چین اور بھارت پر سرطان کا بھاری بوجھ
14 اپریل 2014جمعے کے روز لین سیٹ آن کالوجی نامی جریدے میں شائع ہونے والی اس رپورٹ میں 40 سے زائد ماہرین نے ایشیا کے دو تیزی سے ترقی کرتے ہوئے ممالک میں اس بیماری کی وجہ سے اقتصادیات اور انسانی صحت پر پڑنے والے اثرات پر اپنی رائے دیتے ہوئے خبردار کیا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان دونوں ممالک میں سرطان کا مرض انتہائی تیزی سے انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بن رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق چین میں ہر پانچ میں سے ایک موت کے درپردہ یہ مرض کارفرما ہے۔ چین میں سب سے زیادہ اموات دل کے مرض کے باعث ہوتی ہیں اور اس کے بعد سرطان سب سے زیادہ موذی مرض ہے۔ رپورٹ کے مطابق چین میں سرطان کے مرض میں سے ساٹھ فیصد کی وجہ ’ماحولیاتی عناصر‘ ہیں، جن میں تمباکو نوشی، زہریلا پانی اور آلودہ ہوا شامل ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چین میں اس حوالے سے عوامی سطح پر شعور و آگہی انتہائی کم ہے اور زیادہ تر افراد مرض سے لڑنے کے لیے روایتی ادویات اور گھریلو ٹوٹکوں کا استعمال کرتے ہیں، جس کی وجہ سے باقاعدہ تشخیص تک مرض انتہائی بڑھ چکا ہوتا ہے اور قابل علاج نہیں رہتا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چین میں سرطان کے مرض کی تشخیص اور علاج کے حوالے سے سرمایے کی بھی انتہائی قلت ہے، جہاں قومی معیشت کا صرف پانچ اعشاریہ ایک فیصد صحت کے شعبے کے لیے رکھا جاتا ہے، جو یورپی ممالک کے اعتبار سے تقریباﹰ نصف بنتا ہے۔ صحت کے شعبے میں استعمال کیے جانے والے پیسے میں سے صرف صفر اعشاریہ ایک فیصد سرطان کے مرض کے خلاف استعمال ہوتا ہے جبکہ امریکا میں صحت کے شعبے میں خرچ کیے جانے والے سرمایے میں سے ایک فیصد سرطان کے خلاف خرچ ہوتا ہے، جو چین کے مقابلے میں دس گنا زیادہ ہے۔
چین میں کینسر کے علاج میں اخراجات کا زیادہ تر بوجھ مریضوں اور ان کے لواحقین کو اٹھانا پڑتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق چین کے شہری علاقوں میں دیہی علاقوں کے مقابلے میں ہسپتالوں میں تقریباﹰ دوگنی گنجائش ہے، جبکہ ملک کی نصف آبادی دیہی علاقوں میں مقیم ہے۔
اس مطالعاتی رپورٹ میں بھارت کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ بھارت میں ہر سال کینسر کے تقریباﹰ ایک ملین کیسز سامنے آ رہے ہیں، جن کی تعداد سن 2035 تک ایک اعشاریہ سات ملین ہو جائے گی۔ اس رپورٹ کے مطابق بھارت میں اس مرض کی وجہ سے ہر برس چھ سے سات لاکھ افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، جبکہ یہ تعداد سن 2035 تک بارہ لاکھ سالانہ ہو جائے گی۔
اس رپورٹ میں اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ بھارت میں سرطان کے تیس فیصد کے قریب مریض تشخیص کے پانچ برس میں ہلاک ہو جاتے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مرض کی تشخیص انتہائی تاخیر سے ہو رہی ہے۔ اعداد و شمار سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ کینسر کی وجہ سے زیادہ تر ہلاکتیں 30 تا 69 برسوں کی عمر کے افراد میں دیکھی گئی ہیں۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں خواتین میں چھاتی کا سرطان ایک اہم جان لیوا بیماری ہے اور ملک میں سرطان سے ہلاک ہونے والی ہر پانچ میں سے ایک خاتون اسی مرض کی وجہ سے لقمہء اجل بنتی ہے۔