1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین اور بھارت ’آرکٹک کونسل‘ میں

Zubair Bashir16 مئی 2013

قطب شمالی کے امور سے متعلق رابطہ کاری کے لیے قائم کی گئی’آرکٹک کونسل‘ نے چین سمیت کئی دیگر ایشیائی ممالک کو مبصر کی حیثیت سے شمولیت کی اجازت دے دی ہے۔

Kanada Eisbären Nordwest-Passageتصویر: picture-alliance/dpa

قطبین پر برف پگھلنے کی وجہ سے وہاں تیل اور گیس سمیت کئی معدنیات کی دریافت کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔ اس حوالے سے اس خطے کی بڑھتی ہوئی تجارتی اہمیت نے دنیا کے کئی ممالک کی اس میں دلچسپی بڑھا دی ہے۔ کئی اور دیگر محاذوں پر برتری کے حصول کے لیے سرگرم بھارت اور چین بھی کافی عرصے سے ’آرکٹک کونسل‘ کا حصہ بننے کے لیے کوشاں تھے۔

یہاں برف پگھلنے کے ساتھ ساتھ نئی آبی گزر گاہیں جنم لیں گی۔تصویر: picture-alliance/dpa

’آرکٹک کونسل‘ کا نیم سالانہ اجلاس بدھ کے روز کی رونا سویڈن میں منعقد ہوا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی ایشیائی ملک کو اس اجلاس میں مبصر کی حیثیت سے شرکت کی اجازت دی گئی ہے۔

اس کونسل کا قیام 1996ء میں عمل میں آیا تھا۔ یہ کونسل بنیا دی طور پر آٹھ آرکٹک ممالک پر مشتمل ہے جن میں کینیڈا، ڈنمارک، فن لینڈ، آئس لینڈ، ناروے، روس، سویڈن اور امریکا شامل ہیں۔ کونسل کے ان آٹھ بنیادی رکن ممالک میں اتفاق کے بعد چین، جاپان، جنوبی کوریا، بھارت، سنگاپور اور اٹلی خصوصی حیثیت میں کونسل کا حصہ بنا لیا گیا ہے۔

اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے ناروے کے وزیر خارجہ Espen Barth Eide نے مبصر ممالک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’’ آپ مبصر ملک بن گئے ہیں یہ کوئی آسان بات نہیں ہے۔ ہم نے اس دن کے لیے بہت محنت کی ہے۔ آپ اس تنظیم کے جن اصولوں پر دستخط کر رہے ہیں آپ کو ان کی پاسداری بھی کرنا ہوگی۔‘‘

یہ کونسل خطے کے مقامی لوگوں کے حقوق اور اس کے نازک ماحولیاتی نظام کی محافظ کے طور پر کام کر رہی ہے۔ بدھ کے روز ہونے والے اجلاس میں یورپی یونین کو مبصر کی حیثیت دینے کے لیے فیصلے کو فی الحال ملتوی کر دیا گیا۔ اس کی وجہ یورپی یونین کا کینیڈا کے ساتھ ایک حل طلب تجارتی تنازعہ ہے۔

کونسل کے آئین کے مطابق مبصر ممالک کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ کونسل کی کارروائی سن سکیں اور اس کے مالی معاملات میں اپنی تجاویز دے سکیں۔

اس موقع پر شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کا کہنا تھا ،’’مختلف دلچسپیوں کے باوجود ہم نے تمام شرکاء سے یہی سنا ہے کہ ہمیں متحد ہوجانا چاہیے اور یہی وہ جذبہ ہے جو ہمیں دنیا کے اس آخری کونے میں لے آیا ہے، ہمیں اس کی بہتری کے لیے مل کر کام کرنے کا عہد نبھانا ہوگا۔‘‘

یہ کونسل بنیا دی طور پر آٹھ آرکٹک ممالک پر مشتمل ہے جن میں کینیڈا، ڈنمارک، فن لینڈ، آئس لینڈ، ناروے، روس، سویڈن اور امریکا شامل ہیںتصویر: DW/I.Quaile

آنے والے سالوں میں آرکٹک کونسل کی اہمیت مزید بڑھ جائے گی۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کرہء ارض کا یہ دور دراز علاقہ معدنی دولت سے مالا مال ہے۔ یہاں دنیا کے کل تیل کے ذخائر 13 فیصد اور گیس کے ذخائر کا 30 فیصد موجود ہے۔ یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں برف پگھلنے کے بعد ایک نئی آبی گزر گاہ جنم لے گی۔

کچھ عرصے سے چین کی اس خطے میں دلچسپی کافی بڑھ چکی ہے اور وہ یہاں کافی حوالوں سے سرگرم ہے۔ بیجنگ حکومت گرین لینڈ میں کان کنی صنعت میں سرمایہ کاری کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔ چین کا آئس لینڈ کے ساتھ بھی آزاد تجارت کا معاہدہ طے پاگیا ہے۔ یہاں نئی آبی گزر گاہیں بننے سے چین کی جہاز رانی کی صنعت کو بہت فائدہ ہوگا۔

zb/at(Reuters, AP)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں