1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین اور افغانستان کے درمیان کانکنی کی ڈیل خطرات کی شکار

عابد حسین1 اگست 2013

افغانستان کے معدنی ذخائر کی مالیت تین ٹرلین ڈالر کے مساوی خیال کی جاتی ہے۔ امن و امان کی مخدوش صورت حال کے تناظر میں افغانستان اور چین کے درمیان اربوں ڈالر کی کانکنی کی ڈیل ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

تصویر: picture alliance/landov

یہ سن 2007 کی بات ہے جب چین کے دھات کاری کے قومی ادارے چائنا میٹالرجیکل گروپ کارپوریشن (MCC) نے مشرقی افغان صوبے لوگر کے علاقے میس آئنیک (Mes Aynak) میں قیمتی سمجھی جانے والی دھات تانبے کی ایک کان کو کھودنے کے حقوق حاصل کیے تھے۔ میس آئنیک کے مقام پر تانبے کے ذخائر کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا بھر میں تانبے کے بڑے ذخائر میں سے ایک ہیں اور اس مقام سے تانبا نکالنے کا کام ابھی شروع نہیں ہو سکا ہے۔

میس آئنیک کا مقامی زبان میں ترجمہ چھوٹا تانبے کا کنواں ہے۔ سن 2007 میں اس کان میں موجود تانبے کے ذخائر کی مالیت 35 بلین امریکن ڈالر تھی اور آج چینی کمپنی کے نزدیک اس کان میں موجود ذخائر کی مالیت 10 بلین ڈالر ہے۔

گزشتہ چھ سالوں کے دوران اس کان سے ایک گرام تانبا بھی نہیں نکالا گیا۔ آج یہ منصوبہ ناکامی کی دہلیز پر پہنچ گیا ہے۔ اس مناسبت سے افغان وزیر برائے مائنز اور پٹرولیم وحیداللہ شہرانی نے سلامتی کی خراب صورت حال کو سب سے بڑی وجہ قرار دیا ہے۔ وحید اللہ شہرانی کا مزید کہنا ہے کہ تانبے کی کان کا مقام بدھ مت کے قدیمی آثار کی وجہ سے بھی انتہائی اہم ہے۔ میس آئنیک میں بدھ دور کے 15 سو سالہ قدیمی آثار موجود ہیں۔ افغان وزیر تانبے کو نکالنے سے قبل اس قدیمی خزانے کو محفوظ کرنے کو بھی اہم خیال کرتے ہیں۔

یہ دنیا بھر میں تانبے کے بڑے ذخائر میں سے ایک ہیں اور اس مقام سے تانبا نکالنے کا کام ابھی شروع نہیں ہو سکا ہےتصویر: picture alliance/landov

افغان حکومت کا خیال ہے کہ چینی دھات کاری کی کمپنی میسں آئنیک میں تانبے کو نکالنے کے لیے متحرک نہیں ہے۔ کابل حکومت کے وزیر وحید اللہ شہرانی نے چینی کمپنی کے حکام سے جلد ملاقات کرنے کا ارادہ بھی ظاہرکیا ہے۔ کرزئی حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ ابھی تک چینی ادارہ چائنا میٹالرجیکل گروپ کارپوریشن اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔ اس پراجیکٹ کے لیے ہونے والی ڈیل میں چینی کمپنی کو علاقے میں ایک ریلوے لائن تعمیرکرنے کے علاوہ 400 میگا واٹ کا ایک بجلی گھر بھی قائم کرنا ہے اور حکومت کو 808 ملین ڈالر کا بونس بھی ادا کرنا ہے۔

کابل حکومت نے صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ طے شدہ ڈیل پر نظرثانی کا سوچ رہی ہے۔ افغان حکومت کے صنعتی شعبے سے وابستہ ادارے کی نمائندہ زرغونہ رسا کا کہنا ہے کہ افغان حکومت اُس رویے پر ناخوش ہے، جو چینی کمپنی نے کنٹریکٹ حاصل کرنے کے بعد سے اختیار کر رکھا ہے۔ زرغونہ رسا نے کنٹریکٹ کو منسوخ کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ دوسری جانب ایک افغان غیر سرکاری تنظیم سے وابستہ جاوید نورانی کے مطابق بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ چینی حکومت اس ڈیل کو منافع بخش نہیں خیال کرتی اور وہ بدھ مت کے آثار قدیمہ کو سامنے رکھ کر اس ڈیل سے پیچھے ہٹنا چاہتی ہے۔ بیجنگ میں حکام سکیورٹی کی انتہائی خراب صورت حال کو تاخیر کی وجہ قرار دیتے ہیں اور درحقیقت مشرقی صوبے لوگر کا مقام میس آئنیک پاکستان سے افغانستان داخل ہونے والے عسکریت پسندوں کے راستے پر واقع ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں