈیائی شہریوں، جنہیں جبرا ً گرفتار کیا گیا ہے، کو رہا کرنے کی اپیل کی۔"
راستے کی تلاش
روزانہ ایک بلین یورو سے زیادہ کی باہمی تجارت کے ساتھ چین، یورپی یونین کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے، جو اسے ایک اہم مارکیٹ بھی بناتا ہے۔
گوکہ حکام نے باہمی تجارتی معاہدے کو نرم بنانے کے سلسلے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سنگل مارکیٹ تک چین کی رسائی کو سخت کرسکتا ہے۔
چین: ایغور مسلمان بچوں کی شرح پیدائش کم کرنے کی جبری کوشش
02:50
بہر حال یورپی یونین کے حکام کی طرف سے سخت تبصروں کے باوجود یورپی یونین نے خوردنی اشیاء اور مشروبات کی برآمدات کے باہمی تحفظ کے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔
اس معاہدے کو یورپی یونین کے لیے بڑی کامیابی قرار دیا جارہا ہے کیوں کہ اس معاہدے کے بعد امریکا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ اب اپنی اشیاء چین کو ایکسپورٹ کرتے وقت خوردنی اشیاء کے مخصوص یورپی نام استعمال نہیں کرسکیں گے۔
یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائن کا کہنا تھا” اگر ہم یورپی اقتصادی مفادات کو فروغ دینا چاہتے ہیں، اپنے ماحول کا تحفظ کرنا چاہتے ہیں اور بنیادی قدروں اور حقوق کا دفاع کرنا چاہتے ہیں توچین کے ساتھ اعلی سطح پر روابط بہت اہم ہیں۔" انہوں نے کہا ”ہم چینی مارکیٹ تک رسائی کے سلسلے میں حقیقتاً کافی سنجیدہ ہیں۔"
ج ا/ ص ز(اے ایف پی، روئٹرز)
چین میں ایغوروں کا دیس سکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل
چین کا کہنا ہے کہ اُسے اپنے مغربی علاقے سنکیانگ میں مسلمان انتہا پسندی کے ایک سنگین خطرے کا سامنا ہے۔ بیجنگ حکومت کا الزام ہے کہ ایغور مسلم اقلیت ہان چینی اکثریت کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
مغربی چینی علاقے سنکیانگ میں حفاظتی انتظامات سخت تر
چین کی قدیم شاہراہِ ریشم پر واقع شہر کاشغر میں دن میں تین بار الارم بجتا ہے اور دکاندار حکومت کی طرف سے دیے گئے لکڑی کے ڈنڈے تھامے فوراً اپنی دکانوں سے باہر نکل آتے ہیں۔ پولیس کی نگرانی میں منظم کی جانے والی ان انسدادِ دہشت گردی مشقوں کے دوران یہ دکاندار چاقو لہرانے والے فرضی حملہ آوروں کے خلاف لڑتے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
’وَن بیلٹ، وَن روڈ پروگرام‘
ایغور نسل کا ایک شہری صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کو جانے والے راستے پر جا رہا ہے۔ کاشغر نامی شہر کو، جو پہلے ایک تاریخی تجارتی چوکی ہوا کرتا تھا، صدر شی جن پنگ کے ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ نامی اُس اقتصادی پروگرام میں بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے، جس کے ذریعے وہ چین کو ایشیا، مشرقِ وُسطیٰ اور اُس سے بھی آگے واقع خطّوں کے ساتھ جوڑ دینا چاہتے ہیں۔
چین کو ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ میں خلل کا اندیشہ
خود مختار علاقے سنکیانگ ایغور میں ایک شخص اپنی بھیڑیں چرا رہا ہے۔ چین کے بدترین خدشات میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی بہت بڑے پیمانے کا حملہ بیجنگ میں اُس ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ کو نشانہ بنا سکتا ہے، جس میں کئی عالمی رہنماؤں کی شرکت متوقع ہے۔ علاقائی صدر مقام اُرمچی میں 2009ء میں ہونے والے نسلی ہنگاموں کے بعد سے سنکیانگ خونریز پُر تشدد واقعات کا مرکز بنا ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
چین میں نسلی اقلیت
ایک خاتون صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کے قریب ایک قبر پر دعا مانگ رہی ہے۔ ایغور ترک زبان بولنے والی اقلیت ہے، جس کے زیادہ تر ارکان سنی مسلمان ہیں۔ ایغوروں کا شمار چین میں سرکاری طور پر تسلیم شُدہ پچپن اقلیتوں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ ایغور مجموعی طور پر ایک قدرے معتدل اسلام پر عمل پیرا ہیں لیکن کچھ ایغور جا کر مشرقِ وُسطیٰ میں مسلمان ملیشیاؤں میں شامل ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
کمیونسٹ پارٹی کا دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا عزم
چینی میڈیا کے مطابق کسی دہشت گردانہ حملے کا خطرہ بہت زیادہ ہے اور اسی لیے کمیونسٹ پارٹی نے بھی مسلمان انتہا پسندوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ مثلاً چینی حکام نے مسلمان کمیونٹی کے رسم و رواج پر کئی طرح کی پابندیاں لگا دی ہیں۔ ریاستی پراپیگنڈے کو ’رَد کرنا‘ غیر قانونی قرار دیا گیا حالانکہ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ حکام اس ضابطے کو نافذ کیسے کریں گے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب
بہت سے مقامی باشندوں کے خیال میں انسدادِ دہشت گردی کی مشقیں ایک ظالمانہ سکیورٹی آپریشن کا حصہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ چند مہینوں سے سنکیانگ کے ایغور علاقوں میں یہ آپریشن تیز تر کر دیا گیا ہے اور اس کا مقصد سکیورٹی سے زیادہ بڑے پیمانے پر نگرانی کرنا ہے۔ کاشغر میں ایک دکاندار نے بتایا:’’ہماری کوئی نجی زندگی نہیں رہ گئی۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ کیا کرنے والے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/T. Peter
مسلمانوں کی مخصوص روایات پر پابندی
مردوں پر لگائی گئی سب سے نمایاں پابندی یہ ہے کہ وہ اپنی ’داڑھیاں غیر معمولی طور پر نہ بڑھائیں‘۔ خواتین پر نقاب پہننے کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ خاص طور پر ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں جیسے عوامی مقامات میں برقعہ کرنے والی خواتین کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے اور فوراً پولیس کو مطلع کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سکیورٹی عملے کے چوکس ارکان
حکام نے ایسے لوگوں کے لیے انعام کا اعلان کر رکھا ہے، جو لمبی داڑھیوں والے نوجوانوں یا ایسی مذہبی روایات کی پاسداری کی اطلاع دیں گے، جس میں انتہا پسندی کا پہلو نکل سکتا ہو۔ اس طرح مخبری کا ایک باقاعدہ نظام تشکیل دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار گروپ ایسے احکامات کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
معیشت یا سلامتی؟
حکومت سنکیانگ میں جبر کی پالیسیاں اختیار کرنے کے الزامات کو مسترد کرتی ہے اور اُن بھاری رقوم کا ذکر کرتی ہے، جو معدنی وسائل سے مالا مال اس خطّے کی اقتصادی ترقی کے لیے خرچ کی جا رہی ہیں۔ چین کی نسلی پالیسیوں کے ایک ماہر جیمز لائی بولڈ کے مطابق سنکیانگ میں سکیورٹی کے اقدامات لوگوں اور خیالات کے بہاؤ کو روکیں گے اور یوں ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ پروگرام کے خلاف جاتے ہیں۔